• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں بڑی تیزی سے صورتحال بدلتی جا رہی ہے پے درپے کامیابیوں سے طالبان کے حوصلے مزید بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ افغان فوج طالبان کا مقابلہ کرنے میں بے بس ہو چکی ہے اور افغان فوجی حوصلہ ہار بیٹھے ہیں۔ طالبان کے حملوں کے دوران افغان فوجی ہتھیار پھینک کر طالبان سے وفاداری کا اعلان کر رہے ہیں طالبان افغانستان کے 34اضلاع میں سے31اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں جبکہ دو صوبوں میں صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول بھی سنبھال لیا گیا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے پے درپے کامیابیوں سے تحریک طالبان پاکستان بھی مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔

افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال کی وجہ سے ایک بار پھر لاکھوں افغانیوں کےپاکستان آنے کے امکان بڑھتے جا رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان داخل ہونے والوں میں دہشت گرد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی بری اقتصادی معاشی و سیاسی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے لئے دہشت گردی س نمٹنا ناممکن ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لاکھوں لوگ جانوں کی قربانی دے چکے ہیں جن میں سیکورٹی فورسز پولیس اور سیاستدانوں کے علاوہ وزرا اور ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں۔ 

اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان پر بھی خود کش حملہ ہوا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے جبکہ کئی افراد شہیدو زخمی ہوئے اے این پی کے بزرگ سیاستدان و سابق وفاقی وزیر الحاج غلام احمد بلور پر بھی کئی بار حملے ہوئے لیکن وہ محفوظ رہے جبکہ حملوں میں الحاج غلام احمد بلور کے اکلوتے صاحبزادے شبیر احمد بلور ان کے بھائی و صوبائی سینئر وزیر بشیر احمد بلور اور بھتیجے بیرسٹر ہارون بلور شہید ہوئے تاہم خاندان کے تین سپوتوں کی شہادت کے باوجود الحاج غلام احمد بلور بڑی بہادری سے عوام کا ساتھ دیتے رہے جس پر بلور خاندان کو شہیدوں کے خاندان اور الحاج غلام احمد بلور کو بہادر سیاتدان کا خطاب دیا گیا۔ 

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر بھی حملہ ہوا تاہم وہ محفوظ رہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام پر سات حملے ہوئے جبکہ ان پر ہونے والے خود کش حملہ میں ان کے چچا زادبھائی و سابق صوبائی وزیر پیر محمد خان شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ صفوت غیور اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس ملک سعد خان سمیت پولیس کے ایک درجن سے زائد اعلیٰ افسرو سیکڑوں جوان شہید اور ہزاروں جوان زخمی ہوئے۔

افغانستان میں خانہ جنگی کے سلسلے میں پاکستان مزدور کسان پارٹی کے سربراہ افضل شاہ خاموش اور صوبائی صدر شکیل وحید اللہ خان کی طرف سے پختون قومی امن جرگہ کا اہتمام کیا گیا جس میں قومی وطن پارٹی کے قائد آفتاب احمد خان شیرپائو صوبائی چیئرمین و سابق صوبائی سینئر وزیر سکندر حیات خان شیرپائو۔ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین پختون تحفظ مومنٹ کے سربراہ منظور پشتین قومی اسمبلی کے ممبر محسن داوڑ، نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر مختا باچا، پروفیسر ڈاکٹر سرفراز پختون اولسی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سید عالم خان محسود عوامی ورکرز پارٹی کے صوبائی صدر انجینئر حیدر زمان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر مختیار خان یوسفزئی کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندوں رہنمائوں اور کئی قوم پرست و ترقی پسند سیاسی رہنمائوں نے شرکت کی۔ 

افغانستان میں امن اور پختونوں کے تحفظ کے لئے پختونوں کے قومی امن جرگوں کا تسلسل جاری رہنا چاہئے۔ حکمرانوں کی طرف سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا دعویٰٰ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ جار ی ہے پختونوں کو متحد ہو کر قبائلی علاقوں میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور قبائل سے ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ 

قومی امن جرگہ کے اختتام پر پاکستان مزدور کسان پارٹی کے سربراہ افضل شاہ خاموش کی طرف سے مشتر کہ اعلامیہ جاری کیا گیا اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغانستان میں امن ، استحکام اور افغانستان کی خود مختاری کا احترام کیا جائے۔ افغانستان میں امن اور جمہوریت کی سیاسی و اخلاقی حمایت اور افغانستان میں دوسروں کے علاوہ پڑوسی ممالک کی مداخلت کی مشترکہ مذمت کی جاتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو افغانستان کے امن کے حوالے سے ایک پیچ پر لانے اور مشترکہ لائحہ عمل کا حصہ بنانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے گی اور غیر سیاسی و غیر پارلیمانی اداروں کے اثر رسوخ اور کردار کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پشتونخوا سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں نئے غیر اعلانیہ مہاجر کیمپوں کے قیام کی مخالفت کی جائے گی۔ضلعی سطح پر تمام سیاسی پارٹیوں کی طرف سے مشترکہ امن ریلیوں کا اہتمام کیا جائے گا۔افغانستان کے موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے، جس نے امن کی ضمانت دیئے بغیر انخلا کا فیصلہ کیا جس کے نتیجہ میں موجودہ بدامنی پیدا ہوئی ہے۔ پشتون سرزمین پر دہشتگردوں کا دوبارہ منظم ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ 

بے گھر افراد کی آبادکاری اور بحالی کا مطالبہ کیا گیا جبری لاپتہ ہونے کےواقعات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ لینڈ مائنز اور بارودی سرنگوں سے تحفظ، نئے اضلاع میں انتظامی ، قانونی اور سیاسی اصلاحات اور ترقی کا مطالبہ کیا گیا۔ ایکشن اینڈ سول پاور ایکٹ کی مخالفت کی گئی، بلاک شناختی کارڈ بحال کر نے کا مطالبہ کیا گیا اور افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 

اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کا تحفظ کیا جائے گا،خیبر پختونخوا میں ازسرنو مردم شماری کا مطالبہ کیا گیا، صوبوں کو ان کے وسائل حوالہ کرنے بجلی کے منافع کی ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا اور ہسپتالوں کی نج کاری کی مخالفت کی گئی۔جرگہ میں علی وزیر کو حبس بے جامیں رکھنے کے خلاف ایک مشترکہ قرارداد بھی منظور کی گئی جس میںجنرل باجوہ کا علی وزیر کے حوالہ سے غیر آئینی بیان کو بنیاد بنا کر عدالتی نظام پر تشویش اور عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

تازہ ترین
تازہ ترین