• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کمپیوٹر کمپنیاں یا ایسٹ انڈیا کمپنی؟

آئی ٹی کا دور ہے، اس شعبے میں ترقی بلاشبہ حد درجہ ضروری ہے مگر یہ کیا کہ ایک کمپیوٹر سائنس کا نیم پختہ ماہر امریکا میں جا کر کمپنی کھول لے اور اس کے نام پر اپنی شاخیں پاکستان میں پھیلا کر سستے اور غیر ماہر افراد کو کوڑیوں کے دام بھرتی کرکے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے پیسہ کھینچنے کا کاروبار گرم کرلے، جبکہ آئی ٹی وزارت اس کا نوٹس بھی نہ لے، ایک دو آئی ٹی لونڈے بٹھا کر ایچ آر کے ذریعے کم ترین تنخواہ پر راضی ہونے والے کسی کندۂ ناتراش کو ملازمت دے دی جاتی ہے اور اگر کسی ایک آدھ ماہر کو رکھ بھی لے تو شوشا دکھا کر اسے ایک دو ماہ میں فارغ کرکے سستے ملازم کو بھرتی کرلے، کیا یہ غیر قانونی اور سروسز رولز کی کھلی خلاف ورزی نہیں؟ حکومت کی آئی ٹی وزارت کیوں ان خود ساختہ کمپیوٹر کمپنیوں کو چیک نہیں کرتی ، کیا ان کےپاس کوئی لائسنس یا سرکاری اجازت نامہ ہوتا ہے؟اشتہار یہ دیا جاتا ہے کہ ایک امریکی عظیم الشان کمپنی کو تجربہ کار ماہرین کمپیوٹر درکار ہیں۔ امریکی حکومت بھی ایسی کمپنیاں چلانے والے پاکستانی شاطروں کی چھان بین کیوں نہیں کرتی، یہ کالا دھندہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے۔ ایف آئی اے ان کمپنیوں کے پوش ایریاز میں قائم دفاتر پر چھاپہ مارے اور تجربہ کار ماہرین کا حق مارنے والی کمپنیوں سے پوچھ گچھ کرے ،یہ کمپنیاں جب چاہتی ہیں کسی بھی ملازم کو نکال باہر کرکے کوئی سستا ترین ملازم بھرتی کرلیتی ہیں اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کرتیں۔ پی ٹی آئی کی ٹائیگر فورس کس چڑیاگھر میں رہتی ہے کہ وہ نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی خبر تک نہیں لیتی، تبدیلی و ترقی کی خبروں کا طومار ہے، مگر اس کے عملی آثار دکھائی نہیں دیتے، آپس میں دست و گریبان اپوزیشن کہاں ہے ذرا آواز تو دے، کیا اس کے ذاتی سیاست کے مسائل ہی عوامی مسائل ہیں، جس ملک میں ایک بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ شادی کی تقریب میں محفوظ نہ ہو، وہاں ہم گڈگورننس کے دعویدار سے کیا توقع رکھیں کہ کمپیوٹر کمپنیاں چلانے والے نوسربازوں سے ہنر مند کمپیوٹر ماہر نوجوانوں کے مفاد کو تحفظ دینے کے لئے وہ ان لٹیری کمپنیوں کےخلاف کارروائی کریں گے۔

٭٭٭٭

لاہور چڑیا گھر

کیا لاہور میں کوئی چڑیا گھر ہے یا لاہور ہی چڑیا گھر ہے؟ چڑیاگھر جو کبھی بہترین تفریخ گاہ تھا اب بہترین کمائی کا ذریعہ ہے، گیٹ سے لے کر ٹکٹ سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اندر تک پھیلا ہوا ہے۔ شیر کا پنجرہ خالی پڑا ہےالبتہ اس کے حصے کا گوشت آتا اور گیدڑ کھاتے ہیں، وہ جو ایک شریر بھالو اور بندر ہوا کرتا تھا وہ بھی کہتے ہیں چڑیا گھر کا وہ حال دیکھا کہ شرارت چھوڑ دی ہم نے، بلاشبہ کہ لاہور جو ایک شہر تھا لاکھوں میں انتخاب اب سراپا چڑیا گھر ہے۔ بہرحال یہ تو جملۂ معترضہ تھا، لاہور کا چڑیا گھر اب وہ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا، محض کمائی کا ایک وسیلہ ہے سرکار کےلئے، چڑیا گھر عوام سے جتنے پیسے بٹور رہا ہے وہ اس میں کہیں خرچ ہوتے نظر نہیں آتے، حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ چڑیا گھر پر ہی توجہ دے دے کہ جس نے چڑیا گھر نہیں دیکھا او جمیا ای نئیں، عملے کے لوگ جو جانوروں کو جنگلے تک لاتے تاکہ ناظرین ان کا دیدار عام کریں اب وہ عملہ بھی نظر نہیں آتا، جانوروں کی مرضی ہے رونمائی کریں نہ کریں اور جس چڑیا گھر میں شیر نہ ہو وہاں تو چڑیا بھی پر نہیں مارے گی، اگر انتظامیہ چاہے تو اس چڑیا گھر کو مزیدبہتر اور دلچسپ بنایا جاسکتا ہے اور یہ کہ حکومت پنجاب اسے کمائی کا ذریعہ نہ بنائے ٹکٹوں میں اندر باہر کمی لائی جائے، مین گیٹ، کار پارکنگ کےٹکٹ کے علاوہ یہ جو چڑیا گھر کے اندر بھی ٹکٹ سلسلہ ہے بند کیا جائے، حکومت پنجاب اپنی جیب سے چڑیا گھر پر خرچ کرے، عوام کا گوشت نوچ کر جانوروں کو نہ کھلایا جائے، چڑیا گھر کو دلکش، دلچسپ بنانے کی بڑی گنجائش ہے، تفریح گاہوں کو کمائی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، پارکنگ ٹکٹ ختم کی جائے، چڑیا گھر ٹھیکہ داروں کے حوالے نہ کیا جائے۔

٭٭٭٭

زنانہ تھپڑ مردانہ رخسار

فردوس عاشق اعوان نے قادر مند وخیل کو تھپڑ جڑ دیا، درخواست سماعت کے لئے منظور۔ تفصیل اس حنائی تھپڑ کی تو معلوم نہ ہو سکی لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ محترمہ کے تھپڑ بالآخر خواتین کو حقوق دلوا دیں گے، البتہ پی پی کے ایم این اے قادر مندو خیل کے رخسار پر فردوس عاشق اعوان کا تھپڑپُرتشدد ہے، اس لحاظ سے بھی قادر مندو خیل ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر سکتے ہیں، ظاہر ہے یہ تھپڑ بلاوجہ تو رسید نہیں کیا ہوگا ضرور یہ حقوقِ نسواں کے تحفظ میں مارا گیا ہوگا۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت چلا گیا ہے اس لئے اس پر مزید تبصرہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ کیا جزا، سزا ہونی چاہئے لیکن محترمہ میں مردانہ صفات کبھی کبھی اپنا زور دکھا جاتی ہیں۔ اب مندو خیل قبیلے کی عزت زیر خنجر خونخوار ہے تو ہم اتنا ضرور کہیں گے کہ یہ فردوس عاشق تھپڑ سیریز بھی بند کی جائے اور نہیں تو اس پر ٹیکس ہی لگا دیا جائے کہ مرد کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو اسے سرعام تھپڑ رسید نہ کیا جائے، ویسے بھی یہ قانون ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے، اگر محترمہ شاعرہ ہوتیں تو فردوسی تھپڑ کے نام سے شہرت دوام حاصل کرتیں، بہرحال ان کا احترام ان کےاپنے ہاتھ ہے، وہ ڈاکٹر بھی ہیں دوائیاں کھا کر نکلا کریں، اور قادر مندو خیل بھی اپنی ادائوں پر ذرا غور کریں کہ آخر کیوں انہیں تھپڑ کھانا پڑ گیا اور بات پہنچی پوری قوم تک، وزرا کرام بھی مائل بہ کرم بنیں کیونکہ وہ حکومتی کرسی پر ہیں،نیزہ بازی کے گھوڑے پر نہیں بیٹھے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین