یوسف خان جو کہ دلیپ کمار کے نام سے معروف ہیں ان کو تمام عمر اپنے آبائی شہر پشاور سے انس رہا۔ دلیپ کمار کا محض پاکستان سے رشتہ اس لیے نہیں تھا کہ وہ یہاں پیدا ہوئے بلکہ وہ پاکستان کے عوام کے ساتھ ایک قلبی اور جذباتی وابستگی بھی رکھتے تھے۔ان کی پاکستان سے محبت اور تعلق کو پاکستانی عوام اور حکومتوں نے بھی فراموش نہیںکیا۔ان کو پاکستان میں فلاحی خدمات کے اعتراف میں1998 میں حکومت پاکستان نے نشان امتیاز بھی عطا کیا۔ پشاور میں واقع دلیپ کمار کا آبائی مکان ہمیشہ سے ہی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ دلیپ کمار کے آبائی مکان کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 13 جولائی 2014 کو قومی ورثہ قرار دیا۔
دلیپ کمار نے دو بار پاکستان کا دورہ کیا۔ان کے دونوں دوروں کے دوران راقم کو ان سے ملاقات کے کئی مواقع ملے۔ دوران گفتگو دلیپ نے کئی مرتبہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے نیک تمنائوں اور خواہشات کا اظہار کیا۔اپنے آبائی شہر پشاور کے لیے ان کے دل میں محبت کے خصوصی جذبات موجذن تھے۔دلیپ کمار 1922 میں پشاور کے علاقے محلہ خداداد میں پیدا ہوئے۔اپنا بچپن پشاور کی گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں گزارا۔1940 میں دلیپ کمار بائیس برس کی عمر میں پونا اور پھر ممبئی آگئے۔
دلیپ نے بالی وڈ میں اپنا نام اور مقام بنایا اور وہ ہندوستان کی پہچان بن گئے۔اس کے باوجود ان کے اندر کا یوسف خان پشاور شہر اور اس کے لوگوں سے ملنے کو بے چین رہا۔دلیپ کے ساتھی فنکار اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے آپس کے تعلقات کو دوستی اور محبت کے ذریعے استوار کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ہندوستان اور اس کے شہریوں کی طرح پاکستان اور اس کے عوام سے بھی اپنا قلبی تعلق رکھتے تھے۔اس رشتے اور تعلق کا تذکرہ انہوں نے کئی بار اپنے انٹرویوز اور تقاریر میں بھی کیا۔
دلیپ نے اپنی زندگی میں دو بار پاکستان کا دورہ کیا۔اپریل 1988 میں دلیپ نے پاکستان کا پہلا دورہ کیا ۔ اس دورے کا بنیادی مقصدپاکستان کے نامور بلڈ بنک اور ادارے فاطمید فائونڈیشن کی مدد کرنا اور پشاور میں اس کے بلڈ بنک کا افتتا ح کرنا تھا۔دلیپ صاحب کو اس دورے میں سرکاری مہمان کا درجہ دیا گیا۔ان کے اعزاز میں اس وقت کے صدر جنرل ضیاالحق نے خاص تقریب کا اہتمام بھی کیا۔دلیپ کمار اپنی سوانح عمری دلیپ کمار: سبسٹانس اینڈ شیڈو میں اس دورے کا تفصیلاً ذکر کرتے ہیں۔
دلیپ نے اس موقع پر اپنے آبائی گھر کا دورہ بھی کیا۔راقم اس دور ے میں ان کے ساتھ تھا۔اپنے گھر کو دیکھ کر دلیپ کمار جذباتی ہوگئے۔انہوںنے گھر کی دیواروں اور دروازوں کو کئی بار اپنے ہاتھوں سے چھوا۔ایسا دکھائی دیتا تھا کہ وہ اپنے ماضی کے دن یاد کر رہے ہیں۔اس موقع پرگفتگو کرتے وقت دلیپ نے بتایا کہ ان کے والد لالہ سرور کو ان کی فلموں میں دلچسپی لینا پسند نہ تھا۔جب وہ پونا آئے تو ان کے والد ان سے نارض ہوگئے۔یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ راقم کے والد بھی لاہور کی فروٹ منڈی میں پھلوں کی تجارت سے منسلک تھے اور دلیپ کے والد غلام سرور اور میرے والد چوہدری محمد علی کا آپس میں کاروباری تعلق تھا۔ لالہ غلام سرور نے میرے والد سے کہا کہ وہ یوسف کو سمجھائیں کہ وہ فلموں میں کام نہ کرے۔
