• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکیوں نے افغانوں کی ہزار سالہ تاریخ نہیں پڑھی۔ ورنہ کروڑوں ڈالر خرچ کرکے، ہزاروں فوجیوں کو مروا کے امریکی فرعونیت نے ویت نام سے لے کر عراق، لیبیا، شام اور بے شمار افریقی ممالک میں کیسے شکست کھائی۔ افسوس صد افسوس کہ ہمیں یعنی پاکستان کو نہ چاہتے ہوئے بھی ڈالر کی چمک دکھا کر، شکست کھاکے واپس نکلتے ہوئے،مالی نقصان تو بہت ہوا۔ سب سے خطرناک یہ ہوا کہ ہماری افغانوں کی صدیوں پرانی دوستی اور ثقافتی رشتے برباد ہوگئے۔ جیسے افغان ہنستے کھیلتے گھروں میں، معذوری اور موت کا زہر پھیلایا، شاید اگلی نسل تک، اس کےزخم مندمل نہ ہوں۔ حالانکہ سماجی جغرافیے میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وسطی ایشیا کی ریاستیں، پاکستان کے ساتھ تجارتی روابط کو مستحکم کرنے کے لئے تیار ہیں، سی پیک شاید اس کوشش کو بارآور کرسکتا ہے۔ افغان بطور قوم، نہ مغلوں کے زیر نگیں ہوئے اور نہ منگولوں کے۔ ساتھ ہی پرانی تاریخ میں اشوک کے زمانے کی اہمیت اور بدھ ازم کے پھیلائو کو پورے جنوبی ایشیا تک جاپان اور کوریا تک پہچان لیں۔ کتنے بدھسٹ ممالک اور اقوام ہیں، ان کے درمیان کبھی مذہبی فوقیت یا مداخلت کا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ واپس پاکستان کی جانب آئیں اور یاد کریں کہ اس سال پچاس سال ہوجائیں گے جب مشرقی پاکستان، ہمارے غیر دانشمندانہ برتائو کے باعث ہم سے الگ ہوا۔ صرف الگ نہیں ہوا، انہوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد کو تاریخی اور تصویری شکل میں صرف دو سال کے اندر، میوزیم اور لائبریری بناکر اپنی نوجوان نسل کو آگاہ کیا کہ ہم نے علیحدگی کیوںحاصل کی۔ ہمارے ساتھ کیا غیرمساوی سلوک ہوتا تھا، ہماری برآمدات سے حاصل زرمبادلہ دوسرے حصے میں بے دریغ خرچ کیا جاتا تھا۔

میں موجودہ بنگلہ دیشی حکومت سے پہلے ادوار میں، بنگلہ دیش کانفرنسز میں جاتی رہی ہوں۔ موجودہ حکومت تو 80سالہ بڈھوں کو بھی پاکستان کا نمائندہ کہہ کر پھانسی دے رہی ہے۔ بنگلہ دیشی یونیورسٹیوں میں جب میں گئی تو انہوں نے پاکستان سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’آپ نے تو ہمارا بچپن چھین لیا تھا۔ آپ کے لوگوں نے ہماری نوجوان نسل کو برباد کیا تھا‘‘۔ وہ سب یہ باتیں کرتے ہوئے دکھی تھیں مگر جب مجھ سے شاعری سنتی تھیں تو افسردگی کے ساتھ کہتی تھیں’’ آپ کی زبان اتنی میٹھی ہے، اردو سے نفرت کے ماحول میں ہماری پرورش کی گئی‘‘۔

یہی کیفیت اور بیانیہ افغان نوجوانوں کا ہے۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’جب ہم بچے تھے تو آپ طالبان کی حمایت کرتے تھے۔ ان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ وہ آج تک ہمارے اسکولوں کی بسوں کو بم سے اڑا رہے ہیں۔ ہماری دو ہی جج خواتین تھیں۔ انہوں نے ان کو بھی مار ڈالا‘‘۔

میں ان نوجوان افغان بچوں کو کیا جواب دوں۔ کیا بتائوں کہ افغانستان میں دو لاکھ اکتالیس ہزار اموات ہوئیں اور کتنی بوریوں میں بند لاشیں گئیں۔ کشمیر کی ایک نوجوان شاعر نے کہا ہے کہ ’’ہم کو تو دنیا رحم کے قابل بھی نہیں سمجھتی۔ کشمیری عورتوں اور افغان عورتوں نے سب سے زیادہ دکھ سہے ہیں۔ ایک طرف گھر اجڑے، دوسری طرف گھر والے ایسے مارے گئے کہ انہیں دفنانے بھی نہیں دیا گیا۔ کشمیری اور افغانی بچوں کو روشنی سے ڈر لگنے لگا ہے کہ روشنی کا مطلب، کوئی بم، کوئی گولہ ان کے صحن کی طرف بڑھ رہا ہے‘‘۔

اب ایک اور سوال جو غور طلب ہے کہ گزشتہ چند برس میں انڈیا نے کوئی 7دفتر بنائے، بلڈنگیں خاص کر اسمبلی کی بلڈنگ، انڈیا کے سارے چینل پورے افغانستان میں پاکستان کے خلاف جو زہر اگلتے تھے، وہ سب نے سن رکھے تھے۔ ایسے سارے پروگرام پاکستان کے خلاف جلتی پہ تیل کا کام کرتے تھے۔ اب جو بدخشاں سے 50انڈین لوگوں کو فوجی جہاز کے ذریعہ راتوں رات نکالا گیا ہے، اس کا مطلب صاف ہے کہ طالبان دونوں چیزوں کو سمجھ رہے تھے۔ انڈیا کی بظاہر دوستی اور پاکستان سے باقاعدہ دشمنی۔ ہمیں یہ بات کتنے ہی برسوں سے معلوم ہے مگر ہم نے اس کا سدِباب کرنے کی کیا کوششیں کیں۔ ہم نے پاکستانی صحافیوں اور دانشوروں کو یونیورسٹیوں میں بھیجا، جو افغان اور پاکستان کی دیرینہ دوستی، مذہبی یگانگت اور نہ بدلنے والے تجارتی راستے،اور جو مشکل سے مشکل زمانے میں پاکستان نے طورخم اور چمن کے بارڈر کھلے رکھے۔ میں کئی سال سے دیکھ رہی ہوں کہ واہگہ کے راستے سے بھی سینکڑوں ٹرک افغانستان سے آ اور جارہے ہیں۔ افغان قوم کو بار بار بتانا پڑے گا کہ ہم نے تیس لاکھ افغانیوں کو نہ صرف پناہ دی، اب تک لوگ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ بارڈر پار کرتے ہیں۔ ان کے باعث پاکستان میں ڈرگز کون سی کم تھیں، اب روزانہ کسی نہ کسی بارڈر سے پکڑی جاتی ہیں۔ افغانستان اور تاجکستان کی سرحد اور افغان ائیرپورٹ پر ترکی کی فوجیں پہرہ دے رہی ہیں۔ پاکستان کو ان مشکل حالات میں مولوی صاحبان کی وضاحتوں، انٹرویوز اور گفتگو پر نہیں چھوڑنا چاہئے۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان امن کا خواہ ہے۔ اپنے چینلوں کو پورے افغانستان میں رسائی دلوائیں۔ کامیاب نوجوانوں کے انٹرویو کریں۔ وہاں کی یونیورسٹیوں میں پاکستان کی محبت کی باتیں دستاویزی فلموں کی صورت میں دکھائیں۔ شاید امن ہماری جانب بڑھے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین