• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبرپختونخوا کے مختلف مقامات پر قائم قلعے

پاکستا ن کا صوبہ خیبر پختونخوا جغرافیائی طور پر وہ خطہ ہے جو جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملاتا ہے۔ گزشتہ ادوار میں یہ پہلے وسطی ایشیا سے برصغیر میں داخلے کا واحد راستہ بھی تھا، جس کے باعث یہ تاریخی طور پر اسڑیٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ افغان، فارسی، یونانی، کُشن، ہُنز، منگول، مغل اور دیگر بیرون ملک حملہ آوروں کو جب بھی برصغیر پر قبضہ کرنا ہوتا تھا تو وہ یہاں سے برصغیر میں داخل ہوا کرتے تھے۔ 

برطانوی سامراج کو بھی یہاں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبہ خیبرپختونخوا کی مختلف ایجنسیوں، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان وغیرہ میں اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے انگریزوں نے یہاں کئی چھوٹے اور درمیانی درجے کے قلعے تعمیر کیے۔ خیبرپختونخوا کے مختلف مقامات پر قائم قلعوں کا احوال ذیل میں کیا جارہا ہے۔

میرانشاہ قلعہ

میرانشاہ، صوبہ خیبرپختونخوا میں شمالی وزیرستان کی ایک تحصیل ہے، جو اس خطے کا صدر مقام ہے۔ یہاں برطانوی سامراج کا تعمیر کردہ قلعہ موجود ہے۔ انگریزوں نے یہ قلعہ 1905ء میں بنایا تھا، تاکہ شمالی وزیرستان کو کنٹرول کیا جاسکے۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے یہ پاکستان فرنٹیئر کور کے ’توچی اسکاؤٹس‘ کے گیریژن کےطور پر استعمال ہو رہا ہے۔

شگئی قلعہ

1927ء میں انگریزوں نے خیبر ایجنسی میں شگئی قلعہ تعمیر کیا۔ برطانوی افواج نے خیبر پاس کی نگرانی کے لیے اس قلعے کی تعمیر کروائی تھی۔ برطانوی دورِ حکومت میں عام حیثیت سے مشہور یہ قلعہ سطح سمندر سے 847 میٹر بلند ہے۔ تاریخی درے کے درمیان تعمیر کیے گئے اس قلعے کو بھی آثارِ قدیمہ کے مقامات میں کافی اہمیت حاصل ہے۔ یہ قلعہ پاکستان آرمی اور خیبر رائفلز کے زیرِانتظام اور خیبر رائفلز کا ہیڈکوارٹر ہے۔ پاک فوج، افغان فوج اور نیٹو فورسز کے درمیان اسی مقام پر فلیگ میٹنگز منعقد ہوتی رہی ہیں۔

مالاکنڈ قلعہ

یہ مالا کنڈ ایجنسی میں انگریزوں کے تعمیر کردہ تین اہم قلعوں میں سے ایک ہے ، دوسرا چکدرہ اور تیسرا درگئی قلعہ ہے۔ 1897ء میں انگریزوں نے ان قلعوں سے اپنے خلاف بغاوت ختم کرنے کے لیے جھڑپیں کی تھیں۔

چکدرہ قلعہ

چکدرہ قلعہ کی تعمیر 1895ء میں ایک چٹان پر کی گئی۔ اس کے ایک طرف میدان اور دوسری جانب پہاڑہیں۔ قلعہ کو دفاعی نقطہ نظر سے تعمیر نہیں کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ دفاعی اعتبار سے کمزور تھا۔ تاہم، قدرتی چٹانیں اس کا دفاع کرتی تھیں مگر دم کوٹ پہاڑی پر واقع پیکٹ سے قلعہ پر حملہ کیا جاسکتا تھا۔ قلعے پر باہر سے گولہ باری کرنا بھی آسان تھا۔ یہاں سے ادینزئی، بٹ خیلہ، تھانہ اور سوات کے کچھ علاقوں کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ قلعہ چکدرہ اس وقت پاکستان اسکاؤٹ اور آرمی کے زیرِ استعمال ہے۔

