چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے وکیل علی ظفر نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر بننے پر یوسف رضا گیلانی نے صادق سنجرانی کوچیئرمین سینیٹ قبول کرلیا، یوسف رضا گیلانی سمجھتے ہیں ان کے پاس اکثریت ہے تو تحریک عدم اعتماد لے آئیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین سینیٹ الیکشن کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت ہوئی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیر نے اپیل کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے، انہوں نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کا موقف ہے کہ ان کے ووٹ زیادہ تھے جو مسترد ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل61 کے تحت سینیٹ ممبران تحریک عدم اعتماد سے چیئرمین کو ہٹاسکتے ہیں، یوسف گیلانی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اکثریت ہے تو عدم اعتماد لے آئیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے اِسی چیئرمین سینیٹ سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ قبول کرلیا اور عہدہ قبول کرنے کے بعد صادق سنجرانی کو چیئرمین قبول کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق سینٹ اپنا ہاؤس آف بزنس چلانے کے لیے پروسیجر بناسکتی ہے، پارلیمنٹ کا تمام بزنس پارلیمان کی اندرونی کارروائی ہے۔
صادق سنجرانی کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین سینیٹ الیکشن سینیٹ کی اندرونی کارروائی ہے، ہاؤس آف کامنز کا الیکشن پارلیمان کی اندرونی کارروائی ہوتی ہے۔
علی ظفر نے دوران دلائل آصف علی زرداری کیس سے متعلق بھی بات کی اور کہا کہ اس کیس سے اُس معاملے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری جیل میں تھے اور ان کو بطور ایم این اے حلف لینےکی اجازت نہیں دی گئی، اسپیکر نے کہا کہ آصف زرداری حلف اٹھانے تک پارلیمنٹ کے ممبر نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر نے کہا کہ آصف زرداری جب تک پارلیمنٹ ممبر نہیں بنتے، پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ نے اپنے اختیارات کے تحت آصف زرداری کو پارلیمنٹ جاکر حلف لینےکا حکم دیا تھا۔
چیئرمین سینٹ کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے پر مزید سماعت 31 اگست تک کے لیے ملتوی کردی گئی اور فریقین کو جواب الجواب دینے کی ہدایت دے دی۔