جب میں نے دلیپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو دلیپ صاحب نے کہا کہ بالکل میرے والد اور ان کے کئی دوستوں نے مجھے اور ناصر خان کو فلموں میںدلچسپی لینے سے منع کر دیا تھا۔ اس موقع پر دلیپ کی آنکھو ں میں ایک خاص چمک ابھری۔ دلیپ نے اپنے دورے کے موقع پر اپنے بچپن کے دوستوں اور خاندان کے افراد سے ملاقاتیں بھی کیں۔جب ان کی آمد کا پتا چلاتو ایسا لگتا تھاکہ تمام شہر یوسف خان سے ملنے کے لیے بے تاب ہے۔دلیپ کے دوست اس بات پر حیران تھے کہ ان کو تمام دوستوں کے نام اور بچپن میں کی گئی شرارتیں یاد تھیں۔ اس دورے کے دوران دلیپ نے کئی مرتبہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری پر زور دیا۔
دلیپ کمار نے دوسری مرتبہ1998 میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس بار وہ نشان امتیاز وصول کرنے کے لیے مدعو کیے گئے۔ایوان صدر میں صدر مملکت رفیق تارڑ نے ان کو نشان امتیا ز سے آراستہ کیا۔ دلیپ نے اس موقع پرکہا کہ وہ بہت عجز و انکساری محسوس کر رہے ہیں اور اس عزت و افزائی پر مشکور ہیں۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان محبت فروغ پائے گی۔ان کی اہلیہ سائرہ بانو بھی ان کے ساتھ پاکستان تشریف لائیں۔
اپنے دورے کے دوران دلیپ کمار نے شوکت خانم ہسپتال کی فنڈ ریزنگ تقریب میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران عمران خان کے مقاصد، حوصلے اور کردار کی خاص تعریف کی۔اپنے دورہ پشاور کے دوران دلیپ کمار نے قلعہ بالا حصار کابھی دورہ کیا۔ وہ قلعہ میں جا کر بچپن کی یادیں تازہ کرتے رہے۔وہ بہت دیر تک قلعہ کی بلند عمارت سے پشاور شہر کا بغور جائزہ لیتے رہے۔اس موقع پر انہوں نے اپنے بچپن کی یادوں کو یاد کیا ۔دلیپ کمار نے اپنے دوروں کے دوران کئی سماجی تقریبات میں بھی شرکت کی۔انہوں نے حاضرین کی فرمائش پر ہندکو اور پشتو میں بھی گفتگو کی۔
دلیپ کمار کے پاکستان کے دورے پر ان پر ہندوستان میں تنقید بھی کی گئی۔ہندو انتہا پسند سیاستدانوں نے ان کے خلاف بیانات دیے۔دلیپ کا کہنا تھا کہ پشاور ان کے دل کی دھڑکن ہے اور ہندوستان کی طرح پاکستان بھی ان کا وطن ہے ۔ وہ اس کی مٹی کی خوشبو کو فراموش نہیں کر سکتے۔دلیپ کمار نے عمر بھر پاکستان کا مثبت امیج ہندوستانی معاشرے اور پریس میں اجاگر کرنے کے لیے کوشش کی۔
دلیپ کے گھر کے دروازے پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں کی مہمانداری کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے۔پاکستان سے محبت کایہ تعلق تھا کہ جب بھی پاکستان سے صحافی ، سماجی راہنما اور فنکار انڈیا کا دورہ کرتے تو دلیپ ان کی خاص مہمان نوازی کرتے اور ان کو تحائف بھی پیش کرتے۔ دلیپ کمار کا ملکہ ترنم نور جہاںسے خصوصی تعلق اور دوستی تھی۔وہ نور جہاں کا بے پناہ احترام کرتے تھے۔ اپنے دوروں کے دوران انہوں نے ان سے ملاقاتیں بھی کیں۔
دلیپ پاک بھارت دوستی کے سفیر تھے۔ وہ ہندوستان میں سیاستدانوں اور سماجی راہنمائوں کواس بات پر قائل کرتے تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور امن ہی عوام کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ اس حوالے سے ان کی کاوشوں کا اعترا ف سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصور نے بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1999 میں کارگل کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دلیپ کمار نے اپنا کردار بھی ادا کیا۔
دلیپ کمار پاک بھارت دوستی اور دیر پا امن کا خواب دیکھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ان کی زندگی میں تو ان کی یہ خواہش کہ فن کا استعمال صرف محبت کے فروغ کے لیے ہونا چاہئے پوری نہیں ہو سکی۔ اب یہ فرض دلیپ کے چاہنے والوں پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے فن کے ذریعے سے امن اور محبت کو فروغ دیں۔