پاکستانی فلم اندسٹری کے یادگار دور کے سنہرے برسوں میں سال 1975ء اس اعتبار سے دیگر برسوں سے ممتاز رہا کہ اس سال 10؍ سپر ہٹ فلموں نے کام یابی کا ایک اہم سنگ میل یعنی گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستانی باکس آفس بزنس کی تاریخ کے تناظر میں اپنی نوعیت کا یہ واحد سال تھا کہ جس میں فلموں کی اتنی بڑی تعداد نے گولڈن جوبلی منائی۔
اس سلسلے کی پہلی گولڈن جوبلی منانے والی فلم ’’جادو‘‘ تھی، جو کراچی اور سندھ سرکٹ میں 10؍ جنوری 1975ء کو ریلیز ہوئی تھی۔ پنجابی فلموں کے مشاق فلم میکر اقبال کشمیری نے اسے ڈائریکٹ کیا تھا۔ فلم میں مرکزی کردار اداکارہ ممتاز، شاہد، الیاس کشمیری، مصطفیٰ قریشی اور سدھیر نے ادا کیے تھے۔ ’’جادو‘‘ کی کراچی سرکٹ میں شان دار گولڈن جوبلی کی بنیادی وجہ ماسٹر عنایت حسین کا بہت ہی دل کش اور یادگار میوزک تھا۔ تاہم ممتاز کے دل کش رقص اور سدھیر کی شان دار ایکشن پرفارمینس نے بھی فلم ’’جادو‘‘ کی مقبولیت اور کام یابی میں اہم کردار ادا کیا۔ جادو نے مجموعی طور پر کام یابی کے شان دار 51؍ ہفتے مکمل کیے۔
’’جادو‘‘ کی نمائش ابھی جاری تھی کہ اسی سال کی ایک اور بلاک بسٹرفلم ’’بن بادل برسات‘‘ 7؍ مارچ کو منظر عام پر آگئی۔ اداکارہ زینت بیگم کی بہ طور ہدایت کارہ یہ اولین کاوش تھی، جس میں نام ور اداکار محمد علی، زیبا، شاہد اور سنگیتا نے مرکزی رول کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس فلم کے کلیدی شعبے مثلاً پروڈکشن، ڈائریکشن، موسیقی اور کہانی سے خواتین وابستہ تھیں، جیسے کہ فلم کی پروڈیوسر اور ڈائریکٹر زینت بیگم تھیں، فلم کی کہانی جہاں آرا ہارون کی تخلیق کردہ تھی، جب کہ موسیقی مرتب کی تھی، پاکستان کی پہلی میوزک ڈائریکٹر خاتون شمیم نازلی نے۔ یہ فلم اپنے بہترین سبجیکٹ، مضبوط ڈائریکشن، عمدہ کردار نگاری اور بہترین موسیقی کی بدولت خواتین میں بالخصوص بے حد مقبول ہوئی اور بھرپور بزنس کے ساتھ فلم نے گولڈن جوبلی کا سنگ میل عبور کیا۔ مجموعی طور پر فلم نے 53؍ ہفتے مکمل کئے۔
ہدایت کار رضا میر کی سوشل نغماتی تصویر فلم ’’آرزو‘‘ کی نمائش کا آغاز ہوا۔ جاندار کہانی، عمدہ میوزک، محمد علی، زیبا اور حسنہ کی شاندار کردار نگاری کے ساتھ ساتھ رضا میر کی مضبوط ڈائریکشن کے سبب ’’آرزو‘‘ نے شان دار بزنس کے ساتھ گولڈن جوبلی منائی۔ مجموعی طور پر 60؍ سے زائد ہفتے زیر نمائش رہی تھی۔
’’آرزو‘‘ کی نمائش ابھی جاری تھی کہ ہدایت کار اقبال رضوی کی نغمہ بار فلم ’’تیرے میرے سپنے‘‘ منظر عام پر آگئی۔ سنیما اسکرین پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے ممتاز اداکار محمد علی اور سنگیتا کی خُوب صورت جوڑی کے ساتھ چنچل ادکارہ کویتا اور خوبرو اداکار شاہد حمید اس فلم کی لیڈ کاسٹ میں شامل تھے۔ ’’تیرے میرے سپنے‘‘ کا سب سے مضبوط شعبہ کمال احمد کا سپر کلاس عوامی میوزک تھا۔ اس فلم کے لیے ان کی کمپوز کردہ دُھنوں پر مبنی گیتوں نے پاکستان کے ہر گلی کوچے میں تہلکہ مچادیا (1)دل میں کانٹا سا چبھ گیا (2)میں تو نہ بولی میرے بول اٹھے کنگنا (3) ہائے اللہ میں کیوں جوان ہوگئی (4) پاویں ہووے لڑائی، جیسے گیتوں کی مقبولیت اور پسندیدگی نے فلم ’’تیرے میرے سپنے‘‘ کو حیرت انگیز کام یابی سے ہم کنار کیا۔ فلم نے نہ صرف گولڈن جوبلی نہایت بھرپور بزنس کے ساتھ منائی ، بلکہ مجموعی طرو پر 72؍ ہفتے تک زیر نمائش رہی، لیکن تیرے میرے سپنے کی نمائش تمام ہونے سے قبل ہی ہدایت کار ایس سلمان کی گھریلو تصویر ’’زینت‘‘ کی نمائش ہوگئی تھی، جس میں شبنم نے اپنی فنی زندگی کی یادگار پرفارمینس، اپنے دہرے کردار میں پیش کی۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں ندیم، شاہد، منور ظریف اور آغا طالش شامل تھے۔
