• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبدالغفور کھتری

چاندنی راتوں میں سمندر کا دلفریب نظارہ، حدنگاہ تک پھیلی پانی کی نیلی چادر، تجسس، ہیبت اور پراسراریت لیئے گہرا اتھاہ سمندر اورغضب ناک حالت میں ساحل سے ٹکرانا اور بے نیل و نرام واپس چلے جانا۔لہروں کے اس طرح آنے، پلٹنے اور پھر لوٹ کر آنے کے تسلسل اور اس کے شور سے ایک ردہم سی بن جاتی ہے۔ ایک تنہاا فرد کے لئے طویل ویران ساحل پر یہ ردہم رومان پرور کیفیت میں بدل جاتی ہے، مگر روزگار اور مشقت کی ڈور میں بندھتے ہی یہ رومان انپا سحر کھو دیتا ہے۔اور جب پانی کی یہی نیلی چادر اور گہرا سمندر رزق کا وسیلہ بن جائے ،جہاں مشقت کا دورانیہ دو چار گھنٹوں کا نہیں بلکہ کئی دنوں پر محیط ہو تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ کنارے پر بیٹھ کر اس سے رومان کشید کرنا کیا ہے اور اسی سمندر کا سینہ چیر کر اس سے رزق تلاش کرنا کیا ہے۔

یہ بھی کیا لوگ ہیں کہ جن کے رزق کے وسیلے طوفانوں کے گرد گھومتے،ہیں۔ہمہ وقت مشکلات سے نبرد آزما رہنے والے ان ماہی گریوں کے آگے کھلے سمندر میں رات کے وقت چٹکتی چاندنی یا تاروں بھری رات کوئی معنی نہیں رکھتی اور نہ ہی علی الصبح پوپھٹنے اور طلوع آفتاب کا دلفریب منظر ان کے من میں ہلچل پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ لوگ تو بس پانی میں پڑے جال سے وابستہ امید کی ڈور سے ہی بندھے رہتے ہیں۔ فطری حسن کے اتنے قریب رہ کر بھی اس دلکشی سے بیگانگی، غماز ہے اس کٹھنائی کی، جس سے وہ صبح شام گزرتے ہیں اور پھر مقدر بھی ان سے کیا خوب کھیل کھیلتا ہے کہ، مئی جون میں سوا نیزے پر آئے سورج کی تمازت ہو یا دسمبر جنوری کی وہ ٹھنڈ، جب لوگ بمشکل لحاف سے باہر آنے کو تیار ہوں، انہیں ہر صورت اپنے روزگار پر حاضر ہونا ہے۔

اب یہ ان کا مقدر ہوتا ہے کہ موسم کی سختیوں کو چھیلنے اور طوفانی لہروں سے نبردآزما ہونے کے باوجود قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوتی ہے یا نہیں۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک ان کا سانجھی، ان کا دوست یہ مہربان سمندر کبھی تو ان کی جھولی خوشیوں سے بھردیتا ہے تو کبھی انہیں خالی ہاتھ واپس لوٹا دیتا ہے، مگر فولادی عزم و ارادوں کے مالک یہ ماہی گیر اس ناکامی پر افسردہ ہوکر ہمت نہیں ہارتے۔ ایک روز کے وقفے کے بعد پھر سے یہ لوگ سمندر کی مشقت جھیلنے کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں۔ الغزض پورا جیون یہ لوگ آس و نراس کے جھولے میں جھولتے گزار دیتے ہیں۔

کئی دہائیاں اسی طرح گزر گئیں، اور یہ اسی طرح اپنا رزق تلاشتے رہے،مگر نہ ان کے جیون میں بہار آسکی اور نہ ان کی بستیاں سکھ کے دن دیکھ سکیں۔

مبارک گوٹھ، شمس، بابا بھٹ سے لے کر گزری، ابراہیم حیدری تک پھیلی ان ماہی گری بستیوں کے مکیں بنیادی انسانی ضرورتوں کے بغیر کسی نہ کسی طرح اپنا جیون بتا رہے ہیں۔ سمندر کی طرح گہرا سوال ہے کہ کیاسمندری خوراک اور زرمبادلہ فراہم کرنے والے یہ لوگ اسی سلوک کے مستحق ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا روزگار مزید مستحکم ہوتا۔لیکن موئی قسم کہ تقدیر نے ان کے ساتھ بے رحم کھیل کھیلا۔ کئی دہائیوں سے شمس و بابا بھٹ کے برعکس گزری اور ابراہیم حیدری کے ماہی گیر نسبتاً خوشحال کہلائے جاتے تھے، جہاں سیکڑوں میلوں کا سفر طے کرتا اچھلتا مچلتا دریائے سندھ سفر کے اختتام پر سمندر کی آغوش میں پناہ لینے کے لئے ان کی زرخیز زمینوں پر ڈیلٹا تشکیل دیتا ہوا پہنچ جاتا، پھر ہوا یہ کہ انگریزوں نے سکھر بیراج کی صورت میں اس شیر دریا کو بیڑیاں پہنا دیں، اور پھر ہر بیس تیس سالوں میں مزید بیراجوں کی تعمیر نے اس کی روانی کو قدغن لگا دی۔ ستم بالائے ستم کہ گزری اور ابراہیم حیدری کے آس پاس کا چمکتا سمندری پانی بتدریج اپنی دمک کھوتا رہا۔ سمندری حیات کے لئے حیات بخش سمندری پانی میں گٹروں کا بغیر ٹریٹ کیا پانی آبی حیات کے لئے دھیرے دھیرے موت کا موجب بنتا رہا، یوں ان کے جال سمندر سے خالی واپس آنے لگے۔

