• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی گیس بحران کا ذمہ دار کون؟ وزیر توانائی حماد اظہر اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آمنے سامنے


کراچی (ٹی وی رپورٹ)ملک میں بجلی اور گیس کے بحران کا ذمہ دار کون ہے؟ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے مناظرے کا چیلنج کیا جسے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے قبول کرلیا۔جیوکے پروگرام’ آج شاہ زیب خانزادہ کیساتھ‘میں ہونے والے مناظرے میں گفتگو کرتے ہوئے حماد اظہرکا کہنا تھا کہ ایس ایس جی سی کی گیس بندش مرمت کی وجہ سے نہیں ہے،ن لیگ کے دور میں فرنس آئل زیادہ سڑ رہا تھا۔اس موقع پر مفتاح اسماعیل نےکہا کہ بحث میں مزہ اس وقت آئے گا جب دونوں حقائق پر مبنی بات کریں، حماد اظہر کیوں غلط بیانی کر رہےہیں؟ آپ لوگ 3سال سے موجود ہیں، پائپ لائن آپ لوگوں نےنہیں بڑھائی،آپ لوگ مہنگا فرنس آئل لے رہےہیں،مہنگی بجلی دے رہےہیں۔حماد اظہرکا کہنا تھا کہ صرف ایک ایل این جی ٹرمینل کی مرمت ہو رہی ہے، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اپنی جگہ، یہ حقائق پر مبنی بات ہے،کل سےمرمت شروع ہوگی تو 75 ایم ایم سی ایف ٹی سسٹم سے نکلے گی۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے لوکل انڈسٹریز کی گیس بند کردی ہے،آپ نے آخری وقت پر پوچھا جس پر قطر نے منع کردیا،پلانٹس کی 6ماہ پہلےمرمت کرلیتے، آج ملک میں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے،آپ آج مہنگی گیس خرید رہے ہیں۔حماداظہر نےکہا کہ ایس ایس جی سی میں 15 فیصدگیس کی بندش ہے،85 فیصد دی جا رہی ہے، ہرگرمی میں تین سے چارگیس فیلڈز آؤٹیج میں جاتی ہیں،ہم نئے ٹرمینل کے لیے لائسنس جاری کر چکےہیں، 15 سال میں دو بار مرمت کی شق ن لیگ کے دور میں معاہدے میں شامل کی گئی۔مفتاح اسماعیل نےکہا کہ ان کے پاس لانگ ٹرم کا کوئی معاہدہ نہیں ،ہم نے 13.3فیصد کا گیس کا معاہدہ کیا، آپ مجھے کوئی ایک لانگ ٹرم پراجیکٹ دکھا دیں، 10.4 فیصد کے معاہدے پرگیس آج تک نہیں آئی، آپ نے لانگ ٹرم کنٹریکٹ کیا ہی نہیں،ہم بار بار کہتے ہیں کہ ایل این جی لے کر آئیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارامعاہدہ جنوری 2022 سے شروع ہوگا، اس سے پہلے ن لیگ کا معاہدہ ہم سےچمٹاہوا ہے،چار منٹ مفتاح اسماعیل ایک ہی بات کرتے رہے، ان کا قطری خط ٹھیک ہے اور ہمارا قطر سے معاہدہ کاغذ کا ٹکڑ اہے؟ن لیگی رہنما نےکہا کہ آپ شارٹ ٹرم معاہدے سےگیس لا رہے ہیں، آپ جہاں سے بھی گیس خرید رہےہیں وہ مہنگی لے رہے ہیں، فرنس آئل بھی اس وقت مہنگا خرید رہے ہیں۔حماد اظہر نےکہا کہ کےالیکٹرک نجی کمپنی ہے اور اپنا فرنس آئل خود لے رہی ہے اور اس کواضافی گیس بھی دے رہے ہیں، جو انٹرنیشنل مارکیٹ میں ریٹ ہوگا اسی پر گیس خرید رہے ہیں، ہم چوتھا حصہ بھی فرنس آئل کا استعمال نہیں کر رہے،جتنا یہ استعمال کرتے تھے۔مفتاح اسماعیل نےکہا کہ جو پلانٹس گیس اور فرنس آئل پر چل سکتے تھے،انہوں نےڈیزل پر چلائے، ڈیزل پر پلانٹس چلانے سے20 روپےکا یونٹ پڑتا ہے،سب سے سستی بجلی نواز شریف کے تھرمل پلانٹس کی لگائی ہوئی ہے۔