سندھ میں امن و امان کی خراب صورتِ حال اور گزشتہ 3 برسوں میں جرائم کی شرح میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھا جارہا ہے۔کراچی سے کموں شہید تک چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، ہائی وے کرائم ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں ، جس کی بڑی وجہ سندھ میں تین برسوں سے صوبائی وزیر داخلہ کا نہ ہونا ہے۔ سابق وزیر داخلہ سہیل انور سیال کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہونے کے باوجود انہوں نے پولیس کو بڑی حد تک سیاسی دبائو سے دور رکھا اور ان کی وزارت کے دور میں پولیس میں سیاسی مداخلت دکھائی نہیں دیتی تھی، جو آج دیکھی جارہی ہے۔
وہ سابقہ دور میں 2018 تک ایک کام یاب وزیر داخلہ تھے، جو صوبے میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت اطلاع ملنے پر چھوٹی بڑی واردات کا فوری نوٹس لیتے ۔ بہت محنت لگن اور پولیس کے ساتھ مل کر سندھ میں قیام امن کو یقینی بنایا، لیکن اب تین سال سے صوبے میں وزیر داخلہ نہ ہونے کے باعث جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ وزیر داخلہ کا قلمدان وزیراعلی سندھ کے پاس ہونے اور اُن کی بہت زیادہ مصروفیات کے باعث نہ صرف امن و امان کی فضا متاثر ہورہی ہے، بلکہ پولیس کو بھی بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پولیس افسران کے ساتھ سابق وزیر داخلہ سہیل انور سیال کا کام کے حوالے سے رویہ سخت، لیکن پولیس کے مسائل کو دوستانہ انداز میں سُنتے اور حل کرتے تھے اور بعض افسران کے مطابق پولیس افسران کی کوشش ہوتی تھی کہ وزیر داخلہ انہیں بلائیں، کیوں کہ ان کی چائے اور کافی سب کو پسند تھی۔ ایک کافی اور چائے کے کپ پر پولیس افسران اپنے محکمہ جاتی مسائل حل کرالیتے تھے، جو آج مسائل سے دوچار ہیں ، جب کہ جرائم کی شرح میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ وزیر داخلہ نہ ہونے کا اثر پُورے سندھ خاص طور پر سندھ پولیس کی کارکردگی پر پڑتا ہے۔
جرائم کی یہ صورتِ حال ہے کہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر رینج کی اگر بات کی جائے، تو یہاں بدامنی کی جو صورت حال ہے، وہ قابل غور اور باعث فکر ہے کہ اس رینج میں موٹر وے کا ایک حصہ جو ضلع گھوٹکی میں آتا ہے، محفوظ نہیں ہے، حالاں کہ ملک کے بالائی علاقوں میں موٹر وے بہت زیادہ محفوظ ہیں، لیکن موٹروے فائیو کا کچھ حصہ جو سکھر رینج میں آتا ہے۔ پولیس اس مخصوص حصے کو محفوظ نہیں بناسکی۔ سکھر رینج کے ضلع گھوٹکی میں گزشتہ دنوں جس طرح رات کے وقت ڈاکوئوں نے موٹر وے پر حملہ کیا، اس نے سندھ حکومت اور پولیس کی امن و امان کے حوالے سے اقدامات کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
گزشتہ دنوں گھوٹکی کے علاقے رونتی میں موٹر وے پر ڈاکوؤں نے مسافر گاڑیوں پر دو مقامات پر فائرنگ کی، پولیس کے مطابق موٹروے فائیو پر ایک درجن سے زائد ڈاکوؤں نے حملہ کیا، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے منی ٹرک، جیپ اور کار نشانہ بنی جس کے نتیجے میں دو مسافر بھی زخمی ہوئے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ حکومت یا پولیس چیف کی جانب سے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور گھوٹکی پولیس نے روایتی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکوؤں نے گھوٹکی کےکچے کے علاقوں میں جاری پولیس آپريشن کے رد عمل میں حملہ کیا ہے۔ اگر حکومت یا پولیس کی کوئی اعلی شخصیت اتنا ہی پوچھ لیتی کہ گھوٹکی میں جو پولیس نے کچے میں آپریشن کیا ہے،اس میں ڈاکوئوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا، لیکن پولیس کو نقصان ضرور ہوا ہے۔
