تہران، کراچی (اے ایف پی، نیوز ڈیسک) ایران نے بدھ کے روز طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کئی ماہ بعد پہلی بار ہونے والے معنی خیز مذاکرات کی میزبانی کی ہے ، یہ مذاکرات ایک ایسے موقع پر ہوئے جب امریکا افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کررہا ہے ۔
اعلیٰ سطح کے امن مذاکرات میں قطر میں کئی ماہ پہلے ہونے والی بات چیت کے سلسلے کو ہی دوبارہ شروع کیا گیا ہے جو تشدد میں اضافے کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا تھا ۔
بھارتی وزیرخارجہ سبھرامنیام جے شنکر بھی تہران پہنچ گئے ، ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف سے ملاقات میں انڈین وزیرخارجہ نے بھی افغان تنازع کے حل کیلئے بین الافغان مذاکرات کا مطالبہ کردیا ۔
تفصیلات کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے دونوں فریقین پر زور دیا کہ انہیں ملک کے مستقبل کیلئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے ۔
ایرانی وزیرخارجہ نے کہا کہ وہ مذاکرات میں تعاون کیلئے تیار ہیں ۔ ایرانی وزیرخارجہ نے دو دہائیوں سے جاری جنگ میں امریکی افواج کی شکست پراظہار مسرت کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر افغان تنازع جاری رہا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے ۔
طالبان کی سیاسی کمیٹی ، چیف مذاکرات کار محمد عباس استانکزئی کی سربراہی میں دوحہ سے تہران پہنچی جہاں انہوں نے افغانستان کے سابق نائب صدر یونس قنونی اور قومی مصالحت کیلئے ہائی کونسل کے دیگر عہدیداروں سے ملاقات کی ۔
اس موقع پر ایرانی وزیرخارجہ نے وفود کا استقبال کیا ۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ بین الافغان مذاکرات کیلئے دوبارہ میز پر آنا اور سیاسی حل کا عزم ہی افغان تنازع کے حل کا بہترین انتخاب ہے ۔
ادھر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تصدیق کی کہ استانکزئی مذاکرات کیلئے ایران پہنچے تھے تاہم انہوں نے افغان حکومتی وفد کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیا ۔