• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’صادق آباد‘ پاکستان کا واحد شہر جس کی ہر سال بہت دُھوم دھام سے سالگرہ منائی جاتی ہے

کوثر عمران، صادق آباد

ارضِ پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے جہاں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، وہیں یہ نہ صرف جغرافیائی طور پر خاص اہمیت کا حامل ہے، بلکہ سال بھر کے تمام موسموں سردی، گرمی، خزاں اور بہار کے رنگوں کے ساتھ معدنیات کے ذخائر، پھلوں، اجناس کے انبار، کھلے میدانوں، بلند و بالا کوہسار، صحرا، سمندر، دریا سمیت قدیم تہذیبوں، مختلف النّوع ثقافتی رنگ غرض یہ کہ ہر نعمت سے مالا مال ہے۔ اور پھر اس کا اِک اِک شہر، قریہ قریہ، گائوں گاؤں بھی جداگانہ اہمیت و انفرادیت کا حامل ہے۔ جب کہ کچھ علاقے تو بالکل ہی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں، جیسے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے سنگم پر واقع صوبہ پنجاب کی تحصیل صادق آباد۔ 

صادق آباد کی اپنی ہی ایک انفرادیت ہے۔اس کا شمار پاکستان کے خُوب صُورت شہروں میں ہوتا ہے، پنجاب کا یہ آخری شہر، صوبہ پنجاب اور سندھ کے سنگم پر دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ یہ ایک ایسی تحصیل ہے، جہاں بہ یک وقت دو ثقافتیں یعنی سندھی اور سرائیکی ایک ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔ اگرچہ یہاں دیگر بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں، مگر زیادہ تعداد پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں کی ہے۔ صادق آباد کے مغرب میں گھوٹکی اور شمال کی طرف راجن پور، جب کہ مشرق میں ضلع رحیم یار خان اور جنوب میں بھارت کا سرحدی علاقہ ہے۔

صادق آباد شہر کا سنگِ بنیاد بہاول پور کے نواب، محمد صادق خمس والی نے 18؍نومبر 1935ء کو صادق پارک میں رکھا۔ بعد ازاں، یہ شہر انہیں کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ انہوں نے یہ شہر آباد کرنے کے لیے جہاں مالی مدد کی، وہیں قیامِ پاکستان کے وقت بے پناہ مخالفت کے باوجود صادق آباد سمیت پوری بہاول پور ریاست کا الحاق بھارت کی بجائے پاکستان سے کیا۔آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا 32واں بڑا شہر ہے۔ 2017ء کے سروے کے مطابق شہر کی کُل آبادی تقریباً 239,677 ہے۔ شہر کے وسط میں واقع عسکری پارک دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس خوب صورت تفریحی پارک میں اکثر اوقات عوامی تقاریب کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ 

شہر کے ریلوے اسٹیشن کی تین منزلہ منفرد عمارت بھی اس کی وجہ شہرت ہے۔ یہاں کی مٹھائی کے حوالے سے ایک بات مشہور ہے کہ جو یہاں کی مٹھائی ایک بار کھالیتا ہے، پھر کسی اور جگہ کی مٹھائی کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والی نہر پورے شہر اور دیہاتی علاقوں کو سیراب کرتی ہے، جب کہ نہر کے کنارے ایک وسیع مچھلی منڈی ہے، جس کا شمار جنوبی پنجاب کی بڑی مچھلی منڈیوں میں ہوتا ہے۔ 

شہر میں تقریباً آٹھ قلعہ جات اور متعدّد تاریخی مقامات ہیں، جن میں کچھ مذہبی مقامات بھی ہیں، جب کہ مزارات کی بھی ایک کثیر تعداد یہاں موجود ہے۔ نیز، یہاں مدفون تہذیبوں کے بھی کافی آثار موجود ہیں، جن پر تحقیق کی ضرورت ہے، جب کہ ان میں سے کچھ مقامات پر تحقیقی کام کتابی شکل میں موجود ہے۔

