فلم ایک طاقت ور میڈیم ہے، دُنیا بھر میں اس سے فائدے حاصل کیے جاتے ہیں،لیکن ہمارے یہاں اس جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ پاکستان فلم انڈسٹری اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھتی رہی، ماضی کی حکومتوں نے چند وعدوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکسان کے قیام سے اب تک سرکاری سطح پر قابلِ ذکر اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ74 برسوں سے فلمی صنعت مختلف عروج و زوال اور مسائل کا شکار رہی۔
اس کے باوجودجب بھی پاکستان پر کڑا وقت آیا، فلم سازوں نے قوم کو بیدار کرنے کے لیے شان دار فلمیں پروڈیوس کیں۔ ان فلموں میں عمدہ ملی نغمے شامل کیے گئے۔ موجودہ حکومت ،فلمی صنعت کے مسائل کے حل کے لیے سوچ رہی ہے، اس سلسلے میں نیشنل ایوارڈز کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جارہا ہے۔ہنر مندوں اور فن کاروں کو موجودہ حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔اب دیکھنا یہ کہ حکومت صرف وعدوں تک محدود رہتی ہے یا کچھ عملی اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
آج ہم آپ کو فلمی صنعت کی کہانی سناتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد دیگر صنعتوں کے ساتھ فلمی صنعت کا وجود بھی عمل میں آیا۔ لاہور کے تباہ شدہ چند نگار خانوں میں فلمی ہنرمندوں نے ایک جذبے کے ساتھ فلم سازی کا آغاز کیا۔ فلم ساز و ہدایت کار دیوان سرداری لال نے فلم ’’تیری یاد‘‘ کا آغاز کیا۔اس وقت ہدایت کار لقمان کی فلم ’’شاہدہ‘‘ بھی بن رہی تھی، جو فلم ’’تیری یاد‘‘ سے پہلے شروع ہوچکی تھی، مگر ریلیز ’’تیری یاد‘‘ کے بعد ہوئی۔ یہ وہ دور تھا، جب ہندوستانی فلمیں اس نئے وطن میں بڑے شوق سے سنیما ہائوسز میں دیکھی جارہی تھیں۔ لاہور، کراچی اور پاکستان کے دیگر سنیما ہائوسز میں بھارتی فلمیں بہت سپرہٹ جارہی تھیں۔
بھارتی فلموں کے جال سے عوام کو نکالنے کے لیے دیوان سرداری لال، لقمان، شیخ محمد حسین، جے سی آنند، آغا جی اے گل، نذیر، مسعود پرویز، انور کمال پاشا، منشی دل، رضا میر، جعفر شاہ بخاری، اے حمید (بھاٹیا فوٹوگرافر) نے انتہائی نامساعد حالات میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھی اور اس کے سفر کا آغاز کیا، جو پاکستان کی ہم سفر بن کر ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ پھر وہ دن بھی آگئے، جب ’’ہچکولے‘‘ ’’پھیرے‘‘ (پنجابی)، ’’دو آنسو‘‘ ’’بے قرار‘‘ ’’چن وے‘‘ (پنجابی)، ’’دوپٹہ‘‘ ’’غلام‘‘ ’’گلنار‘‘ جیسی معیاری پاکستانی فلموں نے بھارتی فلموں کے مقابل باکس آفس پر جم کر مقابلہ کیا۔