گھوٹکی میں اگر ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی بات کی جائے تو ڈاکوئوں کو تو کوئی خاطر خواہ نقصان نہیں ہوا پھر رد عمل کس بات کا؟ ہاں اگر ردعمل دینے کی بات کی جائے، تو ڈاکوئوں نے ایس ایس پی سکھر عرفان سموں کو سوشل میڈیا پر پیغام دیا کہ ہم سکھر کا امن خراب کریں گے، کیوں کہ سکھر میں درجنوں ڈاکو مارے گئے اور زخمی ہوئے اور رد عمل میں ڈاکوئوں نے سکھر میں متعدد وارداتیں کیں۔ اگر ردعمل آسکتا تھا، تو ممکنہ طور پر شکارپور میں آتا ، جہاں تین خطرناک بدنام ڈاکو مختصر عرصے میں مارے گئے، وہاں تو رد عمل کے بہ جائے سناٹا چھا گیا ہے۔
خیر ہم تو توجہ دلا سکتے ہیں یہ حکومت اور آئی جی کا کام ہے کہ وہ امن امان کے معاملات کو دیکھیں۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ نے مختلف مقامات پر امن و امان کے حوالے سے کہا کہ کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ آئی جی سندھ سے بات کی ہے یہ نہیں ہونے چاہیئں اور پھر دو تین دھائیوں قبل کانوائے چلتا تھا۔ اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں، اب کسی جگہ رات میں کانوائے نہیں چلتا۔ یہ بات بالکل درست ہے اور یہ سہرا بھی صوبائی حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے ڈاکو راج اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کے خاتمے سمیت سندھ میں مثالی امن قائم کیا، لیکن اگر اب 2018 کے انتخابات سے قبل اور بعد کے امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے، تو اس میں واضح فرق دکھائی دے گا، کیوں کہ اغوا برائے تاوان کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ سندھ میں تین سال سے وزیر داخلہ کا نہ ہونا ہے، وفاق ہو یا صوبے وزرات داخلہ انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ خاص طور پر صوبے میں وزیر داخلہ کی اس لیے زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ امن و امان کے معاملات اور پولیس، صوبائی وزیر داخلہ کے ماتحت ہوتی ہے۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ جو کہ صوبے کے وزیر داخلہ بھی ہیں، وہ بہت سمجھ دار ،سلجھے ہوئے شخص ہیں، لیکن ان پر اب بہت زیادہ ذمے داریاں ہیں، خاص طور پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سمیت بعض دیگر ایشوز جو سابقہ وفاقی حکومت کے دور میں نہیں تھے۔ وزیر اعلی سندھ گزشتہ ڈیڑھ سال سے کورونا کے حوالے سے بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔
انہوں نے ذمے داریاں نبھاتے ہوئے ایک بہترین چیف ایگزیکٹیو ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اگر ہم بات کریں 2018 تک وزیراعلی سندھ کی سربراہی میں صوبے میں سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے درمیان بڑی ہم آہنگی تھی اور امن امان کی صورت حال بھی بہت بہتر تھی، لیکن الیکشن کے باعث دونوں کو ہی اپنے عہدوں سے جانا پڑا اور اتفاق سے دونوں ہی اپنے عہدوں پر واپس نہ آسکے۔
اگر وزیر داخلہ سہیل انور سیال کی بات کی جائے تو انہوں نے قیام امن اور پولیس کے مسائل کے حل اور بہتری تمام امور پر توجہ دی۔ اس وقت یہ عالم تھا کہ اگر پولیس یا کرائم کی کوئی چھوٹی سی خبر بھی ٹی وی پر نشر ہوجائے، اخبار میں شائع ہو یا کوئی ٹریکر چل جائے، تو وہ چند ہی لمحوں میں متعلقہ ضلع کے ایس ایس پی سے فون پر باز پرس کرتے ہوئےفوری کارروائی کی ہدایات دیتے تھے۔