علی مسجد قلعہ

علی مسجد قلعہ خیبر پاس میں ایک اونچی جگہ پر علی مسجد کے ساتھ واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ 1837ء میں افغان حکمران دوست محمد خان بارکزئی نے تعمیر کروایا تھا۔ قلعہ خیبر پاس کے تنگ ترین نقطہ پر واقع ہے، جہاں اس کی چوڑائی صرف چند میٹر رہ جاتی ہے۔ 19ویں صدی کے دوران یہ قلعہ افغان اور برطانوی افواج کے مابین مختلف تنازعات کا ایک مقام بھی رہا ہے۔

تھل قلعہ

خیبرپختونخوا میں ضلع ہنگو کی تحصیل تھل میں انگریزوں نے 1909ء میں ایک چھوٹا قلعہ تعمیر کیا تھا۔ اب یہ قلعہ ایف سی کے نیم فوجی دستےتھل اسکاؤٹس کے ہیڈکوارٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔

کوہاٹ ہینڈسائڈ فورٹ

یہ قلعہ خیبرپختونخوا کے شہر کوہاٹ میں خیبر پاس کے جنوب میں واقع ہے۔ 1853ء میں انگریزوں نے اس قلعے کی تعمیر کی تھی تاکہ کوہاٹ پاس کے اردگرد فوجی کارروائی کے لیے ایک مضبوط اڈہ فراہم کیا جاسکے۔ قلعے میں ایک سرنگ بنائی گئی اور اس کے آس پاس خندق کھودی گئی تھی۔ 

اس قلعے کا نام فرنٹیئر کانسٹیبلری جنگجو ایرک چارلس ہینڈسائڈ کے نام پر رکھا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قلعہ پہاڑ کی اس چوٹی پر بنایا گیا تھا جہاں سکندر اعظم نے شمال کی طرف مارچ کرنے سے پہلے اپنی فوج کے ساتھ ڈیرے ڈالے تھے۔ یہ قلعہ اب پاک فوج کے نویں ڈویژن کے صدر مقام کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

جمرود قلعہ

پاکستان کے قدیم مقامات میں سے ایک تاریخی جمرود قلعہ سیاحوں کے لیے یہ ایک اہم جگہ ہے۔ سکھ فوج کے لیے جمرود کئی لحاظ سے اہم تھا کیونکہ یہاں سے افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کا راستہ روکا جاسکتا تھا اور یہیں سے افغانستان پر آسانی سے حملے کیے جاسکتے تھے۔ جمرود قلعہ کی تعمیر 1836ء سکھ جرنل ہری سنگھ نلوہ نے محض 54دنوں میں چھ ہزار فوجیوں کے ذریعے کروائی تھی۔ اس کا نقشہ قلعہ بالاحصار سے مماثلت رکھتا ہے کیونکہ اس کی مرکزی عمارت کے اطراف بھی حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔ 

قلعہ کی دیواروں کی چوڑائی 10فٹ جبکہ اونچائی 30فٹ کے قریب ہے اور ان کی تعمیر میں مٹی اور پتھر کا استعمال کیا گیا۔ اردگرد کے علاقے پر نظر رکھنے کے لیے 12فٹ بلند برج تعمیر کیے گئے اور ان پر توپیں رکھی گئیں اور ان میں ایسے راستے بنائے گئے جن پر سامان سے لدے ہوئے خچر بآسانی برج تک پہنچ سکیں۔ 

دو منزلہ جمرود قلعے کی تعمیر اونچے مقام پر کی گئی تاکہ وہاں سے مشرق کی جانب درہ خیبر، شمال میں مہمند اور جنوب میں باڑہ تک کے علاقے نظر آتے رہیں۔ قلعے میں پانی کی ضروریات پوری کر نے کے لیے 400میٹر گہرا کنواں کھودا گیا جو آج بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ایک زیرِ زمین تالاب بھی بنوایا گیا، جسے بعد میں انگریز سامراج کے دور میں قیدخانے کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ قلعے کی نگرانی اور انتظام خیبر رائفلز کے پاس ہے۔

تازہ ترین