’’زینت‘‘ نے شان دار گولڈن جوبلی منائی اور مجموعی طور پر 51؍ ہفتے مکمل کیے۔ زینت کی نمائش کے ایک ہفتے بعد ہی ہدایت کار اقبال اختر کی نغمہ بار فلم ’’محبت زندگی ہے‘‘ کی نمائش ہوگئی، جس میں محمد علی، زیبا، ممتاز اور وحید مراد جیسے بڑے نام کاسٹ کاحصہ تھے۔ ایم اشرف کا جان دار میوزک، ممتاز کے دل کش رقص، وحید مراد اور زیبا کی شان دار کردار نگاری کی بدولت فلم ’’محبت زندگی ہے‘‘ بھی یاد گار گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئی اور اس فلم نے مجموعی طور پر 59؍ ہفتے مکمل کیے۔
سوشل گھریلو فلموں کے مشاق ہدایت کار شباب کیرانوی کی یادگار رومانی، نغماتی فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ جس میں نو آموز اداکار غلام محی الدین اور بابرہ شریف نے اپنی فنی زندگی کے یادگار کردارادا کیے تھے، ان کی عمدہ پرفارمنس، جان دار اسکرپٹ، دل کش و معیاری میوزک اور مضبوط ڈائریکشن کے سبب ’’میرا نام ہے محبت‘‘ نے بھی عمدہ بزنس کے ساتھ گولڈن جوبلی کا سنگ میل عبور کیا اور اپنی نمائش کے مجموعی 54؍ ہفتے مکمل کیے۔
ہدایت کار اقبال یوسف کی سوشل ایکشن تصویر فلم ’’صورت اور سیرت‘‘ ایک ملٹی کاسٹ فلم تھی ، جس میں محمد علی، سدھیر اور وحید مراد یکجا تھے۔ 7؍ اکتوبر 1975ء کو عیدالفطر کے موقع پر منظر عام پر آئی، تو اپنی مضبوط کاسٹ اور جملہ خوبیوں کی بدولت تیز تر بزنس کرتے ہوئے چار پانچ ہفتوں کی محدود مدت میں ہی گولڈن جوبلی مناگئی۔
ہدایت کار اقبال اختر کی فلم ’’جب جب پھول کھلے‘‘ بھی ایک ملٹی کاسٹ فلم تھی، جس میں محمد علی، وحید مراد، ندیم، زیبا اور ممتاز جیسے بڑے نام نمایاں تھے۔ یہ فلم بھی جان دار کہانی، عمدہ میوزک، معیاری ڈائریکشن اور وحید مراد و دیگر کی عمدہ کردار نگاری کے سبب شان دار گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی اور مجموعی طور پر 59؍ ہفتے چلی۔
1975ء کی دسویں اورآخری گولڈن جوبلی فلم ہدایت کار نذر شباب کی ’’نوکر‘‘ تھی، جس نے محمد علی، ننھا کی سپر کلاس کامیڈی اور بہترین معیار کی بدولت سپر ہٹ کام یابی حاصل کی اور مجموعی طور پر 68؍ ہفتے تک زیر نمائش رہی تھی۔
مذکورہ بالا 10؍ گولڈن جوبلی منانے والی فلموں کے علاوہ 1975ء میں تین اور سپر ہٹ فلموں میں شامل ’’اناڑی‘‘، ’’پہچان‘‘ اور ’’دلہن ایک رات کی‘‘ نے کام یابی کا سب سے بڑا سنگ میل عبور کرتےہوئے شان دار ڈائمنڈ جوبلیاں منائیں۔ یُوں ایک ہی سال میں 13؍ ہٹ اور سپر ہٹ فلموں کی ریلیز کا ریکارڈ 1975ء میں قائم ہوا اور اسی سال ایک ریکارڈ یُوں بھی بناکہ اس سال کی دس گولڈن جوبلی فلموں میں سے 7؍ فلموں کے مرکزی اداکار گریٹ محمد علی تھے، گویا ہیروز میں محمد علی کے کریڈٹ پر یہ اعزاز بھی آیا کہ ایک سال میں ان کی اداکاری سے آرستہ 7؍عدد فلموں نے گولڈن جوبلی منائی۔ کاش فلموں کا وہ حِسین دور واپس آجائے!!