اسلام آباد (خبرایجنسی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ڈیل کے سوال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کہاکہ اتنی ساری قربانیاں دینے اور جدوجہد کے بعد کیا ہم پاگل ہیں کہ ان ہی لوگوں سے ڈیل کرلیں گے جن کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں؟
سیاسی حالات اور اپنے ذاتی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی نہیں بنانی چاہیے، لگ رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تیاری کرلی گئی،حکومت جب جائے گی تو دوبارہ نہیں آئے گی،حکومت کب جائیگی اللہ جانتا،اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب کوئی معنی نہیں رکھتا۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) مریم نواز نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے میں عدم شرکت کے بارے میں کہا کہ اس میں میری اور جماعت کی نمائندگی ہمارے صدر شہباز شریف نے کی جہاں وہ موجود ہوتے ہیں وہاں ہماری ضرورت نہیں ہوتی، قیادت نے انہیں آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کی ذمہ داری دی ہے جس کی تیاریوں میں وہ مصروف تھیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بلوچستان کے شرپسندوں سے بات چیت کے عندیے کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ اس کیلئے آپ کو کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے پاس جانا چاہیے تھا، آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس سے بلوچستان نزدیک آنے کے بجائے مزید دور جائے گا اس لیے ان کی شکایات دور کر کے انہیں پاکستان سے جوڑنا چاہیے۔
پی ڈی ایم کی جانب سے استعفوں اور لانگ مارچ نہ ہونے اور بجٹ اجلاس میں عدم شرکت کے پیچھے ڈیل سے متعلق سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ ڈیل کیوں اور کس کے ساتھ ہوگی، اتنی ساری قربانیاں دینے اور جدو جہد کے بعد کیا ہم پاگل ہیں کہ ان ہی لوگوں سے ڈیل کرلیں گے جن کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔
افغانستان سے متعلق پالیسی کے بارے میں سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ آپ کو پہلے اپنے گھر کو دیکھنا اور اسے ٹھیک کرنا چاہیے، بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور اپنے ذاتی حالات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی نہیں بنانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی، سیاسی ساکھ سے منسلک نہیں ہونی چاہیے وہ آپ کی ذاتی نہیں بلکہ قومی پالیسی ہے اور اس پر پورے پاکستان کا ایک ہی مؤقف ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ آپ کمزور ہیں تو مؤقف کچھ اور ہو اور مضبوط ہیں تو کچھ اور ہو۔
انہوں نے کہاکہ قوم سے سچ بولنا چاہیے، قوم کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکنی چاہیے، اصل پالیسی کچھ اور ہو جبکہ قوم کے سامنے آپ کوئی اور پالیسی بنائیں تو یہ غلط ہے۔