حماد اظہر نے جواب دیا کہ پلانٹس توبہت اچھے ہیں لیکن انہوں نے پلانٹس کی قیمت 25 فیصد زیادہ دی ہے، ڈیزل سے پلانٹس ن لیگ کے دور میں بھی چلتےتھے۔مفتاح اسماعیل نے کہا کہ جن پلانٹس سے 13 روپے فی یونٹ بجلی بنتی ہے ان کو بند کردینا چاہیے۔حماد اظہر نے کہا کہ ہماری اوسطاً ڈیمانڈ 16000 میگاواٹ ہے،لوڈ شیڈنگ کی یہی وجہ ہےکہ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح کم ہوگئی ہے جس سےکم بجلی بن رہی ہے۔شاہزیب خانزادہ: حماد اظہر صاحب حکومت پر مفتاح اسماعیل کی طرف سے الزامات لگائے گئے ہیں کہ بحران سے بچا جاسکتا تھا، جون میں کبھی انڈسٹری کو بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا، انڈسٹری کی گیس پہلے ہی بند ہے اگر ڈرائی ڈاکنگ نہ ہوتی تب بھی بند ہے، حکومت نے اس کو مس مینج کیا ہے؟ حماد اظہر: ایس ایس جی سی کی گیس جو ابھی بند ہے اس کا ڈرائی ڈاکنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، اس گیس کو گرمیوں میں ہی بند ہونا تھا، اگر ہم سردیوں میں گیس بند کرتے تو زیادہ نقصان ہوتا کیونکہ ڈومیسٹک کا لوڈ بہت ہوتا ہے، ڈرائی ڈاکنگ کل سے شروع ہورہی ہے، کل سے ہماری کے پی ٹی گیس فیلڈ بند ہے وہ واپس آن لائن آنا شروع ہوجائے گی، ڈرائی ڈاکنگ کا بہت زیادہ اثر ایس ایس جی سی کے سسٹم پر اس لیے نہیں ہے کیونکہ ان کا 1150 ایم ایم سی ایف ڈی کا پورا سسٹم ہے جس میں سے صرف 75ایم ایم سی ایف ڈی پر ڈرائی ڈاکنگ کا اثر آئے گا باقی سارا لوڈ ایس این جی پی ایل پر جائے گا کیونکہ ساری ایل این جی اپ کنٹری جاتی ہے، مفتاح اسماعیل نے فرنس آئل کی جو فیگرز دیں ، انہوں نے کہا کہ فلانابلوکی کا پلانٹ ہم نے 2018ء میں کیا، فلانا ہم نے مئی 2018ء میں کیا، جب آپ پلانٹس ٹرمینلز کمیشن ہوچکے تھے اس کے بعد آٹھ مہینے پرائیویٹ سیکٹر کے اندر جو گیس کے پلانٹس لگے ہوئے تھے اور میرے پاس یہاں تمام کے نام موجود ہیں وہ 50فیصد سے بھی کم کیپیسٹی پر چلتے رہے کیونکہ ایل این جی پوری آرڈر نہیں کی گئی تھی، اس کے علاوہ بہت سارے حکومت کے پلانٹس تھے اس کے بھی میرے پاس نام موجود ہیں جو ایل این جی پر کنورٹ نہیں کیے گئے اور وہ فرنس آئل ساڑتے رہے، یہ بلوکی اور حویلی بہادر شاہ کی بات نہیں ہے آپ کے دور میں فرنس آئل جو زیادہ سڑ رہا تھا اور ہمارے دور میں کم سڑ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی ٹرمینلز کی کیپیسٹی یوٹیلائزیشن کم تھی، آپ کی 66فیصد کے قریب تھی اور ہماری ڈھائی سال کے اندر 83فیصد کے قریب ہے۔ شاہزیب خانزادہ: جی مفتاح اسماعیل صاحب؟ مفتاح اسماعیل: بحث میں اس وقت مزہ آئے گا جب دونوں فریق سچ بولیں، حماد بھائی نے کہا کہ ایس ایس جی سی پر فرق نہیں آئے گا، 150 ایم ایم ایف سی ڈی آج بھی ایس ایس جی سی کو ان دونوں ٹرمینلز پر مل رہا ہے، یہ کہنا کہ ڈرائی ڈاکنگ کا فرق نہیں آئے حقیقت پر مبنی نہیں ہے،آپ آٹھ مہینے کی پتا نہیں کون سی بات کررہے ہیں جب اپریل اور مئی 2018ء میں دو پلانٹس ہوئے اور ایک پلانٹ جولائی میں ہوا حویلی کا تو اس کے آٹھ مہینے ہمارے نہیں تھے ہم تو مئی میں چلے گئے تھے آپ نے پیرس کانفرنس کری اور آپ نے غلط فرمایا کہ 2016-17ء میں کمیشن ہوئے اور پھرا ٓپ کہتے ہیں کہ فرنس آئل استعمال کیا، آپ نے غلط بات کی ہے، آپ کو کہنا چاہئے کہ 2018ء میں جانے سے ایک مہینے پہلے ہم نے یہ پلانٹس کمیشن کرے ہیں تو آپ کیوں غلط بیانی کررہے ہیں، آپ کی یہ بات کہ 1200 ملین کیوبک فٹ بارہ کارگو آپ لارہے ہیں کہ 14 ہوجائیں گے، عمر ایوب جوا ٓپ سے پہلے وزیر تھے وہ بول کر گئے تھے کہ ہم 14 کارگوز لاسکتے ہیں، آپ نے کہا تھا کہ 17کلومیٹر کی ایک پائپ لائن لگنی ہے وہ لگائی، اس کے باوجود آپ 14کارگو نہیں لے کر آرہے، آپ تین سال سے آئے ہوئے ہیں نہ آپ نے پائپ لائن کی اور نہ ہی ٹرمینل کی گنجائش بڑھائی ہے نہ ٹرمینل کی شپ بڑی کی ہے، پہلی دفعہ پاکستان میں آپ نے جون میں گیس لوڈشیڈنگ کی ہے اور غلطی کسی اور کی کہہ رہے ہیں، اپنی غلطی مانیں جب کرسی پر بیٹھے ہو اور غلط کام کررہے ہو، مہنگی ایل این جی لے رہے ہو، مہنگا فرنس آئل لے رہے ہو، پاکستان بھر میں آپ گیس کی لوڈشیڈنگ کررہے ہیں، جون کے مہینے میں آپ نے ایکسپورٹ انڈسٹری کو پریشان کیا ہوا ہے۔ شاہزیب خانزادہ: جی حماد اظہر صاحب؟ حماد اظہر: انہوں نے کہا کہ 150ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی کے ٹرمینل سے آتی ہے، یہ بات درست ہے لیکن میں انہیں یاد دلاؤں گا کہ جو ڈرائی ڈاکنگ ہورہی ہے وہ صرف ایک ٹرمینل کی ہورہی ہے دونوں کی نہیں ہورہی، 150کا جب آپ آدھا کریں تو 75 ایم ایم سی ایف ڈی آتا ہے، میں نے آپ کو فرنس آئل کی جو فیگرز دی ہیں وہ فائنانشل ایئرز کی دی ہیں، آپ جب مئی میں گئے تھے تو ایک مہینے بعد فائنانشل ایئر ختم ہوگیا تھا، میرے پاس کلینڈر ایئر میں بھی موجود ہے، اگر میں آپ کو بتادوں 2018ء کے اندر 30لاکھ ٹن فرنس آئل استعمال ہوا، 2021ء میں دس لاکھ ٹن ہوا، ابھی تک 2021ء میں ساڑھے چار لاکھ ٹن ہوا، اس سال بھی تقریباً دس لاکھ ٹن ہی ہوگا جتنا پچھلے سال استعمال ہوا تھا، اس میں غلط بیانی کی کوئی بات نہیں ہے بات حقائق کی ہے، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اپنی جگہ، یہ جوآپ بتارہے ہیں گیس کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، گیس کی لوڈشیڈنگ جو ایس ایس جی سی میں ہورہی ہے وہ کے پی ڈی جوسندھ کی پائپ لائن ہے جس سے 177ایم ایم سی ایف ڈی 1100 ایم ایم سی ایف ڈی کے سسٹم سے باہر نکل گیا ہے جو کل سے سسٹم میں دوبارہ شامل ہونا شروع ہوجائے گا، کل سے جب ڈرائی ڈاکنگ شروع ہوگی تو 75 ایم ایم سی ایف ڈی ہی صرف ایس ایس جی سی کے سسٹم سے نکلے گا، اس سے زیادہ نہیں نکلے گا، 177کل سے سسٹم میں واپس آنا شروع ہوجائے گا۔ شاہزیب خانزادہ: مفتاح اسماعیل صاحب؟ مفتاح اسماعیل: انہوں نے کہا تھا کہ 75ہے لیکن 150آرہی ہے، ایس ایس جی سی سے میری آج بات ہوئی ہے وہ بولتے ہیں کبھی بھی ختم ہوسکتا ہے، ایس ایس جی سی نے کراچی کے پورے سسٹم کو سندھ کے سسٹم کو بلوچستان کے سسٹم کو کہا ہے کہ ہم تمام انڈسٹری ایکسپورٹ یا لوکل انڈسٹری کو 50فیصد پر لے آئیں گے کیپٹو پاور پر، یہاں پر زیادہ تر انڈسٹری کیپٹو پاور پر چلتی ہے اور لوکل انڈسٹری کو آپ نے زیرو گیس کردی ہے، جو بیروزگاری ہورہی ہے جوا نڈسٹری کا نقصان ہورہا ہے اس کا کون ذمہ دار ہے، آپ کیوں 14کارگوز لے کر نہیں آسکتے، ساڑھے سات کارگو آپ کو پی جی پی ایل کا دے سکتا