سرینگر میں ڈل جھیل کے کہیں آس پاس ایک درگاہ ہے۔ جو حضرت بل کے نام سے موسوم ہے۔ وجہ شاید اس نام کی یہ ہے کہ یہاں رسول اللہ کا ایک موئے مبارک محفوظ ہے۔ جس کی زیارت خاص خاص مواقع پر لوگوں کو کرائی جاتی ہے۔ اپنے بچپن کی یادوں میں ایک یاد یہ بھی ہے جب اپنے سے چار ساڑھے چار سال بڑے بھائی کے کندھے پر سوار، سروں کے ایک ہجوم میں، بے حد کوشش کے باوجود مجھے وہ مولانا بھی نظر نہیں آ رہے تھے جو درگاہ کی انتہائی بلند کھڑکی سے ہاتھ نکال کر ایک چھوٹی سی شیشی میں موجود، رسول خدا کے مبارک بال کی لوگوں کو زیارت کرا رہے تھے۔ ہوسکتا ہے دوسرے بہت سے لوگوں کو مولانا تو شاید نظر آگئے ہوں لیکن ان کے ہاتھ میں وہ ننھی سی شیشی شاید ہی کسی کو نظر آئی ہو پھر اس میں موجود اس مقدس بال کی زیارت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن لوگوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ درود شریف پڑھتے ہوئے ایک دوسرے پر گرتے پڑتے انسانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہجوم تھا۔ جو سنا ہے کہ ایسے ہر موقع پر یونہی جمع ہوتا تھا۔
یہ جذباتی عقیدت نہ صرف ہمارے مذہب کا ایک بنیادی عنصر ہے بلکہ انسانی زندگیوں میں عمومی طور پر خون اور گوشت میں گویا گندھی ہوئی ہے۔ گرچہ اس عقیدت یا جذباتیت کے رنگ ہر مذہب، ہر نسل اور ہر طبقے میں مختلف انداز میں نظر آتے ہیں۔ کہیں اس ایک کیفیت کو نکال دیجئے تو انسان محض ایک مٹی کا پتلا ہی رہ جاتا ہے۔
ضروری نہیں کہ یہ جذبہ صرف مذہب سے ہی جڑا ہوا ہو۔ لوگوں کو زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف چیزوں سے عقیدت بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ انس یا لگاؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ انہیں اپنی ذات ان چیزوں کے بغیر ادھوری نظر آتی ہے۔ کچھ لوگ پرانی چیزیں یعنی نوادرات جمع کرتے ہیں۔ کچھ کو آرٹ کے شاہ پارے جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے لیکن بہت سے لوگ وہ چیزیں جمع کرکے رکھتے ہیں جو زندگی کے کسی نہ کسی لمحے کی یاد سے وابستہ ہوتی ہیں مثلاً اپنے بچپن کے کھلونے، اسکول اور کالج کے زمانے کی کاپیاں اور کتابیں، زندگی میں کئے گئے مختلف سفروں کی کوئی نہ کوئی یادگار، اپنے بچوں کی زندگی کے مختلف مراحل کی تصویریں یا ان کے استعمال میں آئی ہوئی چیزیں… یہ سب گویا ان کی متاعِ حیات ہوتی ہیں۔ میری میٹرک کے زمانے کی ایک دوست نے تیس سال بعد ٹیلی فون پر رابطہ ہونے پر بتایا تھا کہ اس نے میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے وہ چھوٹے چھوٹے نوٹ بھی آج تک محفوظ رکھے تھے جو ہم کلاس میں گفتگو کرنے کے لئے چپکے چپکے ایک دوسرے کو پاس کرتے تھے۔
محبت اور عقیدت کے یہ رنگ محفوظ رکھنا، ایک جمی جمائی اور سالہا سال تک ایک ہی جگہ ٹھہری ہوئی زندگی میں تو شاید ممکن ہو لیکن آج کی تیز رفتار اور لمحہ لمحہ بدلتی زندگی میں، تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔ میں جب اپنے والدین اور ان کی نسل کے ان لوگوں کے بارے میں سوچتی ہوں جنہیں پاکستان بنتے وقت محض تن کے تین کپڑوں کے ساتھ اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے تھے تو طبیعت لرز کر رہ جاتی ہے۔ مال و اسباب اور جائیدادوں کے ساتھ ساتھ پتہ نہیں کیسی کیسی یادوں اور جذباتی وابستگیوں کو چھوڑنے کا صدمہ ان لوگوں نے سہا ہوگا؟