بھارتی فلم ساز اور ڈسٹری بیوٹرز نے جب پاکستانی فلموں کی کام یابی دیکھی تو کئی ہنرمندوں اور فن کاروں کی بھارت میں آنے کی دعوت دی، جسے مُحب وطن فن کاروں اور تکنیک کاروں نے سینہ تان کر ٹھکرا دی اور پھر وہ دور بھی آیا، جب انور کمال پاشا کی فلموں کے مقابلے میں بھارتی فلم ساز اپنی فلمیں ریلز کرتے ہوئے ڈرنے لگے۔ فلم ’’انتقام‘‘ ’’قاتل‘‘ ’’سرفروش‘‘ نے خُوب دُھوم مچائی۔ کئی فن کار جو بھارت میں شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں آگئے اور فلمی صنعت کے لیے خدمات انجام دینے لگے۔ ایسے مُحب وطن فن کاروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے، جن میں چند نامور لوگوں میں نورجہاں، شوکت حسین رضوی، علاوالدین، نذر، سورن لتا، شمیم، گلشن آرا، یاسمین اور زینت کے نام شامل تھے۔
ابتدائی دور ہی سے فلم سازوں نے مختلف موضوعات پر کہانیاں لکھواکر کام کا آغاز کردیا۔ رومانی، نغماتی، فارمولا اور عام موضوعات کے علاوہ سماجی، تاریخی، انقلابی، موضوعات پر بھی فلمیں بنائی گئیں۔ پاکستان کی تاریخ اور حصول کے پس منظر پر بننے والی سب سے پہلی فلم کا آغاز 5؍مئی 1949ء کو ہدایت کار این۔ای اختر نے کرتے ہوئے ایک فلم ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے بنانے کا اعلان کیا، اس کی ابتدائی شوٹنگ بھی ہوگئی تھی، مگر بعد میں یہ فلم آگے نہ بڑھ سکی۔
حکومت نے عوام الناس کو تحریک آزادی سے آگہی کے لیے کچھ شارٹ فلمیں بنائیں، جس کا دورانیہ 20؍سے 25؍منٹ ہوا کرتا تھا اور یہ سنیما ہائوسز میں اصل فلم شروع ہونے سے پہلے چلائی جاتی تھیں۔ان دستاویزی فلموں میں قائداعظم کی شخصیت اور تحریک آزادی کے دیگر قومی لیڈروں کی زندگی کی عکاسی کی گئی۔ اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان ایک ہی تھا۔ اردو اور بنگلہ زبانوں میں اس طرح کی معلوماتی فلمیں عوام کو دکھائی جاتی رہیں، یہ سلسلہ ایک عرصے تک جاری رہا، جن سے عوام کو سیرحاصل معلومات ہوتی تھیں۔ان ڈاکیومنٹری فلموں کے علاوہ ایک تصویری خبرنامہ بھی فلموں سے قبل دکھایا جاتا تھا، جس میں پسِ پردہ اداکار آزاد کی آواز ہوا کرتی تھی۔
لاہور، جسے متحدہ ہندوستان میں تیسرا بڑا فلمی مرکز مانا جاتا تھا، پاکستان کے سب سے بڑے فلمی مرکز کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا۔ صبیحہ خانم، مسرت نذیر، نورجہاں، سدھیر، سنتوش کمار، درپن، علاو الدین، نذر، اجمل، اکمل اور دیگر نے اداکاری کے میدان میں عوام الناس کو اپنا گرویدہ بنا کر فلمی صنعت کو سرحدوں سے پار تک شہرت دی، تو ماسٹر عنایت حسین، جی۔اے چشتی، رشید عطرے، فیروز نظامی، خواجہ خورشید انور، حسن لطیف، طفیل فاروقی نے ایسی دھنیں تخلیق کیں کہ بھارتی موسیقار بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس کے بعد اور بے شمار موسیقار آئے، جنہوں نے پاکستانی موسیقی کو دُنیا بھر میں ایک ایسا مقام دلایا، جو آج بھی قائم ہے۔
لاہور کے ساتھ ساتھ 1955ء میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی فلم سازی کا آغاز ہوا، یہاں پر ایسٹرن فلم اسٹوڈیو قائم ہوا، جہاں پہلی فلم اردو زبان کے حوالے سے ’’ہماری زبان‘‘ کے نام سے بنائی گئی۔ قومی زبان کے ساتھ ساتھ اس فلم میں قائداعظم کی تعلیمات اور اقوال زریں کو نہایت موثر انداز میں پہلی بارموضوع بنایا گیا تھا۔ کراچی میں باقاعدگی سے فلمی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی لاہور کے کئی فلم ٹیکنیشن اور فن کار بھی یہاں آگئے۔
