سندھ میں خاص طور پر ضلع شکارپور کچے کے علاقوں میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ڈاکووں کے ہاتھوں پولیس کو بھاری جانی اور مالی نقصان کے بعد بعض ایڈیشنل آئی جی سطح کے افسر سمیت دیگر پولیس افسران کا یہ کہہ کر معاملے سے توجہ ہٹانا یا جان چھڑانا دُرست نہیں کہ ڈاکووں کے پاس جدید ہتھیار ، راکٹ لانچر، اینٹی ائیر کرافٹ گنز سمیت پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ موجود ہے، اور پھر روایتی بیان کہ آپریشن جاری رہے گا، لیکن پولیس کو پہنچنے والے نقصان کی مکمل وجوہات سامنے نہیں لائی گئیں کہ آخر کارروائی کے دوران پولیس کو ہی شکارپور کچے میں نقصان کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟
سکھر ریجن کا شکارپور ضلع جہاں کچے میں ڈاکو راج قائم تھا، یہ ضلع بدامنی کی آگ میں جل رہا تھا اور پولیس بے بس دکھائی دیتی تھی۔
شکارپور ضلع کے کچے میں، جہاں پولیس جاتی نہیں تھی اور اگر چلی جائے تو بھاری نقصان کے ساتھ ناکام لوٹتی تھی۔ شکارپور کچے کے ان خطرناک علاقوں میں ڈاکووں کا اتنا مضبوط نیٹ ورک تھا کہ پولیس کے ڈی ایس پی ، ایس ایچ او سطح کے افسران سمیت متعدد پولیس اہل کاروں نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کیا ، لیکن پولیس اپنا ہدف حاصل نہ کرسکی۔
حالاں کہ یہ بات دُرست ہے کہ ڈاکووں کے پاس بھاری تعداد میں جدید اسلحہ موجود ہے اور ایسا اسلحہ کہ جو پولیس کے پاس نہیں، اس کے باوجود حکومت اور پولیس چیف کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا کہ کس طرح پولیس کو جدید سے جدید اسلحے کے ساتھ لیس کیا جائے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، تو یہ بھی مناسب نہیں کہ اس بات کو جواز بنا کر پولیس خاموش ڈاکو راج کے نظارے دیکھتی رہے، کیوں کہ بہتر حکمت عملی اختیار نہ کئے جانے اور خاموشی کے باعث شکار پور کچے کے علاقے میں ڈاکو راج عروج پر پہنچ گیا تھا جو کہ حکومت اور پولیس کے لیے روز بروز درد سر بنتا جارہا تھا۔
جس کے بعد جو آپریشن کمانڈر کی تبدیلی کا فیصلہ ہوا، وہ دُرست ثابت ہوا اور نئے تعینات ہونے والے ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو نے ایک سے ڈیڑھ ماہ میں شکارپور میں وہ نتائج دیے جو حکومت اور آئی جی سندھ کی توقع سے کہیں بڑھ کر تھے اور اس بات کو ثابت کرکے دکھایا کہ اگر کچھ کرنے کی لگن ہو حوصلہ بلند اور بہتر حکمت عملی کا تجربہ تو نامسائد حالات اور کم وسائل کے ساتھ بھی ڈاکووں سے لڑ کر اپنے ہدف کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ سب کچھ انہوں نے کرکے دکھایا۔
آپریشن کمانڈر تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ اگر ڈاکووں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ ہے، تو پولیس اپنا ہدف کیسے حاصل کرتی ہے!! آپریشن کے دوران پولیس کمانڈر نے عید کی چھٹیاں بھی کچے میں پولیس جوانوں کے ساتھ گزاریں، قربانی بھی کی اور گوشت کو خود مختلف اندار میں پکا کر جوانوں کے ساتھ مل کر کھایا، عید منائی اور پارٹی کی، عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے اپنی خوشیاں قربان کرنے والے ان افسران اور جوانوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں ۔ شکارپور کچے کے جنگلات اور خطرناک تصور کیے جانے والے کچے کے علاقوں میں ڈاکو راج کے خاتمے کے بعد اب پولیس کی گرفت ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہونے لگی ہے، حالاں کہ منزل ابھی دور ہے۔ پولیس کی مختصر عرصے میں بڑی کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ منزل اب ناممکن نہیں ہے۔