ہے، ساڑھے چھ کارگو آپ کو اینگرو کا دے سکتا ہے آپ نہیں لے کر آئے، ابھی شکویا کی شپ آرہی ہے جس کو آپ ڈرائی ڈاکنگ کی بات کررہے ہیں، آپ کو اس کو پہلے سے ٹھنڈا کر کے اس کے اندر کارگو لے کر آنا چاہئے تھا تو آپ کے ایک دو دن بچ جاتے، آپ نے آخری وقت میں ان سے پوچھا قطر نے منع کردیا، اگر پہلے کارگو لے آتے جس طرح ہم لے کر آئے تھے اس طرح اگر یہ سکویا میں کارگو لے کر آجاتے ایل این جی کو اس کو مائنس 168 ڈگری پر تو ایک دن میں نکلتا، دوسرے دن لگتا اور ریمپ اپ ہونا شروع ہوجاتا۔ اس کے بعد ایس ای او سی میٹنگ ہوتی ہے جو ڈی جی آئل چیئر کرتا ہے، وہ فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی فیلڈ کب جائے گی مرمت یا مینٹی نینس پر۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ کرنل پشاکی بھی ایک ساتھ جارہی ہے اور اینگرو بھی جارہا ہے، آپ اتنے پلان نہیں کرسکتے۔ شاہزیب خانزادہ: یہ بات حماد صاحب نے ایک اور انٹرویو میں بتائی کہ بائیس ماہ ہوچکے تھے، ڈیمج ہونا شروع ہوجاتی اس لئے کوئی آپشن نہیں تھا کہ اس لوکل فیلڈ کو مرمت پر بھیجا جاتا؟ مفتاح اسماعیل: یہ چھ مہینے پہلے انہیں نہیں پتا تھا کہ بائیس ماہ ہوجائیں گے اسی وقت کرلیتے۔ شاہزیب خانزادہ: چھ مہینے پہلے سردیاں تھیں۔ مفتاح اسماعیل: مجھے آپ بتایئے تین مہینے پہلے تک تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم گیس بہت زیادہ لے کر آگئے، چار مہینے پہلے کہہ رہے تھے پاور پلانٹس بہت زیادہ ہیں، آج پاکستان میں بجلی کی بھی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، گیس کی بھی ہورہی ہے، مجھے بتایئے پی ٹی آئی کی حکومت نے کیا کیا ہے، کیا آج بارہ ڈالر کی گیس لے رہے ہیں، آج جو مسلم لیگ کے کانٹریکٹس ہیں اس میں چھ اور سات ڈالر کی گیس مل رہی ہے اور جو پی ٹی آئی اسپاٹ پر خرید رہی ہے وہ بارہ ڈالر کی گیس ہے اس کا کون حساب دے گا۔ شاہزیب خانزادہ: حماد صاحب، اس کو آپ پہلے مینج کرسکتے تھے، ڈرائی ڈاکنگ پہلے ہوجاتی یا لوکل فیلڈ پہلے ہوجاتی، جون کے مہینے میں کراچی کی انڈسٹری بھی کہہ رہی ہے کہ ہمیں کبھی گیس کی شارٹیج ہوئی ہو؟ حماد اظہر: اس وقت ایس ایس جی سی میں 15فیصد گیس کی کٹوتی ہے اور 85فیصد گیس جارہی ہے، ہم نے ایس ایس جی سی کوسختی سے منع کیا ہے کہ ایکسپورٹ انڈسٹری کو گیس کی کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آنا چاہئے، کل سے جب کے پی ڈی گیس فیلڈ واپس آن لائن آئے گی تو دو تین دن میں ایس ایس جی سی اور کراچی کا مسئلہ حل ہوجائے گا، ڈرائی ڈاکنگ سے 1150 ایم ایم سی ایف ڈی کے سسٹم میں 75ایم ایم سی ایف ڈی سے کوئی فرق نہیں پڑرہا، ہر گرمیاں میں تین سے چار گیس فیلڈز آؤٹ ریج کے اندرجاتی ہیں، یہ بار بار ٹی پی اے کی بات کررہے ہیں، لگ رہا ہے یہ بہت keen ہیں کہ انہوں نے جو دو ٹرمینلز گرانٹ کیے جن کی گرانٹ کے اوپر نیب کے کیسز بھی بنے ہوئے ہیں کہ انہیں مزید ٹی پی اے دیا جائے یعنی تھرڈ پارٹی ایکسس دیا جائے اس پر نیب کے کیسزچل رہے ہیں اور international arbitration چل رہی ہے جب تک وہ سیٹل نہیں ہوتی ہم پر بھی ممانعت ہے کہ ہم نہیں کرسکتے لیکن ہم ایک نئے ٹرمینل سیٹ اپ کرنے کیلئے لائسنسز جاری کرچکے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ جلد اس پر کام شروع ہوجائے گا، پرائیویٹ سیکٹر کا کنسورشیم تقریباً تیسرے ایف ایس آر یو کا آرڈر بھی دے چکا ہے، سیاسی نعرے بازی یہ کرنا کہ پی ٹی آئی نے یہ کردیا، چھ دن کی بات ہے پندرہ سال کے اندر۔ شاہزیب آپ نے بالکل ٹھیک کہا یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے ایک بین الاقوامی ادارہ ہے بیورو ورسٹارز انہوں نے مارچ میں کہا کہ جون 30سے آگے آپ ایف ایس آر یو آپریٹ نہیں کرسکتے ورنہ آپ عالمی شپنگ قوانین کی خلاف ورزی کریں گے، اس ایف ایس آر یو کی جومالک کمپنی ہے اس نے بہت واضح کہا ہے کہ ہم اپنے فلیٹ اور کمپنی کو japotize نہیں کریں گے ورنہ ہماری پوری فلیٹ عالمی شپنگ قوانین کے تحت capture ہوسکتی ہے، اس لئے اس کو 30جون سے کیا جارہا ہے، یہ پندرہ سال میں دو مرتبہ کرنا ہوتا ہے، یہ مفتاح صاحب کی حکومت نے کانٹریکٹ میں شق شامل کی تھی کہ پندرہ سال میں یہ دو مرتبہ کوئی بھی ٹائم اپنی مرضی کا ٹائم choose کر کے اس کو ڈرائی ڈاکنگ کرواسکتے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ: میں نے پچھلے ہفتے تابش گوہر سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ایک ٹرمینل پر نیب کا مسئلہ ہے دوسرے پر litigation کا مسئلہ ہے، لیکن نومبر میں یہ پریس کانفرنس کی تھی ندیم بابر نے، اس سے پہلے سندھ حکومت کو بہت زیادہ ذمہ داری دیتے رہے کہ ان کی وجہ سے 17کلومیٹر کی پائپ لائن نہیں بچھ رہی ورنہ ہم اضافی صلاحیت استعمال کرلیں گے، پھر انہوں نے نومبر میں اعلان کیا کہ ہم جنوری میں 1400 ایم ایم سی ایف ڈی لائیں گے کیونکہ پائپ لائن بچھ گئی ہے، ٹرمینل پر litigation کا مسئلہ بعد میں آیا یا پہلے سے تھا؟ حماد اظہر: یہ litigation کا مسئلہ پہلے سے تھا، 17کلومیٹر کی لائن بچھ چکی ہے لیکن ہم انتظار کررہے ہیں کہ یہ litigation اور arbitration کا معاملہ ختم ہو تاکہ ہم اس 17کلومیٹر کی پائپ لائن کو استعمال کرسکیں، اس وقت کارگو کی ڈیلیوری کا مسئلہ نہیں ہے، ہمارے پاس کارگوز موجود ہیں اور مزید کارگو لینے کا آپشن بھی موجو د ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو آف شور گیس کوآن شور گیس میں ٹرمینل کنورٹ کرتا ہے اس ٹرمینل کی قانون کے مطابق پندرہ سال میں دو مرتبہ مرمت ہونی ہے، چھ دن کیلئے اس کی آؤٹ ریج آرہی ہے، اس میں آر ایل این جی کے آرڈر کرنے کا کوئی تعلق نہیں ہے اس میں اس چھ دن کی آؤٹیج کا ہے جو زیادہ تر ایس این جی پی ایل کے سسٹم پر جارہا ہے۔ شاہزیب خانزادہ: مفتاح صاحب آرڈر کا تعلق نہیں ہے اور چھ دن کا مسئلہ ہے جس پر آپ سیاست کررہے ہیں، کانٹریکٹ آپ کا کیا ہوا ہے وہ کہہ رہے ہیں؟ مفتاح اسماعیل: کسی نے نہیں کہا کہ ڈرائی ڈاکنگ نہیں ہونی چاہئے، پانچ سال بعد ڈرائی ڈاکنگ ہوتی ہے یہ نہیں کہ پندرہ سال میں کسی دن بھی randmoly کرلو، پانچ پانچ سال میں ڈرائی ڈاکنگ ہوتی ہے اس کا کس نے منع کیا ہے، ڈرائی ڈاکنگ کو تو پانچ سال سے زیادہ ہوگئے آپ اس کو کرلیتے لیکن جس دن کرنل کشا کی کررہے ہیں اس دن نہیں کرتے۔ جو دوسری بات کررہے ہیں پھر غلط فرمارہے ہیں، آج ان کے جو وزیر ہیں تابش گوہر ، آج انہوں نے پورٹ قاسم میں جاکر حکم صادر کیا ہے کہ کل سے جو پی جی پی ایل کا ٹرمینل ہے اس سے 750لیں گے، ان کو کہا ہے کہ 750ملین کیوبک فٹ آپ روز کی ری گیسفائی کریں تو نیب کامسئلہ کیا ہوگیا، arbitration کا مسئلہ کیا ہوگیا؟ کل سے تو آپ کریں گے آج آپ بول رہے ہیں ہو نہیں سکتا۔ میں آپ کو کنفرم انفارمیشن دے رہا ہوں؟ شاہزیب خانزادہ: حماد صاحب کیا ایسا ہے کیونکہ اسد عمر نے بھی جمعرات کے دن ایک ٹاک شو میں کہا کہ وزیرپاور نے انہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ دوسرے ٹرمینل سے 750 ایم ایم سی ایف ڈی آئے گی اور یہ کہہ رہے ہیں تابش گوہر نے بھی آج کہا ہے؟ حماد اظہر: جی۔ پرسوں ہماری پٹرولیم ڈویژن میں اس پر بات ہوئی تابش گوہر بھی وہاں موجود تھے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ قانونی مشورہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ موجودہ litigation اور موجودہ نیب کے مسائل کے باوجود اس کو لایا جاسکتا ہے تو اس کو expadite کروادیاجائے اس سے ہمیں 100 سے 150 ایم ایم سی ایف ڈی کا فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن کل تک کلیئر نہیں تھا کہ اس پر قانونی راستہ نکلا ہے یا نہیں، اگر تابش گوہر کہہ رہے ہیں کہ قانونی راستہ نکل آیا ہے تو بڑی اچھی بات ہے گیس کی شارٹیج دس پندرہ فیصد مزید کم ہوجائے گی، اگر نہیں ہوا تو ہم اس کو بہرحال، میں نے آپ کو بتایا کہ ایس ایس جی سی کے سسٹم میں 75ایم ایم سی ایف ڈی کا ہی فرق پڑرہا ہے باقی ایس این جی پی ایل کے اندرہم چار سے پانچ دن کا بندوبست کررہے ہیں، اس چار سے پانچ دن میں بھی صرف دو دن زیرو گیس ہے پھر تیسرے دن 200 ایم ایم سی ایف ڈی، چوتھے دن 400 ایم ایم سی ایف ڈی اس طرح گیس دوبارہ آنا شروع ہوجاتی ہے۔ شاہزیب خانزادہ: جی مفتاح صاحب؟ مفتاح اسماعیل: میں وزیر توانائی کو یہ انفارمیشن دیتا ہوں، میں یہ نہیں کہہ رہا خدانخواستہ وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن ان کی بات غلط تھی، یہ arbitration کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، آج انہوں نے کہا ہے کل سے وہ 750ہوجائے گی، میں یہی گزارش کررہا ہوں آپ 750کررہے تھے، سردیوں میں آپ کہتے ہیں نواز شریف نے بہت زیادہ بجلی لگادی، گرمی میں آپ کہتے ہیں گیس کا انتظام نہیں کیا، گرمی میں کچھ کہتے ہیں سردی میں کچھ اور کہتے ہیں، ہر تھوڑے دن بعد وزیر چینج ہوجاتا ہے، جیسے آپ کے فائنانس کے نئے وزیر آئے وہ بولتے ہیں پچھلے والوں نے بیڑہ غرق کردیا، اب بنیادی طور پر آپ بڑا دل رکھ رہے ہیں تو ندیم بابر کے بارے میں یہ کہہ نہیں رہے لیکن مجھے یہ بتایئے کہ آپ لوگ جو گیس خرید رہے ہیں پی ٹی آئی والے وہ بارہ ڈالر کی خرید رہے ہیں ایل این جی اور مسلم لیگ والے جو کانٹریکٹ کر کے گئے ہیں وہ 7ڈالر کا ہے، یہ 4ڈالرز آپ جو اضافی دے رہے ہیں یہ آپ کی نااہلی ہے یا نہیں ہے، کم از کم میں کرپشن کی بات نہیں کررہا ہوں، کیا کووڈ کے زمانے میں آپ کو 3ڈالر 70 سینٹ کی کانٹریکٹ گیس آفر نہیں ہوئی تھی تین سال کیلئے، جو گیس آج آپ بارہ ڈالر کی لے رہے ہیں کیا آپ کو 3ڈالر 70سینٹ میں آفر نہیں ہوئی تھی، کیا اس نے نہیں کہا