• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد اظہار

جوایک بہشت نظیر شہر تھا ،جسے ہم نے اجاڑ دیا، اپنے تعصبات سے، اپنی باہمی لڑائیوں سے، افسوس یہ ہے کہ اس اجڑنے کا افسوس بھی نہیں۔ ایک وقت بھی تھا جب یہاں محبتیں ہی محبتیں تھیں کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کون کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، کس مسلک سے ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے گلیوں میں، بوہری بازار کے پیچھے پارسی اور مسیحی برادریوں کی اکثریت رہتی تھی، عورتیں سائیکلیں چلاتی تھیں ، ان برادریوں کی تقریباً ساری خواتین ملازمت پیشہ تھیں۔

سکیورٹی کوئی ایشو نہ تھا، رات کے ایک بجے بہت اطمینان سے جیکب آباد لائنز ایریا میں جاکر کباب ،پراٹھے کھاتے تھے۔ ناظم آباد میں آغا کا جوس پیتے تھے۔ ریگل کی ایک دکان میں ٹھنڈے دودھ کی بوتلیں ملا کرتی تھیں ۔ ایمپریس مارکیٹ سے ریگل کی طرف آتے ہوئے بائیں طرف قلفی والا تھا،آس کی قلفیاں کھاتے تھے۔ برنس روڈ پر جاکر دھاگے والے کباب ،بھنا ہوا قیمہ اور تل والے نان کھائے بغیر چین نہ آتا تھا۔ معدے مضبوط تھے، سب کچھ کھا جاتے تھے،اور ڈکار تک نہ لیتے تھے۔

اس وقت دبئی اور بنکاک کو کوئی نہیں جانتا تھا، دنیا بھر کی ائیر لائنوں کے جہاز کراچی اترتے تھے۔ مشرق بعید سے آئے ہوئے جہاز، کراچی رک کر مغرب کی طرف جاتے تھے۔ اور یورپ کی طرف سے آئے ہوئے جہاز کراچی سے ہی مشرق بعید کی سواریاں لیتے تھے۔ کراچی کیا تھا؟ امن و امان کا گہوارہ، محبت کا صدر مقام، ایک ایسا شہر تھا جہاں رہنے کو بسنے کو دل کرتا تھا۔

اب کراچی شہر نہیں ،لسانی ،نسلی اور مسلکی گروہوں کا ٹھکانہ بن گیا ہے۔ شہر وہ ہوتا ہے جس کے مکینوں میں ہم آہنگی ہو، جس کا نظم و نسق سب مل کرچلائیں ، جس سے جذباتی وابستگی ہو،اب اگر یہاں رہ کر، یہاں پیدا ہو کر، یہاں پل بڑھ کر بھی امروہہ سے باہر نکلنا ہے نہ مردان سے،تو شہر میں کیسے ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔ کاش ہم بھی اتنا وژن رکھتےکہ کراچی کے سب علاقوں میں سب لوگ مل جل کر ماضی کی طرح رہتے۔ اب حالات یہ ہیں کہ فلاں علاقہ پٹھانوں کا، فلاں بلوچوں کا،فلاں پنجابیوں کا، یہ تو پیوند ہیں جو اس شہر کو لگے ہوئے ہیں اور جو شہر کم اور عفریت زیادہ لگتا ہے۔

کراچی اب اپنے رہنے والوں کے لیے اذیت کا ساماں ہے، بے پناہ ٹریفک اور ،ہر طرف گندگی کے ڈھیر، دکان نما ورکشاپیں ، پورے شہر میں پھیلی ہیں ۔میٹرو پول ہوٹل سےفریر ہال تک کا علاقہ سیر کے لیے مثالی ہوا کرتا تھا لیکن اب وہاں سے زینب مارکیٹ جاتے ہوئےکس قیامت سے گرز نا پڑتا ہے۔ یہ تو ہیاں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔

زیب النسا سٹریٹ کراچی کا پر رونق اور باعزت حصہ تھا، یہاں ریستوران بھی تھے، اور کافی شاپس بھی ،کتابوں کی دکانیں بھی تھیں۔ لیکن اب کیا ہے۔

تازہ ترین