شکارپور پولیس نے ایک ماہ کے مختصر عرصے میں تین بدنام ڈاکووں کو ہلاک اور متعدد کو زخمی اور گرفتار کرکے ڈاکووں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جدید ہتھیار اور اینٹی ائیر کرافٹ گنز کچے کے مشکل راستے دریا اور پانی اب پولیس کا راستہ نہیں روک سکتے۔ پولیس کے حوصلے اور مورال بلند ہے، کچے میں مستقل پولیس چوکیوں کے قیام کے ساتھ ڈاکووں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور بہتر حکمت عملی کے تحت ڈاکووں کی سپلائی لائن کو توڑا جارہا ہے۔ اس دوران ایک بڑی اور کام یاب کارروائی میں شکارپور پولیس نے کار سے بڑی تعداد میں جدید اسلحہ اور گولیاں برآمد کرلیں۔
پولیس نے ایک کام یاب کارروائی کے دوران کچے میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والے اور متعدد پولیس اہل کاروں کی شہادت میں مطلوب ڈاکو کو مقابلے میں ہلاک کیا، جس پر حکومت سندھ کی جانب سے 15 لاکھ روپے انعام مقرر تھا۔ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کے مطابق شکارپور کچے کے علاقوں میں ڈاکووں کے گرد مسلسل گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور پولیس ٹارگیٹڈ آپریشن میں مصروف ہے۔ اس دوران ناپر کوٹ تھانے کی حدود میں پولیس اور ڈاکووں کے درمیان مقابلہ ہوا، جس میں ایک انعام يافتہ بدنام ڈاکو مارا گیا ہے۔
ہلاک ڈاکو پر سندھ حکومت کی جانب سے پندرہ لاکھ روپے کا انعام مقرر تھا۔ ڈاکو کی شناخت مھیسرو بنگلانی کے نام سے ہوئی ہے، مارے جانے والا ڈاکو دو پولیس اہل کاروں کی شہادت ، دو کو زخمی کرنے سمیت قتل ، اغواء برائے تاوان، پولیس مقابلوں،ڈکیتی لوٹ مار سمیت دیگر وارداتوں میں پولیس کو انتہائی مطلوب تھا، جس کے قبضے سے کلاشنکوف برآمد ہوئی ہے، پولیس کی جانب سے ڈاکووں کے گرد مسلسل گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چھوڑیں گے نہیں، ڈاکو راج کا دور گیا اب کچے میں عوام کا راج ہوگا اور پولیس کی رٹ مکمل بحال ہوگی پولیس عوام اور عوام پولیس ہوگی ملکر ڈاکووں کا خاتمہ کریں گے۔
اس سے قبل بھی شکارپور کچے میں 2 بدنام ڈاکو مارے گئے تھے اور اب تک پولیس کی جانب سے ڈاکووں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن جاری ہے پولیس نے ایک اور کارروائی میں اسلحہ ڈاکووں تک پہنچانے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے ایک ملزم کو گرفتار کرکے بھاری تعداد میں جدید اسلحہ برآمد کرلیا آپریشن کمانڈر نے بتایا کہ خفیہ اطلاع پر چیکنگ کے دوران پولیس نے ایک کار سے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد کیا ہے، جس میں 4 کلاشنکوف، 2 ڈبل بیرل گن اور 2 ہزار گولیاں شامل ہیں، برآمد کرلیں، پولیس نے ایک اسلحہ اسمگلر کو بھی گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی ہے، ملزم اسلحہ ڈاکووں اور جرائم پیشہ عناصر کو فروخت کرتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ شکارپور آپریشن مرحلہ وار آگے بڑھ رہا ہے۔
ڈاکووں کی ہر طرح کی رسد کو ختم کرتے ہوئے ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ پولیس کے گھیراو اور دباو کے تحت ایک اور بڑی کام یابی ملی، جب پولیس نے ایک کام یاب حکمت عملی کے تحت خطرناک ڈاکو جھنگل تیغانی اور خیرو تیغانی کی قید سے شہید بے نظیر آباد کے رہائشی مغوی نوجوان کو بازیاب کرالیا، ڈاکووں نے رہائی کے لیے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا۔35 روز قبل مغوی راشد سیال کو اغوا کیا گیا تھا، بیٹے کو دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور ماں نے بیٹے کو گلے لگا خوب پیار کیا اور جھولی اٹھا کر ایس ایس پی اور شکار پور پولیس کو دعائیں دیں، پولیس کے مطابق شہید بے نظیر آباد کے رہائشی نوجوان راشد سیال کو کسی دوست نے ڈاکووں کے پاس پہنچایا تھا۔ مغوی خطرناک ڈاکو جھنگل تیغانی اور خیرو تیغانی کی قید میں تھا ۔
مغوی کے مطابق ڈاکو اسے کبھی کھانا دیتے کبھی بھوکا رکھتے تھے اور اس کو زنجیروں سے باندھ کر تشدد کیا جاتا اور ورثا سے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا گیا۔ دونوں بدنام خطرناک ڈاکووں ہیں، جن کی قید میں مغوی نوجوان تھا۔ آپریشن کمانڈر ایس ایس پی کی ٹارگیٹڈ آپریشن کی حکمت عملی اور ڈاکووں کا گھیراو دباو اور آپریشن نے نتیجے میں بغیر تاوان کے مغوی کو باحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔
پولیس نے ایک ماہ کے دوران مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے 100 سے زائد اشہاریوں، روپوش اور مطلوب ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کی جانب سے خطرناک بدنام ڈاکو میھسرو بنگلانی کی ہلاکت پر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر اور آپریشن کمانڈر تنویر حسین تنیو سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔
مقابلے میں15 لاکھ انعامی رقم والے بدنام ڈاکو میھسرو بنگلانی کی ہلاکت کو پولیس بڑی کام یابی قرار دیتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان کی ٹیم کو شاباش دی۔ ایس ایس پی نے آئی جی سندھ کو کچے کے علاقوں میں ڈاکووں کے خلاف جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کی تفصیلات اور آئندہ کی حکمت عملی سے آگاہ کیا، جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ شکارپور میں پولیس نے مختصر عرصے میں جو کامیابیاں حاصل کیں اور امن و امان کی فضاء کو بحال کیا وہ قابل تحسین ہے۔ اس آپریشن سے پولیس کا مورال بلند ہوا ہے، کام یاب ٹارگیٹڈ آپریشن جاری رکھا جائے۔
واضح رہے کہ ایس ایس پی تنویر حسین تنیو جن کی یہ بات مشہور ہے کہ کام زیادہ شور کم کے قائل دکھائی دیتے ہیں انہوں نے اپنی پاکستان پولیس سروس کے دوران متعدد ایسے خطرناک ڈاکووں کو مقابلے میں مارا جن پر حکومت کی جانب سے اڑھائی کڑور ، 50 لاکھ روپے انعام تھا، جب کہ درجنوں 5 سے 15 لاکھ روپے کے انعام یافتہ ڈاکو ہلاک کیے اور مختلف علاقوں سے جرائم کی وارداتوں خاص طور ڈاکو راج کا خاتمہ کیا، یہی وجہ ان کی شہرت کا باعث بنی ۔ پاکستان پولیس سروس میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو اینٹی ڈکیٹ آپریشن کے ماہر کہلاتے ہیں، وہ پولیس کو ہتھیاروں کے ساتھ ٹیکنالوجی کے متعلق آگاہی بھی دیتے ہیں اور خود بہت زیادہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں۔
شکارپور جیسے سندھ کے مشکل ترین ضلع میں جہاں ڈاکو پولیس کو بھاری نقصان کے ساتھ اغوا برائے تاوان، ڈکیتی اور لوٹ مار کی روزانہ کی بنیاد پر وارداتیں انجام دیتے تھے، وہاں آب جرائم کا گراف 80 فی صد کم ہوا ہے۔ یہ بات آج تک پتہ نہیں چل سکی کہ وہ کون سی ٹیکنالوجی کا کس طرح استعمال کرتے ہیں باوثوق ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت ان کی اینٹی ڈکیٹ آپریشن اور کسی بھی ضلع میں قیام امن کو یقینی بنانے کے حوالے سے ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہیں، اور شکارپور آپریشن پر وزیراعلی سندھ ، پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نظر رکھے ہوئے ہیں، کیوں کہ کہ چند ماہ قبل اس ضلع میں شکارپور میں ڈاکووں نے اے پی سی پر حملہ کرکے پولیس اہل کاروں کو شہید، زخمی اور یرغمال بنایا تھا، جس کی وڈیو بناکر ڈاکووں نے شوشل میڈیا پر ڈال دی تھی، جس میں ڈاکو خوشی میں بھنگڑے ڈالتے، فائرنگ کرتے اور پولیس کو چیلنج کرتے دکھائی دیے تھے۔
اس خوف ناک عمل نے صوبائی اور وفاقی دونوں ایوانوں میں ہلچل پیدا کردی تھی اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سابق صدر آصف علی زرداری فریال تالپور سمیت دیگر قیادت نے فوری نوٹس لیا اور پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کی تجویز کو مدنظر رکھتے ہوئے ایس ایس پی تنویر حسین تنیو کو شہید بے نظیر آباد سے تبدیل کر کے فوری طور پر شکارپور میں تعینات کیا گیا ، جنہوں نے اپنے روایتی انداز سے کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے غیر یقینی نتائج دےکر یہ مثال قائم کی کہ اگر پولیس کمانڈر بہتر حمکت عملی اور پلاننگ کے ساتھ پولیس فورس کو ساتھ لے کر چلے تو کچھ ناممکن نہیں ہے۔