تھا کہ قطر کا کانٹریکٹ بھی ہم آپ کو 3ڈالر 70سینٹ میں دیدیں گے تو آپ لوگوں نے کیوں نہیں لیا تھا، و ہ کس کی کوتاہی تھی یا وہ کرپشن تھی، آج کیوں مجھے بتایئے کہ بکی کا پلانٹ بند ہے، کیوں ہیل مور کا پلانٹ بند ہے، یہ تو گیس سے چلتے ہیں، آپ کہتے ہیں آپ گیس کا پورا استعمال کررہے ہیں، شہزاد کے شو میں آپ نے کہا کہ آپ گیس کا پورا استعمال کررہے ہیں، مئی کے اندر آپ نے 2928 گیگاواٹ آورز بنائے ہیں جو 4300میگاواٹ بنتا ہے جبکہ آپ کے پاس 5400میگاواٹ کے ایل این جی کے پلانٹس ہیں، 3600جو ہم لگا کر گئے پلس فور سسٹرز کے 900 ہیں، پلس نندی پور ہے وہ بھی آپ پورا نہیں چلارہے، پلس روش ہے، آپ لوگ تو پلانٹ بھی نہیں چلاپارہے، آپ آئے دن گدو پاور بند ہوجاتا ہے ، آپ اس کی مینٹی نینس نہیں کرسکتے، آپ لوگوں سے ایک پائپ لائن نہیں لگ سکتی، رشیا کی پائپ لائن کا ہم کانٹریکٹ سائن کر کے گئے تھے آپ اس پر کوئی کام نہیں کرسکے، پانچ انویسٹرز بشمول ایگزون موبل دنیا کی سب سے بڑی کمپنی پاکستان میں ایل این جی میں خود سے سرمایہ کاری کیلئے تیار تھی کوئی گورنمنٹ گارنٹی نہیں تھی وہ آج تک نہیں آئے اور پوچھ لیجئے پورٹ قاسم میں کرپشن کی کیا داستانیں ہیں، حماد بھائی بھی اس بات کو جانتے ہیں۔ شاہزیب خانزادہ: حماد صاحب ایک تو یہ کہہ رہے ہیں آپ مہنگی گیس خرید رہے ہیں، دوسرا ٹرمینلز موجود ہیں پھر بھی آپ ایل این جی کے پاور پلانٹس کو پوری طرح نہیں چلارہے ہیں، سستی بجلی پیدا نہیں کررہے؟ حماد اظہر: انہوں نے ایک tactic استعمال کی ہے کہ آٹھ دس چیزیں ٹوئسٹ کر کے مجھ پر پھینک دی ہیں ، میں ان سب کا یک ایک کر کے جواب دے سکتا ہوں کہ کیسے ہر ایک میں ٹوئسٹ ہے۔ پہلے انہوں نے کہا کہ ہم ایل این جی مہنگی لے رہے ہیں، انہیں ایل این جی کا نام ہی نہیں لینا چاہئے، 13.7فیصد پر یہ کانٹریکٹ کر کے گئے، 10.4فیصد پر ہم کر کے گئے، آج برینٹ کی مستقل رہتی ہے تو اگلے دس سال پاکستان کو 510ارب روپے کا فائدہ ہوگا جو ہم نے کانٹریکٹ کیا بہ نسبت جو انہوں نے کانٹریکٹ کیا۔ یہ کبھی پرسٹنیج پر آجاتے ہیں کبھی ڈالرز میں آجاتے ہیں، لانگ ٹائم کا کانٹریکٹ پرسنٹیج میں ہوتا ہے کہ اتنے پرسنٹیج آف برینٹ پرائس ۔ ظاہر ہے اگر برینٹ کی قیمت اوپر جائے گی تو 10.4فیصد 13.7 فیصد سے اوپر ہوجائے گا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آپ نے 13.7فیصد پر کانٹریکٹ کیا اور ہم نے اس سے 20فیصد کم ریٹ پر 10.4فیصد پر کیا۔ آپ نے ڈیزل کی بات کی، صفر اعشاریہ صفر صفر تین فیصد ڈیزل جون میں جلا ہے، فرنس آئل چوتھا حصہ چل رہا ہے جو ن لیگ کے وقت پر چلتا تھا، میرے پاس جو کاغذ پڑے ہیں میں اس کی تفصیل بتادوں تو معذرت سے مفتاح صاحب ہوسکتا ہے شاہد خاقان عباسی پرا یک اور نیب کا کیس بن جائے، آپ نے رشیا کی بات کی، میں نے رشیا کا وہ آئی جی اے دیکھا ہے جو آپ 2015ء میں سائن کر کے گئے تھے، اس کی ہمیں ترمیم کرنی پڑی ہے، پچھلے مہینے ماسکو میں ترمیمی انٹر گورنمنٹل ایگریمنٹ سائن ہوا ہے کیونکہ آپ نے جو پچھلا ایگریمنٹ سائن کیا تھا اس میں نہ کوئی اسٹرکچر تھا نہ کوئی خاکہ تھا، نہ رشینز کو پتا تھا آپ کیا بات کررہے ہیں نہ پٹرولیم ڈویژن کو پتا تھا کہ کیا بات