کراچی کی خُوب صورت لوکیشن خاص طور پر ساحل سمندر پر لاہور کے فلمی یونٹ آکر بیرونی فلم بندی کرنے لگے۔ 1954ء میں پاکستان میں بننے والی تاریخی رومانی کہانی ’’سسی پنوں‘‘ پر بننے والی جے سی آنند کی فلم ’’سسی‘‘ نے کراچی کے ایروز سنیما پر شان دار سلور جولی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پہلی اردو سلور جوبلی فلم تھی، یہی وہ فلم تھی، جس نے اوورسیز میں پاکستانی فلموں کو متعارف کروایا، اس طرح پاکستانی فلموں کو بیرونی مارکیٹ بھی مل گئی اور ان کی نمائش وہاں ہونے لگی۔ فلموں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ سنیما گھروں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ 1955ء میں پاکستانی فلموں نے باکس آفس پر کام یابی اور بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ نذیر اور سورن لتا کی گھریلو فلم ’’نوکر‘‘ نے کراچی کے ایروز سنیما میں 50؍ہفتے کا ریکارڈ بزنس کرکے پہلی گولڈن جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا جب کہ ’’قاتل‘‘ ’’سوہنی‘‘ ’’پتن‘‘ ’’طوفان‘‘ ’’پاٹے خان‘‘ اور ’’انتخاب‘‘ بھی کام یاب رہیں۔
سندھ کے شہر گمبٹ میں فقیر صلاح الدین نے اپنا ایک ذاتی فلم اسٹوڈیو بنایا، جس میں پنجابی فلم ’’جبرو‘‘ کی شوٹنگ ہوئی، اس فلم سے اداکار اکمل نے شہرت حاصل کی۔ ’’جبرو‘‘ سے پنجابی ایکشن فلموں کا آغاز ہوا۔ یہ فلم 1956ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس سال ایورنیو پکچرز کی سپرہٹ پنجابی فلم ’’دُلا بھٹی‘‘ ریلیز ہوئی، جس کی آمدنی سے موجودہ ایورنیو اسٹوڈیو کی تعمیر ہوئی تھی۔ پہلی سندھی فلم ’’عمر ماروی‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔ ’’حمیدہ‘‘ ’’لخت جگر‘‘ سے فلمی صنعت کو دو نئے ہیرو اعجاز اور حبیب ملے۔ موسیقار خواجہ خورشید انور کی دل نواز اور دل کش موسیقی سے آراستہ پہلی فلم ’’انتظار‘‘ کے تمام نغمات نے کراچی سے لے کر راس کماری تک شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ پاکستانی سنیما میں کلاسیکل شہرت کی حامل اداکارہ شمیم آراء کی پہلی فلم ’’کنواری بیوہ‘‘ بھی اس سال ریلیز ہوئی تھی۔
صبیحہ اور مسرت نذیر کے بعد پاکستان کی تیسری سپر اسٹار قرار پائی ۔پاکستان کی سینئر اداکارہ بہار بیگم نے اس سال پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ سے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ پہلی اردو ایکشن فلم ’’باغی‘‘ نے اس سال باکس آفس پر بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اداکار سدھیر کو لوگ اس فلم کے حوالے سے ’’جنگجو ہیرو‘‘ کے نام سے یاد کرنے لگے۔ پاکستان کے علاوہ چین میں جب یہ فلم ریلیز ہوئی، تو چینی عوام نے اسے بے حد پسند کی۔ چین میں نمائش ہونے والی یہ پہلی پاکستانی فلم قرار پائی۔ فلموں کی کارکردگی پر پہلی بار صدارتی ایوارڈ کا آغاز اسی سال ہوا۔
بہترین فلم اور فن کاروں کو یہ ایوارڈ دیے گئے۔ کچھ سال یہ سلسلہ جاری رہا، اس کے بعد رُک گیا۔ 1957ء میں پہلا غیر سرکاری ایوارڈ ’’ویکلی نگار‘‘ کے بانی الیاس رشیدی نے نگار ایوارڈ کے نام سے جاری کیے۔ فلم ساز سیف الدین سیف کی فلم ’’سات لاکھ‘‘ کو پہلی نگار ایوارڈ یافتہ فلم ہونے کا اعزاز ملا، جب کہ بہترین ہدایت کار ڈبلیوزیڈ احمد فلم ’’وعدہ‘‘ کہانی نویس سیف الدین سیف، بہترین اداکارہ صبیحہ خانم (فلم ’’سات لاکھ‘‘)، بہترین اداکار سنتوش کمار (فلم ’’وعدہ‘‘)، بہترین معاون اداکارہ نیر سلطانہ (فلم سات لاکھ)، بہترین معاون اداکار علاو الدین (فلم آنسو)، بہترین موسیقار رشید عطرے (فلم سات لاکھ)، بہترین عکاس سہیل ہاشمی (فلم بڑا آدمی) کے لیے اس ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔
اس ایوارڈ نے فلمی صنعت میں مقابلہ بازی کو فروغ دیا۔ بہرحال فن کاروں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ یہ ایوارڈ حاصل کریں، ایوارڈز کا یہ سلسلہ طویل عرصے تک پابندی سے جاری رہا۔ فلمی صنعت کے عروج میں یہ ایوارڈ پابندی سے دیے جاتے رہے، پھر جب فلمی صنعت زوال پذیر ہوئی، تو اس ایوارڈ کا اجراء بھی بند ہوگیا۔ آخری بار 2003ء میں یہ ایوارڈز منعقد ہوئے تھے۔
1957ء میں حُب الوطنی کے موضوع پر بچوں میں آگہی پیدا کرنے کے لیے فلم ’’بیداری‘‘ بنائی گئی، بھارت میں یہ فلم ’’جاگرتی‘‘ کے نام سے بنی تھی، جس میں رتن کمار نے لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔ جب رتن کمار بھارت سے پاکستان ہجرت کرکے آئے، تو ان کے والد انر بھائی نے اپنا پروڈکشن ادارہ قائم کیا، فلم ’’بیداری‘‘ میں رتن کمار بہ طور چائلڈ اسٹار جلوہ گر ہوئے۔ فلم میں انہوں نے ڈبل رول میں نہایت عمدہ اداکاری کی۔ اس فلم میں تعلیم کو موضوع بنایا گیا، جس میں قائداعظم کی شخصیت اور اقوال کے ذریعے بچوں میں یہ شعور بیدار کیا گیا کہ تعلیم سے روشنی ہوگی ، ایک روشن پاکستان اور معاشرہ تعلیم ہی کے ذریعے قائم ہوگا۔ فلم کے نغمات میں بھی قائداعظم اور پاکستان کو موضوع بنایا گیا۔
فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے نغمات، موسیقار فتح علی خان نے موسیقی کے قالب میں ڈھال کر ایسے ملی نغمات مرتب کیے، جو ہمارے قومی تہواروں پر آج بھی پُوری روح اور جذبات کے ساتھ سُنے جاتے ہیں۔ ان نغمات میں ’’ یُوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیراں اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان‘‘ ’’آئو بچوں سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘‘ ’’ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر، اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر‘‘، آج بھی بہت مقبول ہیں۔ فلم کے ہدایت کار رفیق رضوی المعروف باپو تھے۔