مشہور رومانی داستان کے کردار، سسّی کی جائے پیدائش بھٹہ واہن اور عالمی شہرت یافتہ مسجد ’’بھونگ شریف‘‘ کی نسبت سے شہرت رکھنے والا صادق آباد اس وقت ترقی کی شاہ راہ پر گام زن ہے۔ یہاں مُلکی زرعی ضروریات کی تکمیل کے لیے کھاد بنانے کے دو بڑے کارخانے موجود ہیں، جب کہ 3شوگر ملز، متعدّد کاٹن جننگ فیکٹریز، آئل فیکٹریز اور کئی چھوٹے صنعتی ادارے روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مُلکی معیشت کو تقویت دے رہے ہیں۔ ’’بھونگ مسجد‘‘ کا ذکر کریں، تو یہ فنِ تعمیر کا ایک دل کش نمونہ ہے، جسے سیّاح دُور دُور سے دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں موجود مختلف بازاروں میں سرفہرست قذافی بازار، ریلوے بازار اوردیگر شاپنگ سینٹرز ہیں۔ 

پھر شہر میں علم کی روشنی پھیلانے کے لیے متعدد نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں، تو کئی سرکاری تعلیمی ادارے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔صادق آباد کے زیادہ تر لوگ زراعت اورمختلف کارباروں سے منسلک ہیں۔ یہ پاکستان کا پہلا اور دنیا کا تیسرا شہر ہے، جس کی ہر سال 18نومبر کو نہایت جوش و خروش سے باقاعدہ سال گرہ منائی جاتی ہے۔ اس موقعے پر تعلیمی اداروں اور دیگر مقامات پر کیک کاٹنے کے علاوہ عوامی تقاریب بھی منعقد کی جاتی ہیں۔

سال گرہ منانے کے حوالے سے مشہور ہے کہ صادق آباد کے رہائشی دو بھائیوں محمد افضل شاہد کنگ اور محمد اکمل شاہد کنگ نے اپنے شہر سے محبت کے اظہار کا یہ انوکھا طریقہ اختیار کیا، جس کے بعد سے باقاعدہ سال گرہ منانے کا آغاز ہوا۔ اس روز صادق آباد کے شہری مقامی قدیم ملبوسات پہنتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے گھر مٹھائیاں بھیجتے ہیں اور قدیم روایتی رقص جھومر کا، جو کہ چولستانی کلچر کا خاصّہ ہے، اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز شہر اور مُلک کی ترقی و استحکام کی دعاؤں سے ہوتا ہے اور پھر دن بھر باہمی محبت و یگانگت کے مظاہرے دیدنی ہوتے ہیں کہ جب تمام آبادی سیاسی، لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر محض اپنے شہر کی ترقی و خوش حالی کے لیے یک جا ہوجاتی ہے۔ 

شہریوں کی طرف سے شہر کی بہتری کے لیے عزم کا اظہار کیا جاتا ہے اور با قاعدہ ایک دستخطی مہم شروع کی جاتی ہے، جس میں ہزاروں کی تعد اد میں شہری اپنے دستخط اس عزم کی عبارت کے نیچے ثبت کر تے ہیں۔ یہ ایک انوکھی تقریب ہوتی ہے جس میں ہر شہری اپنی اپنی ذمّے داری کا تعین کرتا ہے۔ بعدازاں، سال گرہ کا کیک کاٹا جاتا ہے اور اجتماعی دعا کروائی جاتی ہے۔اس دن کی ایک اہم بات یہ ہے کہ کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کی فروخت پر پچاس فی صد تک رعایت کردیتے ہیں، واضح رہے کہ یہ عمل پورے ملک میں کسی تہوار پر نہیں کیا جاتا۔ رعایتی قیمتوں کی باقاعدہ تشہیر کی جاتی ہے اور بڑے بڑے بل بورڈ ز اور ہولڈنگ آویزاں کیے جاتے ہیں۔

تازہ ترین