پاکستان کی کئی ایسی شخصیات ہیں، جو اپنے ملک میں تو گمنام رہیں، لیکن دنیا بھر میں ان کو شہرت نصیب ہوئی۔ ادب کی دنیا میں اس کیایک مثال، پاکستانی ناول نگار’’جلال دین‘‘ کی ہے، جنہیں پاکستان میں کوئی نہیں جانتا، کسی ادبی منظرنامے یا ادبی میلے میں یہ نام نہیں پکارا گیا، حتیٰ کہ کسی ادبی تحقیق میں بھی ان کا کبھی تذکرہ نہیں ہوا۔ پاکستانی فلمی صنعت میں بھی کسی نے ان کی خدمات کا اعتراف تو دور کی بات، ذکر تک نہیں کیا۔ یہ ایک ایسے پاکستانی ادیب ہیں، جنہوں نے امریکامیں اپنے کیرئیر کے ابتدا میں یہ کوشش بھی کی کہ، کسی طرح ہالی ووڈ کو پاکستان تک لایا جائے، تاکہ یہاں کی کہانیوں اور سماج پر ہالی ووڈ فلمیں بناسکے۔ قیام پاکستان کے بعد، شاید یہ پہلی عملی کوشش تھی۔
عالمی شہرت یافتہ ادیب’’جلال دین‘‘ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ پاکستان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میڈیسن کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلے گئے۔ یہ پچاس کی دہائی کا ابتدائی زمانہ تھا، وہاں ایک طرف پڑھائی کرتے رہے، لیکن ساتھ ساتھ اپنا شوق یعنی ناول نگاری پر طبع آزمائی کرتے رہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس سے’’کیمسٹری‘‘ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور’’آرگن اسٹیٹ یونیورسٹی‘‘ سے اسکرپٹ نویسی اور کریٹیو رائٹنگ کی اسناد حاصل کیں۔ اسی عرصے میں ان کا پہلا ناول’’مایا‘‘ اشاعت پذیر ہوگیا۔
تعلیم مکمل کرنے کے فوری بعد، ان کو ایک بڑا موقع ملا، جس سے ان کے کہانی نویس بننے کے امکانات پوری طرح روشن ہوگئے۔1957میں معروف ہندوستانی فلم ساز’’محبوب‘‘ امریکا تشریف لائے، اس وقت ان کی فلم’’مدر انڈیا‘‘ آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی تھی، اس عرصے میں جلال دین کی ملاقات محبوب سے ہوئی، جنہوں نے ان کو بطور ادیب قدم جمانے میں مدد دی۔جلال دین ایک معروف امریکی ڈراما سیریز’’دی ٹویلتھ زون۔The Twilight Zone‘‘ کی ٹیم سے وابستہ ہوگئے۔ اس مقبول ترین امریکی ڈرامے کی کئی اقساط جلال دین نے لکھیں۔ان کوپھر عظیم ہندوستانی فلم ساز’’محبوب‘‘ نے اپنی نئی فلم’’تاج محل‘‘ لکھنے کا ہدف بھی دیا، ہرچند کہ یہ فلم کبھی بن نہ سکی۔
اسی دور کے معروف امریکی اداکار’’برٹ لانکاسٹر‘‘ تک شہرت پہنچی، تو انہوں نے جلال دین کو اپنے اگلے تخلیقی منصوبے کے لیے منتخب کرلیا۔ اپنی فلم’’ہائی گراس‘‘ کے لیے جلال دین سے کہانی لکھوائی۔ اس کہانی کو چٹاگانگ، سابق مشرقی پاکستان میں فلمایا گیا۔ ہالی ووڈ کے معروف فنکاروں نے اس میں اداکاری کی، جن میں’’روڈرک کروفورڈ‘‘ اور ’’مارلن برانڈو‘‘ کی بیوی اور انڈین نژاد امریکی اداکارہ’’انا کشفی‘‘ بھی شامل تھیں۔ یہ ساٹھویں دہائی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے۔
1965 میں ہالی ووڈ میں پاکستان انڈیا کے پس منظر میں ایک ایسی کہانی پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا مرکزی خیال تین ناول نگاروں کے ناولوں سے لیا گیا، اس میں سرفہرست پاکستانی ناول نگار جلال دین تھے، ان کے ناول ’’مایا‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے ہالی ووڈ میںاس پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ معروف فلم ساز ادارے’’میٹرگولڈوین۔ایم جی ایم‘‘کے تحت اس فلم کو بنایا گیا اور 1966میں پوری دنیا میں اس فلم کی نمائش بھی اسی ادارے کے تحت ہوئی۔ فلم کو بے حد پسند کیاگیا۔
فلم کی کہانی کا مرکزی خیال دو لڑکوں کی دوستی ہے، جن میں ایک انڈین اور دوسرا امریکی ہے، دونوں کی دوستی کے تناظر میں انڈین سماج اور مغربی معاشرت کے مابین تعلقات کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ فلم کا اسکرپٹ’’جون فانٹے‘‘ نے لکھا۔ فلم کو باکس آفس پر بہت کامیابی ملی، پھر اسی کہانی پر ایک امریکی ڈراماسیریز بھی لکھی گئی۔ یوں اس کہانی کی بدولت جلال دین کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔
جلال دین کا تعلق چونکہ پاکستان سے تھا، اس لیے ان کے دل میں کہیں خواہش تھی کہ ہالی ووڈ اور پاکستانی فلمی صنعت کے اشتراک سے بھی کوئی منصوبہ تخلیق پائے، انہوں نے اس کے لیے عملی طورپر کوششیں کیں۔ 1968 میں اس سلسلے میں ایک منصوبہ تشکیل پایا، جس کے تحت ’’پاکستان‘‘کے نام پر ایک فلم بنائی جانی تھی، جس کا پیپر ورک بھی مکمل کر لیا گیا۔فلم کے لیے ہدایت کار کے طور پر ہالی ووڈ کی معروف شخصیت ’’آرتھر لوبن‘‘ کو لیاگیا۔ امریکاکی طرف سے تمام معاملات مکمل تھے، جلال دین مسلسل پاکستانی حکومت سے خط و کتابت کرتے رہے، مگر اُس وقت کی پاکستانی حکومت نے اس منصوبے کی منظوری نہ دی۔
1999 میں جلال دین انتقال کرگئے اور ان کے ساتھ ہی پاکستان کا ایک اہم ادیب، اسکرپٹ رائٹر اور ہالی ووڈ میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا معروف پاکستانی فلم ساز، اپنے ساتھ اپنے خواب بھی لے گیا۔پاکستانی فلمی صنعت کے عالمی معیار کے لیے اولین کوشش کرنے والایہ کہانی نویس انتہائی خاموشی سے جہانِ فانی سے گزر گیا۔ پاکستانی فلمی صنعت اور ہالی ووڈ کی تاریخ میں، جلال دین ایک پاکستانی کہانی نویس کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔
خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی