موجودہ حکومت نے آتے ہی دعویٰ کیا تھا کہ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی جس میں بجلی گیس اور پانی کے کنکشن کی دستیابی فوری ممکن ہو گی اور اس کے ساتھ ہی انھیں سستا بھی کیا جائے گا عوام خوش تھے کہ چلیں آنے والی نئی حکومت کو ان کے مسائل کا پتا ہے اور وہ باتیں بھی کر رہی ہے کہ عوامی مسائل کا حل نکالا جائے گا لیکن عملا ًکچھ بھی نہ ہو سکا ۔
پچھلے دور میں جو حالات تھے آج اس سے ابتر ہیں اس وقت لیسکو سمیت تمام ڈسکوز میں صارفین کے لئے نیا کنکشن لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور کسی نے اگر کمرشل یا صنعتی کنکشن لینا ہے تو اس کے لیے یا تو بڑی سفارش چاہیے یا پھر فیس کا انتظام ضروری ہے ڈسکوز کی طرف سے کہ پہلے آ ئیے پہلے پا ئیے اور آن لائن کنکشن فراہمی کا سلسلہ کاغذوں تک محدود ہے ۔لیسکومیں اول تو ڈیمانڈ نوٹس لینا مشکل ترین کام اور پھر میٹریل لینا اور سب ڈویژن کی سطح پر لگوانا ایک الگ مرحلہ ہے سٹاف بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔
ایس سی ایکسین اور ایس ڈی اوز تک لائن سپرنٹنڈنگ نہ جائے تو اس کیس کو منظور کرنے میں کئی روز اور ہفتے بھی لگ جاتے ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ کوئی صنعتی کنکشن کٹ گیا اور صارف نے اس کی قسط یا ساری رقم ادا کر دی اور اس کا حق ہے کہ اسی روز کنکشن بحال ہو جائے یہ ممکن ہی نہیں ۔لیسکو بیورو کریسی نے اس آسان ترین کام کو اتنا مشکل ترین بنا دیا کئی افسران کے دستخط ضروری قرار دے د ئیے گئے حالانکہ اس کام کو آسان ترین بنایاجانا چاہئے۔
صارف ایک طرف تمام بل ادا کر رہا ہے تو یہ سب ڈویژن سطح پر ہی حل ہونا چاہئے اس میں ایم اینڈ ٹی ا یکسئین ایس ای سے نمٹنا سب ڈویژن کے ایس ڈی او کا درد سر ہونا چاہئے لیکن افسران صارف کو چکر لگو الگو اکر حشر کر دیتے ہیں اور وہ سفارش یا پیسے دینے پر مجبور ہوجاتا ہے یہ فرسودہ نظام جان بوجھ کر اپنایا گیا ہے تاکہ لوگ خوار ہوں اور پیسے د ئیے بنا نہ جا سکیں ۔
موجودہ حکومت نے تمام معاملات حل کرنے تھے اسی طرح صارفین کو آن لائن درخواست دینے کے بعد اگلے روز ڈیمانڈ نوٹس ملنا چاہئے لیکن کئی کئی روز تک ایس ڈی ایکسئن اور ایس ایز نہ اس آن لائن درخواست پر کوئی کارروائی کرتے ہیں اور نہ ہی چیف آفس سے چیف لیسکویا کسٹمر سروسز ڈائریکٹر یا جنرل مینجر جو لاکھوں روپے تنخواہیں اس بات کی لیتے ہیں کہ مانیٹر کریں کہ کیا ہورہا ہے۔ اسی لئے حکومتی اداروں پر عوام کا بھروسہ کم ہے پھر جب نجکاری کی بات کی جائے تو یہ افسران اور ملازمین شور مچاتے ہیں کہ نجکاری نہیں ہونے دیں گے ان سے پوچھا جائے کہ پہلے آپ اپنی ذمہ داری تو پوری کریں۔ افسران نہ تو وقت پر دفاتر آتے ہیں اور نہ اپنا کام پورا کرتےہیں ۔
اس پر اگلا ظلم دیکھیں لیسکو سمیت تمام ڈسکوز میں بورڈ تشکیل د ئیے گئے اور ان میں حکو باہر سے ڈائریکٹر چنے اور انھیں بورڈ میں شامل کیا گیا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لیسکوجو کہ پاکستان کی سب سے بڑی کنزیومر اور بلنگ والی کمپنی ہے ڈائریکٹر آکر اپنا کردار ادا کرتے عوامی مسائل کی نشاندھی کرتے اور ان کا حل کراتے ،پرانے سسٹم کو بہتر بنانے ،نئے کنکشنوں کی فراہمی ،خراب میٹروں کی تبدیلی ،گرڈ اسٹیشنوں کی مرمت ،لوڈ پورا کرنا ،گلی محلے میں تاروں کے جال بچھے ہوئے ہیں مجال ہے کسی نے انکو درست کرنے کی زرا سی بھی کوشش کی ہو ،یہ بورڈ کے ڈائریکٹرز کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ایمانداری سے خود بھی لیسکو آئیں اور عوامی مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں جس مقصد کے لئے بورڈ میں شامل ہوئے۔
