اِس جگہ خوف ہے، اُس جگہ خوف ہے
بات کس سے کریں، جابجا خوف ہے
پہلے لگتا تھا کہ بس فضا میں ہے ڈر
اب تو لگتا ہے ساری فضا خوف ہے
ہر کوئی ایک دُوجے سے ہے دُور دُور
کیوں کہ ہر ایک دل میں چھُپا خوف ہے
مُجھ کو تُجھ سے ہے ڈر، تُجھ کو مُجھ سے ہے ڈر
اِک مِرا خوف ہے، اِک ترا خوف ہے
شہر اور گاؤںسب خالی خالی سے ہیں
کس قدر آج پھیلا ہوا خوف ہے
آئو روٹھے ہوئے ربّ کو راضی کریں
ساری دُنیا میں بے انتہا خوف ہے
مَیں تو کہتا ہوں تُم نہ رہو باخبر
ارسلاںؔ! ہر خبر میں بسا خوف ہے