• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پوری دنیا کہہ رہی ہے کہ امریکیوں کو قبضہ کرنا آتا ہے، قبضہ خالی کرنا نہیں آتا۔ آخر میں تو وہ دم دباکر بھاگتے ہیں۔

افغانستان میں صورت حال تیزی سے دھماکہ خیز ہورہی ہے۔ دوحہ میں امریکہ، امارات اسلامیہ(طالبان) مذاکرات میں طے ہوا تھا کہ ان کے اختتام پر بین الافغان مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔ افغان آپس میں طے کریں گے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں آئندہ حکومت کون کرے گا۔ انتظامی ڈھانچہ کیا ہوگا؟ امریکیوں کی جلد بازی میں انخلا سے طاقت کا توازن بتدریج امارات اسلامیہ کے حق میں جارہا ہے۔موجودہ افغان حکومت اور افغان نیشنل آرمی کمزور پڑتی جارہی ہے۔ اب امارات اسلامیہ اسے اپنی فوجی فتح کی صورت دینے کے لئے ضلع پر ضلع اور صوبے پر صوبہ فتح کررہی ہے۔ ان صوبوں میں مامور افغان فوجی اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں مقامی آبادیوں کا تعاون حاصل نہیں ہے۔

ایک ضلع میں طالبان کے حملے سے تنگ آکر بعض شہریوں نے جاکر افغان پولیس سے شکایت کی تو انہوں نے مدد سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ’’ طالبان کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ ہمیں بھی ماریں گے ۔ تمہیں بھی۔‘‘

اب سب عالمی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کی تیار کردہ افغان نیشنل آرمی ملک کا اندرونی اور بیرونی دفاع نہیں سنبھال سکتی۔ تو کیا 20 سالہ تربیت، کھربوں ڈالر ضائع ہوگئے۔ کیا عالمی برادری افغان مزاج سمجھنے میں ناکام رہی ہے؟ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ افغان سر زمین اور افغان دماغ آگے بڑھتی دنیا کے علوم و فنون، جمہوری نظام اور بین الاقوامی رابطوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیا وہ اس عالمی گائوں میں الگ تھلگ جزیرہ بن کر عالمی امن میں کوئی کردار ادار کرنا نہیں چاہتے؟ سب سے اہم معاملہ تو یہ ہے کہ کیا اکیسویں صدی کے افغانستان میں بھی امارات اسلامیہ فنون لطیفہ کے فروغ کی اجازت نہیں دے گی۔ سب سے زیادہ خطرات اس وقت ادیبوں، دانشوروں، شاعروں، مصوروں، موسیقاروں اور مغنیوں کو لاحق ہیں۔ پہلے بھی وہ پاکستان، بھارت، امریکہ، جرمنی،کینیڈا وغیرہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ امریکیوں کے تسلط کے بعد ہی واپس آئے تھے اور اپنے فنون کو بتدریج بحال کیا تھا۔ خاص طور پر ’رباب‘ کی دوبارہ تراش خراش اور پیداوار شروع ہوگئی تھی۔ اب رباب کے تار پھر خاموش ہورہے ہیں۔ یہ فنکار آرزو کررہے ہیں کہ طالبان ہمیں اکیلا چھوڑ دیں لیکن انہیں یقین ہے کہ طالبان انہیں برداشت نہیں کریں گے۔

فنون لطیفہ کو تو پاکستان میں بھی ایک بڑا حلقہ غیر ضروری بلکہ غیر شرعی قرار دیتا ہے۔ اس کے باوجود یہاں ان کو جان کا خطرہ نہیں ہوتا۔ فنونِ لطیفہ سے وابستگان اور اعتدال پسند افغان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ 1996 دوبارہ آرہا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔

اگر اب دوبارہ خانہ جنگی، اعتدال پسندوں کی ہلاکتیں، پروفیسرز کا قتل شروع ہوتا ہے تو اس کی برابر کی ذمہ داری امریکیوں پر بھی عائد ہو گی۔ امریکیوں نے جن عزائم کا دنیا بھر کو یقین دلاتے ہوئے کابل پر فوج کشی کی تھی، یورپ اور اسلامی ممالک میں اپنے اتحادی جن مقاصد کے لئے بنائے تھے، نیٹو کو جن اہداف کے حصول کے لئے یہاں متعین کیا، وہ مختصراً یہ تھے۔1۔ القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کی تباہی۔2۔ طالبان کی فوجی شکست۔3۔جمہوری عمل کو تقویت دے کر ایک مضبوط مرکزی حکومت کا قیام۔4۔ افغان اعتدال اور اصلاح پسندوں کی ایک نئی نسل تیار کرنا…اب دو عشروں بعد جب امریکی اور اس کے اتحادی افغانستان چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں تو کیا وہ ان میں سے کوئی ایک ہدف بھی حاصل کرسکے ہیں۔1۔ القاعدہ کی جگہ اب داعش کا اثر بڑھ رہا ہے۔2۔ طالبان شکست کی بجائے فوجی فتوحات حاصل کررہے ہیں۔3۔ کابل کی مرکزی حکومت کمزور ترین ثابت ہورہی ہے۔4۔افغان اعتدال پسند نئی نسل اس وقت دہشت زدہ ہے۔ اسے اپنے سروں پر موت منڈلاتی نظر آرہی ہے۔