جھیلوں، ندیوں اور دریائوں کے برعکس سمندر میں شکارکرنے والوں کو سال میں ایک بار جبری فراغت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر سال جون ،جولائی کے مہینوں میں ماہی گیروں کا یہی مہربان سمندر غضب ناک صورت اختیار کرلیتا ہے۔ لہروں کی تندی اوسان خطا کردیتی ہے۔ اب کیا کیا جائے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں جاسکتا، کہ اکیلے ان کی ذات سے کئی اور جیون جڑے ہیں، بس یہی فکر انہیں اس سمندر کی غضب ناک ، بھپری لہروںمیں اترنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور جب وہ فیصلہ کرلیتے ہیں تو سمندر کے ان بیٹوں کو ان کی شفیق ماں ان کے حوصلے کی لاج رکھ کر اپنی مشفق گود وا کرتے ہوئے انہیں رزق فراہم کردیتی ہے۔یہ تو ان کے اپنے بس اور اپنے اختیار میں ہے کہ جان کا جو کھم اٹھا کر رزق تلاش کرلیا۔ مگر وہ جو، ان کے اختیار میں نہیں، ان کے بس میں نہیں، اس کے لئے وہ کیا کریں۔سمندری حیات کی بقاء کے لئے دریائوں کے میٹھے پانی کی ڈیلٹا کے راستے سمندر میں داخلے کی راہ کو یقینی بنانا ان کے بس کی بات نہیں۔

سمندری کناروں پر اُگے تمر کے جنگلات جو آبی حیات، خصوصی طور پر یہ جھینگوں کی نرسریاں ہیں، انہیں بھی کھارے پانی کے ساتھ میٹھے پانی کی ضرورت ہے۔ ان نرسریوں کی بقاء کے بارے میں وہ بے بس ہیں۔

ملکی سمندروں میں موجود ڈیب سی ٹرالرز کو روکنا ان کے بس کی بات نہیں جو جدید طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مچھلی کی بڑی مقدار پکڑ لیتے ہیں، اور طرفہ تماشا یہ کہ اپنے مطلب کی کچھ مخصوص اقسام کی مچھلیوں کو رکھ کر باقی مردہ مچھلیوں کی بڑی تعداد کو واپس سمندر میں پھینک دیتے ہیں، جو چھوٹے ماہی گیروں کے لئے کئی طرح سے باعث نقصان ہیں کہ، وہ واپس پھینک دینے والی مچھلیاں زندہ حالت میں ان کے لئے کارآمد ہوتیں، لیکن مردہ حالت میں سمندر میں پھینک دینے سے سمندر میں آلودگی کے ساتھ ساتھ نسل کشی کا باعث بن جاتی ہیں۔

اپنے روزگار پر روانہ ہوتے وقت انہیں یہ علم تک نہیں ہوتا کہ واپسی پر وہ اپنے گھر پہنچیں گے یا پاک و ہند کی سمندری سرحد پر گرفتار ہوکر بھارت کے جیل خانوں کے مکیں بنیں گے۔ خدانخواستہ گرفتاری کی صورت میں خاندانوں کے یہ کفیل وہاں قید خانوں میں دہرے عذاب کا شکار رہتے ہیں۔ جیل کی مشقت اپنے جسموں پر برداشت کرتے ہیں تو اہل و عیال کی فکر انہیں گھائل کرتی رہتی ہے۔پھر سال دو سالوں میں ہر دو جانب گرفتار کئے گئے ماہی گیر قیدیوں کی رہائی عمل میں آنے پر جب یہ اپنے اپنے گھر پہنچتے ہیں تو ان کی خوشیوں کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں، کیونکہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے زیر کفالت افراد ٹوٹ پھوٹ چکے ہوتے ہیں۔مگر ایسے قیدیوں کی جلد رہائی کا عمل بھی ان کے اختیار میں نہیں۔

ماہی گیری کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تمدن کی تاریخ۔ آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے برآمد ہونے والے فوسلز اور قدیم غاروں میں بنائی پینٹنگز بتاتی ہیں کہ مچھلی دور قدیم ہی سے انسانی غذا رہی ہے۔ نیزے، کانٹے، ڈور اور چھوٹی کشتیوں سے گزرتے ہوئے باقاعد صنعت تک پہنچنے کے لئے اس پیشے کو ہزاروں سال لگ گئے۔ اور آج سمندر کے حامل کئی ممالک میں یہ سمندری خوراک نہ صرف وہاں کے باشندوں کی آسان دسترس میں ہے، بلکہ زرمبادلہ کمانے کا ایک ذریعہ بھی۔

طویل ترین ساحلی پٹی کے حامل پاکستان میں یہ صنعت زبوں حالی کا شکار ہے۔ چھوٹے اور متوسط طبقے کے ماہی گیر کسی نہ کسی طرح اس صنعت کو رواں رکھے ہوئے ہیں۔ شکار کے دور جدید کے طور طریقوں سے یہ قطعی ناواقف ہیں۔ ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے اور غیرملکی زرمبادلہ کمانے والی اس صنعت کے کارکنوں کے لئے حکومت کچھ کرے جو اس دولت کو سمندر کی تہہ سے کھینچ کر باہر لاتے ہیں۔

تازہ ترین