پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، یہ جملہ پولیس تھانوں سےلے کر اعلی پولیس افسران کے ٹھنڈے کمروں کی زینت بنا ہوا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کتنا ہوتا ہے، اس بارے میں عوامی رائے مختلف ہے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی کے کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پولیس کی کارکردگی میں اس طرح بہتری آئی ہے کہ مقابلے کے امتحان اور نوجوان پولیس افسران جو کہ اے ایس آئی یا انسپکٹرکے عہدے سے ترقی پاکر ڈی ایس پی یا ایس پی بنتے تھے۔ اس کے مقابلے میں نواب شاہ سمیت سندھ کے کئی اضلاع میں متعین پولیس افسران کی کارکردگی قدرے بہتر بتائی جاتی ہے۔
تاہم ملک بھر کی طرح سندھ میں بھی پولیس کے محکمے پر سیاسی شخصیات کے اثر رسوخ نے اس محکمے کی کارکردگی کو قدرے گہنا دیا ہے۔لیکن اب جو صورتِ حال سامنے ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ پولیس کو مزید فری ہینڈ کی ضرورت ہے۔ اس کو جرائم کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ایسے اختیارات حاصل ہوں کہ شفافیت سے بھرپور پولیس مقابلوں کے ذریعہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر امن پسند شہریوں کو تحفظ کااحساس لایا جائے۔ اس سلسلے میں ارباب اختیار کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ پولیس کو میرٹ پر فیصلے کرنے کے لیے آزاد چھوڑیں، نہ کہ ڈاکو، چور ، منشیات اور گٹکا فروشوں کو۔
سندھ میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغواءبرائے تاوان کی وارداتیں اپر سندھ کے کچھ اضلاع میں اب بھی اکا دکا جاری ہیں کے مجموعی طور پران کے خاتمے کےلیے پولیس اور دیگر اداروں کی مشترکہ کوششوں سے حکومت نے ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے جب پولیس کو فری ہنڈ دیا، تواس نے ڈاکوؤں کی سرکوبی کی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جس کے بعدسندھ کے بیشتر اضلاع محفوظ ہوگئے ہیں، جہاں تک پولیس کارکردگی کا تعلق ہے، تو ڈی آئی جی عرفان بلوچ نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دو ماہ میں پولیس نے چوبیس مقابلوں میں گیارہ ڈاکوؤں کو زخمی حالت میں گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کروڑوں روپیہ مالیت کے سامان سے بھرے ٹرالروں کو ہائی وے کے ساتھ بنائے گئے ٹھکانوں پر دو ڈاکوؤں کو مقابلے میں گرفتار کرکے ان کے قبضے سے65لاکھ روپیہ مالیت کے سریے سے بھرا ٹرالر قبضے میں لے لیا، جب کہ پولیس نے 51 ملزمان کو جن میں اشتہاری بھی شامل ہیں، پکڑ کر مسروقہ مال برآمد کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قاضی احمد پولیس نے محکمہ تعلیم کے ریٹائرڈ انجینئر محمد یاسین ابڑو اور دولت پور پولیس نے شاہ زور کی محفوظ بازیابی کرائی ہے ۔ جب کہ منشیات کے75 مقدمات درج کرکے 93 ملزمان کو گرفتار ایک کلو 335 گرام ہیروئن 38کلو 370 گرام افیون، جب کہ701 گرام چرس برآمد کی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی میں ایک کلاشن کوف 14 شارٹ گن ایک رائفل 73پستول 277 گولیاں برآمد کی ہیں۔
تاہم پولیس کی اس کاردگی کے تناظر میں دل چسپ صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایس ایس پی سعود امیر مگسی نے گٹکا مین پوری کے خلاف مہم کے سلسلے میں پولیس افسران کوعوام میں اس زہر کے خلاف شعور و آگہی کے لیے واک کا حکم دیا اور خاص طور پر یہ ہدایت دی کہ بینرز پر گٹکا مین پوری، زیڈ21 کھانے سے کینسرزدہ مریضوں کی تصاویر پرنٹ کی جائیں تاکہ چرس افیون ہیروئن کی جگہ پانے والے اس نشے سے نوجوان بچے بچیاں بچ سکیں۔ تاہم دیکھا یہ گیا کہ واک تو کی گئی، لیکن بینرز پر صرف منشیات کا لفظ تھا، جب کہ گٹکا مین پوری کے الفاظ اور کینسر زدہ مریضوں کی تصاویر غائب تھیں، اس سلسلے میں واقفان حال کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے ہوا کہ مبینہ طور پر محکمہ میں شامل کچھ کالی بھیڑیں اس مہم کا رخ گٹکا مین پوری کی جانب سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
ایک پولیس افسر نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ میں اب ہیروئن ،چرس اور افیون کی جگہ نشہ آور گٹکا مین پوری ،ماوہ اور آئس نے لے لی ہے اور منشیات کے اسمگلر اب اس کاروبار سے منسلک ہوگئے ۔ محکمہ پولیس کے بعض افسران اس سے صرف نظر کے عیوض بقول ایک سابق ایس ایس پی کے کروڑ پتی ہوگئے ہیں اور اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ پولیس گٹکے کی برآمدگی کے لیے کاروں پرچھاپہ مار کر چند درجن پڑیوں کی برآمدگی تو دکھاتی ،لیکن شہر میں ہول سیل کے حساب سے فروخت ہونے والا گٹکا جس میں پیپلز میڈیکل اسپتال، بلوچ پاڑہ سمیت دیگر ٹھکانے اس کو کیوں نظر نہیں آتے۔ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ڈی آئی جی عرفان بلوچ اور ایس ایس پی سعود امیر مگسی پر کہ وہ نوجوان نسل کو کینسرپیدا کرنے والے اس زہر سے کیسے بچاتے ہیں۔