کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق زیادہ تر ڈاکٹروں کا اصرار ہے کہ انہیں ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگائی جائے۔
گذشتہ ہفتے پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی اسلام آباد میں منعقدہ انٹرنیشنل کانفرنس کے دوران صدارتی لیکچر دیتے ہوئے جب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم نے ہال میں موجود لوگوں سے پوچھا کہ ان میں سے کتنے لوگوں نے مکمل ویکسینیشن کے بعد کورونا وائرس سے بچاؤ کی کوئی دوسری ویکسین بھی لگوائی ہے تو 80 فیصد سے زائد لوگوں نے اپنے ہاتھ کھڑے کردیے۔
پی ایس آئی ایم کی انٹرنیشنل کانفرنس میں زیادہ تر ڈاکٹر شریک تھے جن میں سے اکثریت نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے ایک سے زائد ویکسین لگوائی تھی لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر بوسٹر ڈوز یا ایک سے زائد ویکسین لگوانے پر کیوں اصرار کر رہے ہیں؟
بوسٹر ڈوز کا اصرار کرنے والے ڈاکٹروں اور کچھ پیرا میڈیکل اسٹاف کا کہنا ہے کہ انہیں فائزر یا موڈرنا کی ایم آر این اے ویکسین کا بوسٹر لگایا جائے تاکہ وہ کورونا وائرس کے ڈیٹا وئیرئینٹس سمیت دیگر اقسام سے محفوظ رہ سکیں۔
لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت پاکستان کو اپنے ڈاکٹروں کا یہ مطالبہ مان لینا چاہیے جبکہ عالمی ادارہ صحت بار بار کہہ رہا ہے کہ اس وقت کسی بھی ویکسین کے بوسٹر ڈوز لگانے کی ضرورت نہیں جبکہ دنیا کے تین ممالک بشمول جرمنی، فرانس اور اسرائیل نے اپنے شہریوں کو ڈیلٹا وائرس سے بچانے کے نام پر ویکسینز کے بوسٹر لگانے کا آغاز کردیا ہے۔
اس حوالے سے جب وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے ہیلتھ ڈاکٹر فیصل سلطان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مکمل طور پر ویکسینیشن کروانے والے افراد کو بوسٹر لگانے یا ایک سے زیادہ ویکسین لگوانے کا انفرادی طور پر تھوڑا بہت فائدہ ہو بھی سکتا ہے لیکن اس حوالے سے ابھی تک زیادہ معلومات میسر نہیں ہے۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں 80 فیصد لوگوں کو ویکسین لگنے تک پہلے سے ویکسینیٹڈ لوگوں کو بوسٹر ڈوز لگوانے کی ضرورت نہیں۔
اس وقت ویکسین کی ضرورت ان لوگوں کو ہے جنہیں ابھی تک ایک یا دونوں ڈوزز نہیں لگیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ بوسٹر ڈوز لگانے کا فیصلہ اس وقت کیا جاسکتا ہے جب زیادہ تر آبادی کو ویکسین لگ چکی ہو۔
دوسری جانب یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم، جو کہ اس وقت مختلف ویکسینز کے کلینکل ٹرائلز میں مصروف ہیں، کا کہنا تھا کہ ایک سے زیادہ ویکسین لگوانے کی افادیت کے حوالے سے کوئی سائنٹیفک ڈیٹا موجود نہیں، عالمی ادارہ صحت بار بار کہہ چکا ہے کہ دنیا کی زیادہ تر آبادی کو ویکسین لگنے تک رکن ممالک کو بوسٹر ڈوز لگوانے کے متعلق سوچنا بھی نہیں چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات صحیح ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ویکسین کی افادیت میں کمی آتی ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے یہ واضح نہیں کہ کیا جن لوگوں کو ویکسین لگ چکی ہے ان میں کورونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت میں واقعی کوئی کمی واقع ہوئی ہے یا نہیں اور کیا انہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد بھی لگوانا چاہیے یا نہیں۔
پروفیسر جاوید اکرم کا مزید کہنا تھا کہ وہ سنگل ڈوز کینسائنو ویکسین کا دوسرا ڈوز لگانے کے تجربات کرنے جا رہے ہیں کیونکہ وہ ایک سنگل ڈوز ویکسین ہے اور اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس ویکسین کو ڈبل ڈوز ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں کچھ لوگوں نے ماہرین کی رائے کے برخلاف ایک سے زیادہ ویکسین لگوا لی ہیں ہیں جو کہ مناسب نہیں۔
پاکستان کے ایک متعدی امراض کے ماہر اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال سے وابستہ پروفیسر فیصل محمود کا کہنا تھا کہایک سے زیادہ ویکسین لگوانا محفوظ تو ہو سکتا ہے لیکن ابھی تک اس کی افادیت کا علم نہیں۔
ڈاکٹرفیصل محمود کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹروں سمیت کسی بھی طبقے کو بوسٹر ڈوز نہیں لگنا چاہیے جب تک زیادہ تر عوام کو ویکسین نہ لگ جائے، اگر کسی طبقے کو اس وقت بوسٹر ڈوز کی ضرورت ہے بھی تو وہ بوڑھے افراد ہیں جن میں قوت مدافعت انتہائی کم ہوتی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں جب تک ملک کی زیادہ تر آبادی کو ویکسین نہ لگ جائے اس وقت کا ایک سے زیادہ وقت لگانے کی اجازت دینا انتہائی غیر مناسب ہوگا۔
کئی دیگر ماہرین بشمول آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید خان جو کہ ماہر امراض سینہ ہیں کا کہنا تھا کہ امریکی اور یورپی ویکسین بنانے والی کمپنیاں اپنی بنائی گئی ویکسین سے مزید ڈالر کمانے کے لئے اس طرح کے شوشے چھوڑ رہی ہیں، ڈاکٹروں کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو ویکسین لگی ہے جبکہ 85 فیصد عوام اس وقت ویکسین سے محروم ہیں اس لیے ایسے وقت میں اس طرح کی بات کرنا مناسب نہیں ہوگا۔