کررہے ہیں، اب ہم نے ایک نیا نارتھ ساؤتھ پائپ لائن کا جو آپ 2015ء میں ادھورا چھوڑ کر چلے گئے تھے اور 2015ء سے 2018ء تک آپ خود اس پر کوئی کام نہیں کرسکے ، اب ہم نے پچھلے مہینے اسے دوبارہ ترمیم کر کے سائن کیا ہے، ایل این جی کی تو آپ بالکل بات نہ کریں، یہاں آخری بات بتاؤں، انہوں نے 13.7فیصد پر ایل این جی کا جو سودا کیا اس کے بعد دسمبر 2020ء تک جو اسپاٹ کا ایوریج ریٹ تھا وہ 11.9فیصد تھا جب سے انہوں نے 13.7فیصد سائن کیا، اب آپ مجھے بتائیں 13.7فیصد اور 11.9فیصد، ہم تو سارا اسٹاک اسپاٹ پر ہی لے لیتے تو پاکستان کو 600 ارب روپے کا فائدہ ہوجانا تھا، یہ سیاسی باتیں اور جملہ بازی چھوڑ دیں ڈیٹا پر بات کریں، یہ کہنا کہ وزیر بدل دیا آپ تو خود ایک وزیر کے بعد دوسرے وزیر آئے تھے۔ شاہزیب خانزادہ: آپ کا جو 13.7فیصد کا قطر سے کانٹریکٹ ہے حماد صاحب اس کو اپنے کانٹریکٹ سے کررہے ہیں جو انہوں نے اب کیا ہے وہ کہہ رہے ہیں بہت سستا کیا ہے، وہ کہہ رہے ہیں اسپاٹ بھی بہت سستا مل رہا تھا، آپ اپنے لانگ ٹرم کانٹریکٹ کو اس وقت کے اسپاٹ سے موازنہ کررہے ہیں جو ظاہر ہے مارکیٹ میں مہنگا ہے، دونوں کا موازنہ کیسے ٹھیک ہے؟ مفتاح اسماعیل: ان کے پاس کوئی لانگ ٹرم کانٹریکٹ نہیں ہے، انہوں نے جو 10.4فیصد کا کانٹریکٹ کیا ہے اس میں ابھی تک گیس نہیں آئی ہے جب گیس آئے گی تب ہوگا، وہ تو کاغذ پر کانٹریکٹ ہے کہ 2022ء میں آئے گی، ہم نے جو 13.37فیصد کا کانٹریکٹ کیا اس سے پہلے ہم نے ایک ٹینڈر کروایا، گنور کمپنی جس سے یہ بھی گیس خریدتے رہے ہیں اس کی lowest bid آئی 13.37 کی پانچ سال کے کانٹریکٹ کی، second highest آئی تھی شیل کی 13.78 کی، ہم نے اس کو کہا کہ آپ بھی میچ کرلو اور آپ بھی لے جاؤ، اس نے کہا نہیں 13.78سے نیچے ہم نہیں آئیں گے 13.37 بہت ٹائٹ پرائسنگ ہے، ہم اس ٹائٹ پرائس کو قطر لے کر گئے اور قطر سے ہم نے پندرہ سال کا کانٹریکٹ میچ کروایا ہے، ہم نے لانگ ٹرم لاک کرلیا، اپنی سیکیورٹی لاک کرلی، یہ سارا وقت کووڈ کے زمانے میں ندیم بابر کہتے رہے کہ بڑا مہنگا کرلیا، اب یہ لوگ چپ ہوجاتے ہیں،میں آپ سے ابھی بھی چیلنج کرتا ہوں ایک ہفتے بعد پھر آپ کے شو میں آجائیں گے یا کسی اور شومیں چلے جائیں گے، حماد بھائی کو میں کہتا ہوں کہ اس درمیان، اس کے چار چھ مہینے پہلے اور دو تین مہینے بعد تک آپ ایک کانٹریکٹ مجھے لانگ ٹرم دکھادیجئے جو 13.37فیصد سے کم ہو، ایک کانٹریکٹ نہیں ملے گا، ہمارے ایک مہینے بعد ہندوستان نے کانٹریکٹ لیا ہے ہم سے مہنگا ہے، ہمارے کچھ عرصہ بعد بنگلہ دیش نے لیا ہے وہ بھی ہم سے مہنگا ہے، اب آپ ان کے 10.4فیصد کے کانٹریکٹ پر آیئے، 10.39 پر چین لے چکا ہے، چین کو گیس جارہی ہے ان کے کانٹریکٹ میں ابھی تک گیس نہیں آئی، جس زمانے میں ٹماٹر تین سو روپے کلو ہو اگر اس وقت 270 لے آئے تو وہ سستا لے آئے، آج 30روپے کلو ہے اور آپ 100 روپے کلو لاکر کہہ رہے ہیں کہ میں سستا لے آیا تو یہ نہ کریں، یہ بات میں نے نہیں کرتا تھا کہ کبھی ڈالر پرائس دوں اور کبھی برینٹ کے سلوپ دوں، میں تو دونوں دے رہا تھا، ابھی میں نے آپ کو بتایا کہ آپ بارہ تیرہ ڈالر کی گیس دے رہے ہیں جو 18فیصدبنتی ہے ۔

تازہ ترین