روزانہ کی بنیاد پر پولیس افسران سے بات کرنا میٹنگ کرنا امن و امان کی صورت حال کو نہ صرف کنڑول کرنا بلکہ اس کو مزید بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھنا، ان کا معمول اور ان کے عہدے کا مقصد تھا اور پولیس افسران بھی اپنے مسائل انہیں بتاتے تھے۔2018 میں اس وقت کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال سکھر چیمبر آف کامرس کے صدر عبدالفتح شیخ کی دعوت پر سکھر چیمبر میں آئے۔ وزیر داخلہ نے تاجروں صنعت کاروں سے میٹنگ کی۔سب نے پولیس کی کارکردگی کو سراہا اور وزیر داخلہ نے پولیسنگ میں مزید بہتری لانے کے وعدے کیے ، شاید انہیں یہ علم نہیں تھا کہ اگلی حکومت میں وہ وزیر داخلہ نہیں ہوں گے۔
آج پولیس کو بھی متعدد مسائل کا سامنا ہے اور حکومت کے لیے امن و امان کی فضا کو برقرار رکھنا بھی چیلنج بنا ہوا ہے، کیوں کہ چوری، ڈکیتی اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے خلاف کبھی کسی شہر میں مظاہرے ہوتے ہیں کبھی تاجر مارکیٹ بند کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال کا نوٹس حکومتی پارٹی کی اعلی قیادت کو لینا چاہیے اور یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ تین سال سے سندھ میں وزیر داخلہ ہی نہیں ہے اور وزیر اعلی اس اہم ترین وزرات کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔اس کے باعث جہاں عوام کو امن و امان کے مسائل پیش آرہے ہیں، وہیں پولیس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بھی تمام اضلاع میں پولیس اہل کاروں کی اسامیاں خالی پڑی ہیں اور سندھ کے تمام اضلاع میں نفری کی کمی کا سامنا ہے۔
پولیس کی گاڑیوں سے لے کر اسلحہ اور دیگر ضروریات کے معاملات ادھورے ہیں، اب جب کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بلدیاتی اور عام انتخاب بھی قریب آئیں گے، ایسے میں پیپلزپارٹی کی قیادت کو سندھ کے اہم ایشوز خاص طور پر مثالی امن امان کے قیام کو خصوصی طور پر فوکس کرنا ہوگا اور اس مختصر وقت میں اگر صوبائی وزارتوں میں ردوبدل کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے لیے جو قیادت بہتر سمجھتی ہو، کسی کا تقرر کیا جائے، تو اس اہم وزارت میں وزیر مقرر کیے جانے کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، کیوں کہ پیپلز پارٹی کے پاس تجربہ کار وزیر سہیل انور سیال ، سید ناصر حسین شاہ یا دیگر بھی موجود ہوں گے جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اگر سندھ میں امن و امان کی مجموعی صورت حال کی بات کی جائے تو سکھر رینج یا کچھ دیگر اضلاع کے علاوہ امن و امان کے حوالے سے مکمل طور پر تسلی بخش نہیں ہیں، لوگ راتوں کو سفر کرتے ہیں، کیوں کہ زیادہ متاثر ہماری پشاور سے کراچی جانے والی انڈس ہائی وے تھی، جو کشمور سے شکارپور اور سکھر سے گزر کر جاتی ہے، خاص طور پر شکارپور کے علاقے خانپور روڈ پر روزانہ گاڑیوں سے ڈکیتی لوٹ اور اغوا کی وارداتیں ہوتی تھیں، لیکن ان دونوں اضلاع میں جب سے اینٹی ڈکیٹ آپریشن کالج کے پرنسپلز ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور تنویر حسین تنیو تعینات ہوئے ہیں، تو ان اضلاع میں ڈاکوئوں کے خلاف کام یاب آپریشن جاری ہے، جس کے باعث امن و امان بحال ہوا ہے۔
اس کی مثال خود وزیر اعلی اور آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر دے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی آئی جی سندھ نے ڈاکوئوں کے خلاف کام یاب آپریشن کے حوالے سے ان دو اضلاع کشمور اور شکارپور کا نام لیا، لیکن سندھ کے متعدد اضلاع میں اس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ سکھر کے صنعتی تجارتی عوامی حلقوں نے بھی پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ سندھ میں وزیر داخلہ کی فوری نامزدگی کو یقینی بنایا جائے، تاکہ پولیس اور عوام دونوں کے مسائل حل ہوں اور صوبے میں امن و امان کی 2018 سے پہلے والی صورت حال واپس آجائے۔