لسیکو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نئے چئیرمین سید ظہور حسین سمیت دیگر ممبران کا یہ حال ہے کہ سوائے چئیرمین بورڈ اور ایک دو ممبران کے باقی ڈائریکٹرز لیسکو آئے ہی نہیں ورچوئل یا آن لائن میٹنگ کرتےہیں لیکن ایک کام وہ پورا کرتے ہیں وہ ہر میٹنگ کی فیس جو کہ 25 ہزار روپے ہے وہ لینا نہیں بھولتے اور نہ ہی چھوڑتے ہیں بلکہ انھوں نے لیسکو حکام سے کہہ دیا ہے کہ سمری بنائی جائے اور انکی فی میٹنگ حاضری کی فیس 35 ہزار روپے کم ہے اسے جلد سے جلد بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا جائے ،اس حوالے سے ایک اہم بات ہے کہ ایک ممبر دوبئی ہوتا ہے ایک اسلا م آباد ایک پشاور اور باقی کا تعلق پنجاب لاہور سے ہو بھی تو وہ کبھی لیسکو نہیں آئے ،لیکن انکی فیس باقاعدگی سے ادا کر دی جاتی ہے کسی چیف یا جنرل مینجر یا ایچ آر کی جرات نہیں کہ ڈائریکٹرز سے پوچھ لیں کہ کبھی پورے ممبران لسیکو آئیں اور یہاں میٹنگ کریں ،،یہ حال دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا ہے وہاں بھی سیاسی بنیادوں پر ڈا ئریکٹرز بنائے گئے۔
لیسکو میں بورڈ کے تاخیری حربوں کی وجہ سے کمپنی شدید میٹریل کمی کا شکار ہے،ٹرانسفارمرز میٹروں کی قلت پیدا ہوگئی ہےتاہم چیف لیسکو چوہدری امین اپنے طور پر کوشش میں لگے رہتے ہیں ان کا کردار اس حوالے سے اہم ہے کہ وہ ایماندار افسر ہیں اور میرٹ پالیسی کو ہی فالو کرتے ہیں۔ لیکن انھیں بعض سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات نے مبینہ طور پر تبادلوں میں الجھایا ہوا ہے حال ہی میں ایک میٹنگ میں انھوں نےلیسکو افسران سے مخاطب ہو کر کہا کہ اللہ نے ہمیں اتنا نوازا ہے اتنی سہولتیں دے رکھی ہیں خدا کے لئے لوگوں کے کام کریں ،لوگ مہنگی بجلی سے تنگ ہیں مجھے دفاتر میں رلتے لوگ دیکھ کر شرم آتی ہے کہ ہم ان کی خدمت کی بجائے کیوںتنگ کر رہے ہیں بنا پیسے ان کے کام ہونے چاہئیں۔
شنید ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر سے نیا چیف ایگزیکٹو لگایا جایا جارہا ہے جس کا ایجنڈہ ہو گا کہ نجکاری کے عمل کو دیکھے ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کے ڈائریکٹرز سابق افسران اور اچھے مقامی افراد کو لگانا چاہئے۔
ڈائریکٹرز کی تعیناتی تین سال کے لئے ہوتی ہے ان کوحکومت کے علاوہ کوئی پوچھ نہیں سکتا ایسے میں یہ کیسے عوامی کاموں میں شامل ہو سکتے ہیں اس بارے میں لیسکوحکام سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ڈ ائریکٹرز ابھی نئے ہیں چئیرمین عوامی مسائل کے حل میں دلچسپی لیتے ہیں خود باقاعدگی سے آتے ہیں دیگر ممبران کرونا کی وجہ سے آن لائن میٹنگ کرتے ہیں انھیں بہر حال انکی فیس ادا کر دی جاتی ہے ہر ممبر کی دو سے تین ذیلی کمیٹیوں کی میٹنگز بھی ہوتی ہیں اس کے الگ پیسے د ئیے جاتے جبکہ بورڈ اجلاس ہر ماہ لازمی ہوتا ہے ان سب کی فیس فی میٹنگ 35 ہزار روپے ہی ہے۔