راشد احمد
محبتوں، چاہتوں اور اداس نسلوں کی سرزمین وادی مہران کی مردم خیز دھرتی میں صدیوں سے پیاسا صحرا، صحرائے تھر اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ یہاں مور جیسے خوبصورت پرندے، سحرزدہ کردینے والی شامیں، ریت کے اداس ٹیلے، بے ضرر لوگ، تاریخی مندر، قدیم مساجد، صدیوں پرانے تالاب اور کنویں ہیں اور ان ہی مقامات میں سے ایک مقام 'ماروی کا کنواں بھی ہے، جس سے منسوب داستان کا شمار مشہور سندھی لوک داستانوں میں ہوتا ہے۔ اس دھرتی پر یوں تو ان گنت کہانیوں نے جنم لیا لیکن ماروی کی کہانی، جسے حب الوطنی اور تھر کی مٹی سے محبت کی داستان کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، تھر کے لوگوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
تھر کا صحرا اپنی اداسیوں اور خموشیوں میں بھی ایک عجیب حسن رکھتا ہے۔ جیسے ہی آپ صحرا میں قدم رکھتے ہیں ایک عجیب اداسی من مندر میں ڈیرا ڈال دیتی ہے، لیکن اسی ویرانے میں جب مور کی کوک کانوں میں رس گھولتی ہے تو منظر یکسر بدل جاتا ہے۔ صحرا کے بیچوں بیچ ایک پختہ سڑک بل کھاتی ریت کے ٹیلوں کا سینہ چیرتی بہت دور تک چلی گئی ہے۔ اس سڑک کے اطراف مختلف چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں جہاں زندگی، صدہا مشکلات کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان ہی بستیوں اور گوٹھوں میں سے ایک گوٹھ کا نام’ ’بھالوا‘‘ ہے جسے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعار میں ملیر بھی کہا گیا ہے۔ اس گوٹھ کو ماروی کا گوٹھ یا ماروی کے کنوئیں والا گوٹھ بھی کہا جاتا ہے۔
تھر میں عام طور پر خواتین ہی پانی بھرنے جاتی ہیں، چاہے جتنا مرضی دور سے پانی لینے جانا پڑے، وہ مٹی کے گھڑے اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہیں۔ ماروی بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ اسی کنویں سے پانی بھرنے جاتی تھی۔ سندھ کے حکمران عمر نے اسی کنویں پر ماروی سے پانی پلانے کی درخواست کی تھی اور اسے دیکھتے ہی اس پر ہزار جان سے عاشق ہوگیا تھااور ایک دن موقع پا کر ماروی کو اغوا کر کے عمر کوٹ لے گیا۔
عمرکوٹ پہنچ کر عمر نے ماروی کو قلعے میں قید کردیا اور یہ پیشکش کی کہ مجھ سے شادی کر لو تو تمہیں منہ مانگی دولت ملے گی۔ عمر نے ماروی کو جاہ و مرتبہ اور خزانہ سب کچھ پیش کیا۔یہ لالچ بھی دی کہ وہ اس کے والدین کو دولت سے مالا مال کردے گا۔ لیکن جب وہ کسی طرح بھی عمر ماروی کا دل نہ جیت سکا تو اس نے یہ کہہ کر ماروی کو ایک سال کے لیے قید میں ڈال دیا کہ اگر اس دوران میں تمہارا دل نہ جیت سکا تو تمہیں واپس چھوڑ آؤں گا۔
ماروی کے لیے ہر دن ہزار سال کے برابر تھا، اسے نہ عمر سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی اس کے مال ومتاع سے۔ وہ کسی طور بس دن گزارتی رہی۔ سندھی شاعری میں ماروی کے ان دنوں کا تذکرہ بہت اداسی اور بے قراری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ماروی ہر وقت اپنے تھر اور وہاں کے باسیوں کی یاد میں روتی رہتی تھی۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور وائی (گیت) ’’آئی مند ملہار کھنبا کندیس کپڑا‘‘ (بسنت کی رت لوٹ آئی ہے، میں بسنتی جوڑا پہنوں گی) اسی دکھ اور جدائی کی یاد میں لکھی گئی ہے۔اسی طرح دیگر سندھی شعراء نے بھی اس اداس موضوع کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ مشہور سندھی گائیک استاد جمن کی آواز میں روح تک کو اداس کر دینے والی شاہ بھٹائی کی شاعری ’رات بھی مینہڑا وٹھا‘ (رات بھی میرے دیس میں بارش برسی ہے) بھی اسی تناظر میں لکھی گئی ہے۔
ضلع تھرپارکر کی تحصیل نگرپارکر میں لبِ سڑک واقع اس گاؤں کی طرف ایک پختہ سڑک نکلتی ہے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لیکن یہ سڑک غریب کی خواہشات کی طرح تھوڑی دور جا کر اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں اس سڑک کا اختتام ہوتا ہے وہیں وہ مشہور زمانہ کنواں واقع ہے جس پر ایک داستان نے جنم لیا۔
ماروی کے کنویں کے اردگرد ایک پختہ چاردیواری تعمیرکی گئی ہے، اس کے ارد گرد روایتی تھری اسٹائل کے پختہ جھونپڑےبھی ہیں، جہاں شمسی توانائی سے رات کے وقت آسیبی سی روشنی جگمگ جگمگ کرتی ہے تو تھر کی اداسی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ان ہی میں سےایک کو ’میوزیم‘ کا درجہ دیا گیا ہے ۔جہاں داخل ہونے کی فیس دس روپے ہے اور داخل ہونے والا عمر اور ماروی کی شبی ہیں دیکھ کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ شکر کرتا ہے کہ دس روپے برباد نہیں ہوئے۔ یہاں ہر سال ایک میلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں تھر سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس کنویں کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں ہر شام مقامی فنکار جمع ہو کر ماروی کی جدائی اور اس کے غم کو اجاگر کرنے والے گیت گاتے ہیں۔