چھوٹی چھوٹی یادوں، عقیدتوں اور محبتوں سے دامن چھڑانا کتنا مشکل ہوتا ہے، میرا خیال ہے میری طرح وہ سب لوگ ہی جانتے ہیں جن کی الماریاں، سوٹ کیس اور ایسی دوسری چیزیں صرف اور صرف کاغذوں، تصویروں، برتھ ڈے کارڈز اور ایسے ہی الّم غلّم سے بھری ہوئی ہیں، جنہیں ہر بار ایک نظر دیکھ کر پھاڑنے اور ضائع کرنے کا ارادہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن عین وقت پر جذباتیت غالب آجاتی ہے، اول تو اتنا فرصت کا وقت نہیں ملتا کہ آرام سے بیٹھ کر ہر چیز دیکھی جائے لیکن اپنے میاں کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک خوبصورت برتھ ڈے یا شادی کی سالگرہ کا کارڈ بھلا کیسے پھاڑا جاسکتا ہے اور اپنے بچوں کی پہلی پہلی کچی پکی تحریروں میں لکھے اور ہاتھ کے بنائے ہوئے کارڈ کس دل سے ضائع کروں؟ خیر میرا کیا ہے میرے پاس تو اپنی ماں کی قبر سے اٹھائی ہوئی وہ کچی مٹی بھی ابھی تک محفوظ ہے جو میں نے ان کے سوئم کے بعد کراچی واپس آتے ہوئے اٹھائی تھی۔ جسے ہاتھ میں لیتے ہی میں اب بھی اپنی ماں کے حضور حاضر ہوجاتی ہوں۔ اس لمس میں کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔
اپنی اس کیفیت کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ انسان کو زندگی میں ایک قوت ان جذباتی کیفیتوں یا بندشوں سے جان چھڑا کر ہلکا پھلکا ہوجانا چاہئے، دوسرے لفظوں میں اسے دنیا سے خود کو الگ کرنے کی تیاری کرلینا چاہئے۔
میری اس سوچ کو تقویت مہیش بھٹ کی کتاب نے دی۔ ہندوستانی فلمی دنیا کے ایک بڑے نام مہیش بھٹ نے اپنے روحانی پیشوا یا روحانی باپ یو جی کرشنا مورتی کے بارے میں دو کتابیں لکھی ہیں ان کی دوسری کتاب اے ٹیسٹ آف لائف (A Taste of Life) میں انہوں نے اپنے اس بزرگ کی زندگی کے آخری ایام کی جو تصویر کشی کی ہے وہ بے حد انسپائر کرتی ہے۔ باقی باتوں کے علاوہ جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ ان بزرگ کا یہ فیصلہ تھا کہ انہوں نے اپنی زندگی سے متعلق ہر نقش کو خود ہی مٹا دیا یعنی ہر تصویر، ہر خط، ہر تحریر اور ایسی ہی دوسری چیزیں جو صرف ان کے لئے اہم تھیں، انہیں خود انہوں نے ایک ایک کر کے نذر آتش کردیا۔ صرف اس خیال سے کہ ”ان کی اہمیت صرف میرے لئے تھی،کسی دوسرے کو ان کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوسکتا!“
مجھے معلوم ہے یہ کام اپنی زندگی میں کرنا بہت مشکل ہے لیکن اپنے بعد اپنے بچوں یا دوسروں کو اس مشکل میں کیوں ڈالا جائے جذبات کے علاوہ ان کے اپنے مسائل اور اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ ہر فرد پر یہ لازم ہے کہ جیتے جی اپنا اپنا کباڑ خود صاف کرے۔ ہمیں کونسا کوئی اپنا روحانی سلسلہ آگے چلانا ہے کہ اپنی یادگاریں چھوڑ کرجائیں۔
میرا خیال ہے میں بھی آج سے ہی شروع کرتی ہوں۔ ہلکا پھلکا ہونے کا احساس اور یہ خیال کہ اللہ میاں… میں حاضر ہوں… یقینا خوشگوار کیفیت ہوگی!