پاکستان میں بعض حلقے اور افراد کہہ رہے ہیں، ہمیں افغانستان سے کیا لینا دینا۔ ہمیں اپنے حالات کی فکر کرنی چاہئے۔ یہ ایسی آسان بات نہیں ہے۔ افغانستان کے معاملات کی فکراس لئے کرنی چاہئے کہ طور خم کے اس پار کوئی بھی تبدیلی ہو۔ اس کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہوتے ہیں۔

کہا سرحد پہ جا بیٹھو کہا سرحد پر جا بیٹھیں

کہا افغان کا ڈر ہے کہا افغان تو ہوگا

افغان اثرات چاہے امریکہ زدہ ہوں یا طالبان زدہ۔ پاکستان اس سے گریز نہیں کرسکتا۔ ہم پاکستانیوں کو بہرحال فکر مند ہونا چاہئے۔ اب تک ہمیں افغانستان امریکہ اور برطانیہ کی عینک سے، مغربی خبر رساں ایجنسیوں کے توسط سے دکھایا گیا ہے۔ امارات اسلامیہ( طالبان) کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ مستند خبروں کے لئے اپنی کوئی نیوز ایجنسی، ٹیلی وژن، ریڈیو قائم نہیں کرسکی ہے جس سے مغرب کے تاثر سے آزاد خبریں موصول ہوسکیں۔ عام دنیا میں اس وقت جو خدشات ہیں۔ امارات اسلامیہ انہیں دور کرنے کی کوشش نہیں کررہی ۔ دنیا بھر میں عام نوجوان کو یہ خوف ہے کہ وہ نسل جس نے 2001کے بعد افغانستان میں آنکھ کھولی، امریکیوں کو ’نجات دہندہ‘ پایا۔ امریکی تعلیم حاصل کی ۔ ذہنی تربیت پائی۔ اب طالبان کے زیر اثر معاشرے میں ان کا کیا مقام ہوگا، امریکی خود فرار ہوتے وقت اپنے گماشتوں، حامیوں کو اپنے دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑ کر کیوں بھاگ جاتے ہیں۔ کہا گیا تھا کہ طالبان کے مسلح افراد 75ہزار ہیں جبکہ افغان نیشنل آرمی تین لاکھ ہے۔ طالبان آسانی سے فتح نہیں پاسکتے۔ مگر اس وقت تو افغان فوجی ہتھیار طالبان کے حوالے کرکے اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں۔ ان پر خرچ کیا گیا پیسہ۔ تربیت اب سب بے نتیجہ ثابت ہورہی ہے۔ بین الافغان مذاکرات نہیں ہوسکے ہیں۔ یہ بھی لگ رہا ہے کہ زلمے خلیل زاد مذاکرات کے لئے بہتر انتخاب نہیں تھے۔

یہ تو قطعی طور پر واضح ہے کہ چند ہی ہفتوں بعد کابل پر امارات اسلامیہ کا مکمل قبضہ ہوجائے گا۔ کشت و خون ہوگا۔ افغان آپس میں ایک دوسرے کی لاشیں گرائیں گے۔ مہاجرین کے ریلے پھر پاکستان ایران کا رُخ کریں گے۔ پاکستان کی حکومت عوام اور دانشوروں کو افغانستان کی مجموعی صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے اس پر کھل کر بحث کی جائے کہ ہماری افغان پالیسی کیا ہو۔ مہاجرین کو کیمپوں میں رکھا جائے۔ رجسٹر کیا جائے۔ یا پہلے کی طرح کھلا چھوڑ دیا جائے۔ پاکستان میںپہلے ہی فرقہ پرستی بہت ہے۔ انتہا پسندی ہے۔ یہی شدت پسندی افغانستان سے پھر سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوگی۔ پاکستان کی شدت پسندی اور افغان شدت پسندی مل کر اس خطّے کو پھر آتش فشاں بناسکتی ہیں۔

تازہ ترین