• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال اے رحمٰن

1921ء تک کراچی میں جنرل پوسٹ آفس کے علاوہ تین ڈاکخانے تھے۔ جنرل پوسٹ آفس جو سینٹرل اسٹامپ آفس کہلاتا تھا جو موجودہ نظامت تعلیمات کے کمپاؤنڈ میں قائم کیا گیا تھا، سٹی پوسٹ آفس، صدر پوسٹ آفس اور وکٹوریہ روڈ پوسٹ آفس، یہ تھی اس شہر کی ڈاک کی وصولیابی اور ترسیل کی کل کائنات جو اس شہر کے لئے کافی تھی۔

‎ قیام پاکستان کے وقت کراچی میں 12 ڈاکخانے، 50 لیٹر بکس اور 100 پوسٹ مین تھے، 1970ء تک شہر میں 108 ڈاک خانے اور 475 لیٹر بکس قائم ہوچکے تھے ۔ کراچی میں مرکزی پوسٹ آفس تو جنرل پوسٹ آفس ہی تھا، اس کے علاوہ چھ مزید پوسٹ آفس ایسے تھے ،جہاں سے ڈاک وصولی کے ساتھ تقسیم بھی کی جاتی تھی، ( اب یہ سارے پوسٹ آفس بھی زون کے اعتبار سے جنرل پوسٹ آفس کا درجہ پاچکے ہیں، ) اور دس پوسٹ آفس ایسے تھے، جہاں ڈاک صرف وصول ہوتی تھی اور تقسیم کے لئے جنرل پوسٹ آفس بھیج دی جاتی تھی ۔

تقسیم کے بعد 1947 میں پاکستان پوسٹ کو مواصلات کی وزارت کے تحت کردیا گیا،1948میں پاکستان “ پوسٹ یونین “ کا89واں ممبر بنا،1948ہی میں پاکستان پوسٹ نے ڈاک کا ٹکٹ جاری کیا، ڈاک کی ترسیل کو تیز تر بنانے کے لئے 1959میں ائیر میل سسٹم جاری ہوا، جس جس شہر میں رسائی تھی ڈاک روز کے روز ہوائی جہاز سے جانے لگی، سابق مشرقی پاکستان کے لئے پی آئی اے کے ہیلی کاپٹر استعمال ہوتے تھے، کورئیر کمپنیوں کے آنے کے بعد ارجنٹ میل سروس کا آغاز ہوا ۔ اس وقت پورے پاکستان میں13000 پوسٹ آفس اور 44000کا عملہ ہے ۔

جی پی او کی تقسیم سے قبل کی عمارت پاکستان کے ترقی پزیر نظام میں اپنی نئی عمارت کے ساتھ میکلوڈ روڈ کی شان بن گئی، نئی عمارت 1966میں تعمیر ہوئی، کیا خوبصورت عمارت اور خوبصورت کمپاؤنڈ، پی ڈبلیو ڈی کے انجینئر عبد الاحد اس کے ڈیزائنر تھے، کمپاؤنڈ کے اندر لگے ڈاک کے خوبصورت رنگ برنگی ڈبے، سرخ ڈبہ اندرون شہر ، سبز ڈبہ اندرون ملک اور نیلا ڈبہ بیرون ملک کی ڈاک کے لیے، رجسٹری ، انڈر پوسٹل سرٹیفیکٹ اور منی آرڈر، ، زمابہ طالبعلمی میں اسے دیکھنے اور سمجھنے میں لطف آتا تھا۔ 

ارجنٹ میل سروس کا کوئی تصور ہی نہ تھا اس لیے کہ ہر ڈاک ارجنٹ ہوتی تھی، دو پیسے کا پوسٹ کارڈ اور اتنے ہی پیسوں کا بغیر سیل کیا ہوا لفافہ ،جو دوسرے دن مکتوب الیہ کے ہاتھ میں ہوتا تھا، رجسٹری ایک دن چھوڑ کر اور اگر اے ڈی کی جائے تو اس کی رسید تیسرے دن صارف کے ہاتھ میں ، حالانکہ اس دور میں اتنی سہولیتں نہ تھیں، مگر کام کرنا تھا اور افسروں کو کام لینا تھا ، سو کام ہوتا تھا، ڈاک کے ذریعے خط بھیجے اور نہ پہنچے اس کاتصور ہی نہ تھا، ڈاکیے کا وقت مقرر ہوتا تھا۔ صبح11بجے کے قریب کال بیل بجی تو اندازہ ہوتا تھا کہ ڈاکیہ ہوگا اورایسا ہی ہوتا تھا ، کیا سہانے دن تھے، جب جی پی او یعنی جنرل پوسٹ آفس میں نائٹ پوسٹ آفس کا نظام بھی تھا ۔ اردو میں اسے ڈاک خانہ شبینہ کا نام دیا گیا تھا۔ 

پہلی بار جب یہ نام پڑھا تھا تو حیرت ہوئی تھی کہ رمضان اور مسجد کے علاوہ کہیں اور بھی شبینہ ہوتا ہے۔ مغرب کی نماز کے بعد کاروبار بند کرتے ، گاڑی میں بیٹھتے تو بڑے بھائی صاحب ڈرائیور سے صرف اتنا کہتے ’’ بڑاڈاک خانہ “ اور گاڑی جی پی او کےکمپاونڈمیں جا کر رکتی۔ اندر داخل ہوتے تو ڈاک کی وصولی چھانٹی اور ترسیل کی ایک دنیا آباد ہوتی۔ اب تو وہ دور اور وہ سحر سب کچھ ختم ہوا، اس زمانے کے ڈاکیے بغیر ڈاک دئیے چلے جائیں یہ نہ ممکنات میں سے تھا ۔

تازہ ترین