• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں تقریباً نصف صدی سے خون بہہ رہا ہے جس کا آغاز 1975میں سوویت یونین کی سیاسی مداخلت سے ہوا۔ اُس نے ظاہرشاہ کا تختہ سردار د اؤد کے ذریعے الٹا جو پختون نیشنلسٹ اور ا شتراکی نظریات سے متاثر تھا۔ اُسے جلد ہی احساس ہو گیا تھا کہ افغان معاشرہ بنیادی طور پر مذہبی معاشرہ ہے جس میں اشتراکی نظام کے خلاف ایک گونہ مزاحمت پائی جاتی ہے، چنانچہ اُس نے سوویت یونین کی جبرّیت سے باہر نکلنے کی روش اختیار کی، تو اُسے موت کی نیند سلا دیا گیا۔ یہی حشر حفیظ اللہ امین کا بھی ہوا۔ اُس کی جگہ ببرک کارمل کو برسر اقتدار لایا گیا جو غیرپختون تھا۔ افغان عوام سرکشی پر اتر آئے جسے دبانے کے لئے سوویت یونین افغانستان میں فوجیں لے آیا، مگر اُسے عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے میں پاکستان کی قیادت نے اہم کردار ا دا کیا۔ روسی فوجیں مارچ 1989 تک ا فغانستان کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونک کر دریائےآمو کے پار چلی گئیں۔

صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے امریکہ، سوویت یونین اور ا پنی سیاسی قیادت کو بڑی دلسوزی سے یہ سمجھانے کی سرتوڑ کوشش کی کہ فوجوں کے انخلا سے پہلے افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام اشد ضروری ہے، ورنہ خون کی ندیاں بہتی رہیں گی اور ا من کا قیام ایک خواب پریشان بن کے رہ جائے گا۔ مفادپرستوں نے اُن کی دردبھری آواز پر توجہ نہیں دی اور مجاہدین آپس ہی میں دست و گریباں ہو گئے اور ہولناک خانہ جنگی سات سال جاری رہی۔ ملاعمر نے قندھار میں طالبان کے نام سے تنظیم قائم کی جس نے عوامی حمایت کے بل بوتے پر و ار لارڈز کو اسلحہ رکھ دینے پر مجبور کیا۔ ملک میں تقریباً بیس برس بعد امن قائم ہوا ا ور ا ہل وطن کو منشیات کی لعنت سے بھی نجات ملی۔ پاکستان نے سب سے پہلے طالبان حکومت کو تسلیم کیا اور سعودی عرب، ا مارات نے بھی ساتھ دیا۔ دریں اثنا امریکہ میں نائن الیون کا حادثہ پیش آیا جس کا سارا ا لزام القاعدہ پر تھوپ دیا گیاکہ اسامہ بن لادن اُس کے روح رواں تھے۔ اُن کا تعلق سعودی عرب سے تھا، لیکن وہ ا فغانستان میں قیام پذیر تھے۔ امریکہ نے طالبان حکومت سے اُنھیں اُس کے حوالے کر دینے کا مطالبہ کیا۔ جواب ملا ہم اپنا مہمان کسی کے حوالے نہیں کرتے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی رو سے تمام ارکان ممالک افغانستان کے خلاف کارروائی کے لئے اپنی فوجیں بھیجنے کے پابند تھے۔ پاکستان کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے بےچوں و چرا فضائی اسپیس بھی فراہم کر دی اور ہوائی اڈے بھی دے ڈالے۔ امریکی اور نیٹو ا فواج نے طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ا ندھادھند بمباری سے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ کر ڈالے۔ بیس برسوں تک افغان عوام کو مزاحمت کی کڑی سزا ملتی رہی اور طالبان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کے نئےنئے حربے استعمال کیے گئے، لیکن اسلام سے وابستہ عوام اُن کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے۔ امریکہ نے ا س دوران جعلی انتخابات کے ذریعے کابل میں اپنی من پسند حکومتیں قائم کیں اور تین لاکھ نفوس پر جدید اسلحے سے لیس افغان فوج کھڑی کی جس پر دو کھرب ڈالر خرچ ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی اور د وحہ میں فروری 2020 میں معاہدہ طے پایا۔ اُن مذاکرات کی بنیاد پر عالمی سطح پر افغان طالبان افغانستان کے نمائندہ کے طور پر تسلیم کر لئے گئے، تاہم افغان طالبان اور ا فغان حکومت کے مابین مذاکرات ا س لئے ناکام رہے کہ امریکی حمایت سے قائم افغان حکومت مفاہمت کے بنیادی تقاضے پورے کرنے پر تیار نہیں تھی۔ افغان طالبان شدید نامساعد حالات اور آزمائشوں کے باوجود ا سلامی نظام کے نفاذ اور عوام کے دکھوں کا مداوا فراہم کرنے کا عزم دہراتے رہے جس کا احترام ازبس ضروری ہے۔

افغان طالبان کا جو وفد محترم اعجاز الحق سے اظہار تعزیت کیلئے آیا تھا، اُس نے وہ تمام شکوک و شبہات دور کر دیے ہیں جو اُن کے بارے میں مغرب اور ہمارے سیکولر حضرات پھیلاتے آئے ہیں۔ اُنہوں نے برملا اعتراف کیا کہ ہم نے ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے اور ہم اعتدال سے معاملات چلانا اور تمام شراکت داروں کو اقتدار میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی اعلان کیا کہ ہم انسانی آزادیوں کا پوراپورا خیال رکھیں گے اور خواتین کے حقوق اور معاشرے میں اُن کی باوقار ا ور جداگانہ حیثیت کا تحفظ کریں گے۔ اُس ملاقات کا احوال روزنامہ جنگ میں شائع ہوا، تو افغان طالبان نے میری تحریر پر اچھا رد عمل ظاہر کیا اور ا یک وڈیو فلم میں محترم اعجاز الحق کو پیغام بھیجا کہ پہلی بار پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے روزنامے میں ہمارا صحیح امیج پیش ہوا ہے۔ اُنہوں نے ا س امر کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ ہم اہل پاکستان کی سلامتی کی بڑی قدر کرتے ہیں اور بھارت سے الگ تھلگ رہنا چاہتے ہیں جس کے طیارے ہم پر بم برساتے رہے ہیں۔ ہزارہ گروپ سے اچھے تعلقات قائم ہونے پر ایران نے یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چین، پاکستان، روس اور ا یران، افغانستان میں قیام امن میں اہم کردار ا دا کر سکتے ہیں۔

افغان طالبان کی قیادت میں صحت مند سوچ پروان چڑھ رہی ہے جسے مزید توانا اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے پاکستان کے ارباب اختیار ا ورمیڈیا پر لازم ہے کہ وہ کشادہ دلی سے کام لیں اور مفاہمت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے تمام فریقوں پر اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ ا س حقیقت کا اعتراف پاکستان میں اونچی سطح پر برملا ہونے لگا ہے کہ افغان طالبان میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے اور ا ب اُنہیں یہ اعلان بھی کرنا ہو گا کہ وہی افغانستان کی نمائندہ طاقت ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔

نوٹ: گزشتہ چند ہفتوں میں بڑی بڑی ہستیاں اور کہکشائیں بجھ گئی ہیں۔ دو ر وز پہلے وہ وین حادثہ کا شکار ہو گئی جس میں تین درجن کے قریبی چینی اور چند پاکستانی سوار تھے۔ ملکی فضا سوگوار ہے۔

تازہ ترین