• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے ’’شکست و ریخت‘‘ کے بعد 4 جولائی 2021 کو سوات میں ایک بڑا جلسہ منعقد کرکے ایک نئی انگڑائی لی ہے۔ پی ڈی ایم سے پی (پیپلز پارٹی) کے نکل جانے سے اس کی سیاسی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی تھیں لیکن دو اڑھائی ماہ کے وقفے کے بعد پی ڈی ایم نے ایک بڑا جلسہ منعقد کرکے اس تاثر کو تقویت دی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے بغیر ہی اپنا ’’سیاسی میلہ‘‘ لگا سکتی ہے۔ 

در اصل یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام کا پاور شو تھا جو خود بھی ان دنوں نیب کے ’’ریڈار‘‘ پر ہیں اور وسائل سے زیادہ اثاثوں کے کیس میں نیب کے سامنے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ 

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے آخری سربراہی اجلاس میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان ’’تلخ نوائی‘‘ نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے راستے جدا کر دیے تھے، اس اجلاس کے بعد نہ صرف لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا بلکہ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا فیصلہ بھی مؤخر کر دیا گیا جس سے پی ٹی آئی کی حکومت کا حوصلہ بڑھ گیا۔ 

پیپلز پارٹی شروع دن سے ہی محتاط انداز میں سیاسی کھیل کھیل رہی ہے وہ کسی صورت بھی نواز شریف کی ’’خواہش‘‘ پر اپنی سندھ حکومت قربان کرنے کے لئے تیار نہیں، اس لئے 26نکاتی ایجنڈے پر اتفاقِ رائے کے لئے 20 ستمبر 2021 قائم ہونے والا 10جماعتی اتحاد منزل مقصود پر پہنچے بغیر ہی شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔ 

پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نکل گئی ہیں اور یہ اب 8جماعتوں کا اتحاد رہ گیا ہے۔ عملاً مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام ہی پی ڈی ایم کی روحِ رواں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اس حد تک فاصلے پیدا ہو گئے ہیں کہ نواز شریف آصف علی زرداری کا فون سننے کے لئے تیار نہیں جبکہ مریم نواز پیپلز پارٹی بارے کئے جانے والے سوال پر ناراض ہو جاتی ہیں۔ 

پچھلے دِنوں پیپلز پارٹی نے ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف میں قربت پیدا کرنے کی کوشش کی، بلاول بھٹو زرداری نے ایک موقع پر اپنے تمام ارکان ان کی ڈسپوزل پر دے دیے۔ 

آصف علی زرداری کی جانب سے شہباز شریف سے ’’محبت کی پینگیں‘‘ بڑھانے کی شعوری کوششیں کی گئیں لیکن اچانک بلاول بھٹو زرداری نے وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد ’’سیاسی پینترا‘‘ بدل لیا اور شہباز شریف سے ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ شروع کر دی۔ 

انہوں نے شہباز شریف کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کی اور 14لیگی ارکان کی وفاقی بجٹ کی منظوری کے موقع پر غیرحاضری کو ایک ایشو بنانے کی کوشش کی، بجٹ کی بلا روک ٹوک منظوری کی ذمہ داری شہباز شریف اور غیرحاضر مسلم لیگی ارکان پر ڈال دی۔ 

احسن اقبال نے بلاول بھٹو زرداری کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر پوری اپوزیشن بھی ایوان میں موجود ہوتی تو کیا بجٹ کو منظور ہونے سے روکا جا سکتا تھا؟ کیوں کہ حکومت 172 ارکان ایوان میں اکھٹے کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی اس لحاظ سے حکومتی ارکان نے ایک بار پھر وزیراعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کر کے حکومت گرانے کے تمام خواب چکنا چور کر دیے۔

پچھلے دنوں شہباز شریف بھی عبوری مدت کا وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے انہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے غیر مشروط حمایت بھی حاصل تھی لیکن حکومت نے ان کا نام ای سی ایل پر ڈال کر ان کو اپنے منصوبہ کی حتمی منظوری حاصل کرنے کے لئے نواز شریف کے پاس لندن جانے سے روک دیا، حکومتی حکمتِ عملی کے باعث فی الحال ان کی لندن روانگی مؤخر ہو گئی ہے۔ 

اس دوران آزاد جموں کشمیر کے انتخابات کا طبل بج گیا ، آزاد جموں وکشمیر میں مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور مسلم کانفرنس سے ہے۔ مریم نواز مسلم لیگ (ن) اور بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ 

جولائی کے اواخر تک آزاد جموں وکشمیر میدانِ کارزار بنا رہے گا۔ آزاد جموں و کشمیر کی انتخابی مہم میں بلاول بھٹو زرداری کا روحِ سخن شہباز شریف ہیں اور انہوں نے مسلسل میاں شہباز شریف کو تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ 

دلچسپ امر یہ ہے کہ میاں شہباز شریف بلاول بھٹو زرداری کی چھیڑ چھاڑ کو نظر انداز کر رہے ہیں اور انہیں ’’طفلِ مکتب ‘‘ سمجھ کر کوئی جواب دینے سے گریز کر رہے ہیں تاہم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو پی ڈی ایم سے نکالے جانے کا غصہ ہے ۔ 

شہباز شریف جولائی 2021کے اوائل میں انتخابی اصلاحات پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں لیکن پیپلز پارٹی کی جانب سے ’’سرد مہری ‘‘ کے باعث شہباز شریف نے بھی اے پی سی کے بھاری پتھر کو چوم کر ’’خاموشی‘‘ اختیار کر لی ہے۔ 

پیپلز پارٹی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری فی الحال آزاد جموں وکشمیر میں انتخابی جلسوں میں مصروف ہیں، آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کے بعد وہ امریکہ چلے جائیں گے لہٰذا وہ اے پی سی میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ 

سیاسی حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ بلاول بھٹو زرداری جو پارلیمان میں شہباز شریف کے سامنے بچھے جاتے تھے، نے اچانک 360ڈگری کا یوٹرن کیوں لے لیا اور اپنی سابق اتحادی پارٹی کے لیڈر کو مسلسل کیوں رگید رہے ہیں؟ 

انہوں نے کہا ہے کہ سیاسی حلیف ساتھ مل کر کٹھ پتلی حکومت کو گرانے میں سنجیدہ نہیں اور کسی کے پائوں کو ہاتھ لگانے والا شخص ملک کا وزیراعظم نہیں ہو سکتا ۔ سر دست شہباز شریف مصلحتاً بلاول بھٹو زرداری کی تنقید کا جواب نہیں دے رہے جب کہ ان کی بجائے دوسرے نمبر کی قیادت جواب دے رہی ہے ۔

وفاقی بجٹ کی منظوری کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پارلیمانی قوت کا مظاہرہ کرکے اپوزیشن کو یہ باور کرا دیا ہے کہ اسے پارلیمان میں شکست دینا اپوزیشن کے بس میں نہیں، پارلیمنٹ کے باہر اپوزیشن منقسم تھی ہی جب کہ پارلیمان کے اندر اپوزیشن بظاہر اکھٹی نظر آتی تھی، اب وہ بھی باہم دست و گریباں ہے۔

اگرچہ پی ڈی ایم نے 14اگست 2021 کو اسلام آباد میں شو آف پاور کرنا ہے مگراب دیکھنا یہ ہے اپوزیشن اس شو آف پاور سے کیا مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے؟ جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اس نے اپوزیشن کی تقسیم سے سکھ کا سانس لیا ہے۔

تازہ ترین