اگر آپ نے شکارپور کا اچار اور مربے نہیں کھائے تو دسترخوان کا ذائقہ ادھورا سمجھیے۔ شکار پور کا اچار اپنی کھٹاس اور ذائقے کے لحاظ سے پورے پاکستان میں مشہور ہے اور لوگ اسے انتہائی ذوق شوق سے کھاتے ہیں جبکہ اس کو فرمائش کرکے نہ صرف بیرون شہر بلکہ غیر ممالک میں مقیم پاکستانی بھی منگواتے ہیں۔ اچار کے حوالے سے سندھ کا یہ شہر بہت مشہور ہے اور اس وقت بھی وہاں پر اچار بنانے والےکافی کارخانے کام کر رہے ہیں، جہاں تیاری کے بعد اچار ، مربہ اور چٹنیوں کو سربمہر ڈبوں میں بند کرکے شکارپور و سکھر کے مر کزی بازاروں میں فروخت کے لیے بھیجا جاتاہے۔ پاکستان بننے سے قبل اچار سازی کے کام سے زیادہ تر ہندوبرادری کے لوگ وابستہ تھے، لیکن کچھ مسلمان خاندان بھی صدیوں سے اس کاروبار سے منسلک ہیں جن میں صدیقی خاندان کے لوگ معروف ہیں جو کارخانے کے علاوہ گھروں میں بھی اچار بناتے ہیں۔
کارخانوں میں تیار ہونے والا اچار بازاروں میں سپلائی کیا جاتا ہے لیکن گھروں میں وہ اپنے استعمال کے لیے تیار کرتے ہیں ، جسے وہ اندرون یا بیرون شہر مقیم اپنے اعزایا دوستوں کوسوغات کے طور پر بھیجتے ہیں۔لوگ ان کے گھروں پر جاکر بھی اچارخریدتے ہیں جو ان کے لائے ہوئے برتن میں5 روپے سے 10 روپےمیں مل جاتا ہے۔ گھروں سےخریداری کرنے والوں میں، زیادہ ترمحلے کےبچے ہوتے ہیں۔ صدیقی برادری کے افراد کا کہنا ہے کہ ان کے استعمال میں سے جو اچار بچ جاتا ہے ،وہ محلے والوں کو فروخت کرتے ہیں یا پھر جاننے والوں کو بھیج دیتے ہیں ۔ گھروں پر اچار سازی کا کام ان کا کاروبار نہیں ہے، یہ کام وہ کارخانوں میں کرتے ہیں۔
ایک زمانے میں زیادہ تر آم کا اچار بنایا جاتا تھا لیکن اب سبزیوں، پھلوں اور گوشت کا اچار بھی تیارکیا جاتا ہے ۔یوں توسکھر، خیرپور، نواب شاہ ،گھوٹکی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں اچار تیار کرنے کے چھوٹے بڑے کارخانے موجود ہیں ،لیکن شکارپور پاکستان کا وہ واحد ضلع ہے جہاں بڑی مقدار میں روزانہ کی بنیاد پر اچار کارخانوں میں تیار ہو کر سکھراور شکارپور کی مارکیٹ میں فروخت کے لئے بھیجا جاتاہے۔ یہاں پر تیار کیا ہوا اچار، کراچی، لاہور،اسلام آباد اورملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھیجا جاتا ہےجب کہ بلوچستان اور طورخم کے راستے افغانستان اور ایران بھی برآمد کیا جاتاہے۔
شکارپور میں کھٹے کے علاوہ میٹھا اچار بھی بنتا ہے جس کے لیے مسالوں کے استعمال میں چند تبدیلیاں کرنا پڑتی ہیں، میٹھے اچار کی تیاری میں شکر کی آمیزش بھی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت کھٹے اچار کی بہ نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرسوں کے تیل میں بنائے ہوئے اچار میں آم یا دوسرے پھلوں کے چھلکے نہیں اتارے جاتے،جب کہ سرکے میں بنانے کے لیےپھلوں کے چھلکے علیحدہ کیے جاتے ہیں۔تیل یا سرکے علاوہ پانی میں بھی اچار تیار کیا جاتا ہے جس کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے مگر اس کا ذائقہ اتنا اچھا نہیں ہوتا۔