یہ فلم ہماری ملی اور قومی یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے 1982ء میں دوبارہ ’’سہارے‘‘ کے نام سے فلمایا گیا، جو فلم ’’بیداری‘‘ کا نعم البدل ثابت نہ ہوسکی۔ فلمی اور قومی موضوع کر نہ صرف اردو زبان کی فلموں میں فلمایا گیا، بلکہ علاقائی فلموں میں اس موضوع کو اہمیت دی گئی۔ اس سلسلے میں 1959ء میں فلم ساز، ہدایت کار و مصنف اور نغمہ نگار سیف الدین سیف نے پنجابی فلم ’’کرتار سنگھ‘‘ بنائی۔
پہلی بار کوئی ایسی کہانی فلمائی گئی، جس میں انسانی رشتوں، جغرافیائی حدود اور دو قومی نظریہ کی مکمل تشریح کی گئی۔ فلم کی کہانی، منظرنامہ اور مکالمے پرتاثیر اور معنی خیز تھے، جس نے کہانی کے مقصد اور حسن میں مزید نکھار پیدا کیا۔ فلم کی موسیقی بھی کہانی سے مطابقت رکھتی تھی۔ موسیقار سلیم اقبال نے لازوال دُھنیں ترتیب دیں، خاص طور پر فلم کے نغمات جن میں ’’دیساں دا راجہ، میرے بابل دا پیارا‘‘ اور ’’اج لنگ گئی غماں والی شام، تینوں ساڈا پہلا سلام‘‘ جیسے امر گیت اس فلم میں شامل تھے۔ ’’کرتار سنگھ‘‘ کے کردار میں اداکار علاوالدین نے ایسی چونکا دینے والی اداکاری کی کہ سرحد پار کے سکھ، علاوالدین کو حقیقتاً سکھ سمجھنے لگے، جب کہ سدھیر، مسرت نذیر، لیلیٰ، اجمل، ظریف اور بہار نے بھی عمدہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔
’’کرتار سنگھ‘‘ وہ داستان ہے، جو گمنام شہیدوں کے لہو سے لکھی گئی ہے۔ 13؍اگست 1998ء میں ریلیز ہونے والی ایک قابل دید شاہ کار فلم ’’جنت کی تلاش‘‘ پرویز کلیم نے لکھی اور اس فلم کی کہانی ’’کرتار سنگھ‘‘ سے متاثر ہوکر لکھی گئی تھی، جسے حسن عسکری کی ڈائریکشن نے ایک عمدہ فلم کے طور پر عوام میں مقبول کروایا۔ ثناء، شان، رستم اور سعود نے اس فلم میں نمایاں کردار نگاری کے جوہر دکھائے تھے۔ ’’کرتار سنگھ‘‘ کی کام یابی کے بعد مزید اس طرح کی فلموں کو فروغ ملا۔ 1960ء کی دھائی میں پاکستانی فلم نے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے رنگین فلموں کا تجربہ کیا۔ اس سلسلے کی پہلی فلم ’’ہم ایک ہیں‘’‘ جزوی طور پر کلر فلم تھی، جس کے ہدایت کار معروف شاعر فیاض ہاشمی تھے۔ یہ فلم پاکستان کے بنیادی مقصد کے موضوع پر فلمائی گئی اور 1961ء میں ریلیز ہوئی۔
اسی سال ایک اور فلم ’’گل بکائولی‘‘ میں بھی کچھ رنگین گانے شامل کیے گئے تھے۔ 1964إ میں سابقہ مشرقی پاکستان کی پہلی مکمل رنگین فلم ’’سنگم‘‘ ریلیز ہوئی۔ اسی سال نومبرمیں لاہور میں ایک مکمل رنگین فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘ بنائی گئی۔ 1965ء میں ایورنیو پکچرز نے ہر طرف کام یابی کے جھنڈے گاڑھ دیے تھے۔ شمیم آرا، سنتوش کمار اور درپن نے اپتنے فنی کیریئر کے یادگار کردار اس فلم میں ادا کیے۔ اس سال بھارت سے جنگ کے نتیجے میں پورے پاکستان میں بھارتی فلموں پر مکمل پابندی لگ گئی۔ جنگ کے موضوع پر ہمارے فلم ساز سرگرم ہوگئے اور انہوں نے ’’مجاہد‘‘ ’’ہمراہی‘‘ ’’معجزہ‘‘ ’’آزادی یا موت‘‘ ’’وطن کا سپاہی‘‘ ’’مادر وطن‘‘ اور ’’ملنگی‘‘ جیسی سپرہٹ فلمیں بنائیں۔ اس عرصے میں محمد علی، شبنم، رانی، دیبا، وحید مراد، ندیم، فردوس، نغمہ، عالیہ جیسے چہرے فلموں میں متعارف ہوگئے تھے، جنہوں نے فلم بینوں میں بے حد مقبولیت حاصل کی۔ اداکار اور فلم ساز وحید مراد کی پہلی اردو پلاٹینم جوبلی فلم ’’ارمان‘‘ 1966ء میں ریلیز ہوئی، جس نے وحید مراد کو سپر اسٹار ہیرو بنا دیا تھا۔
60ء کی دھائی میں پاکستان کی فلمی صنعت اپنے سنہرے دور کی طرف سفر طے کررہی تھی۔ کراچی میں اس وقت تقریباً 90؍سنیما ہائوسز تھے، جو تعداد کے لحاظ پاکستان کے تمام شہروں سے زیادہ تھے۔ دو فلم اسٹوڈیوز ایسٹرن اور موڈرن موجود تھے، جہاں دِن، رات فلموں کی شوٹنگز ہوا کرتی تھیں۔ لاہور میں تقریباً 6؍سے زائد فلم اسٹٹوڈیوز کام کررہے تھے۔ ان دس سالوں میں بڑی تعداد میں کمرشل، نغماتی، کامیڈی، ایکشن، معاشرتی اور اسلامی فلمیں بنائی گئیں، جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ 1969ء میں فلم ساز، ہدایت کار اور مصنف ریاض شاہد کی شہرئہ آفاق بین الاقوامی معیار کی فلم ’’زرقا‘‘ ریلیز ہوئی، جس نے کراچی کے اوڈین سنیما میں سو ہفتے چل کر پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔
یہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جس نے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں بزنس کیا۔ اس فلم کو دُنیا کی مختلف زبانوں میں ڈب کرکے چلایا گیا۔ اداکارہ نیلو نے زرقا کا لافانی کردار ادا کیا۔ 60ء کی دھائی میں، جب پاکستانی فلم سازوں نے پاکستان سے باہر جاکر دیگر ممالک میں اپنی فلموں کی شوٹنگز کا آغاز کیا۔ اس سلسلے میں سابقہ مشرقی پاکستان نے سب سے پہلے فلم ’’کارواں‘‘ کی شوٹنگ نیپال میں کی۔ اس کے بعد وحید مراد اور زیبا کی رومانی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ کا یونٹ بیروت، یورپ اور پیرس گیا، جہاں اس فلم کی عکس بندی کی گئی۔ پاکستان کی ترقی کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کی ترقی کا سفر بھی جاری رہا۔
70ء کی دھائی میں نہ صرف فلموں کی تعداد میں اضافہ ہوا، بلکہ پشتو، گجراتی، سرائیکی، ہندکو، انگریزی اور بلوچی فلموں کا آغاز بھی ہوا۔ پہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ پہلی گجراتی فلم ’’ماں تے ماں‘‘ پہلی سرائیکی فلم ’’دھیاں نمانیاں‘‘ پہلی ہندکو فلم ’’قصہ خوانی‘‘ پہلی انگریزی فلم ’’بیانڈ دی لاسٹ موونٹین‘‘ کے تجربات اسی دھائی میں کیے گئے، جب کہ معروف ٹی وی اداکار انور اقبال بلوچ مرحوم نے ایک بلوچی فلم بنائی، جو بلوچ جرگوں کی مخالفت کی وجہ سے ریلیز نہ ہوسکی۔ بدر منیر، یاسمین خان، آصف خان، نعمت سرحدی، بیدار بخت، ثریا خان اور وحیدہ خان نے پشتو سنیما کو فروغ دینے میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا خُوب صورت مظاہرہ کیا۔ 70ء کی دھائی میں پاکستانی اسکرین پر ممتاز، نِشو، بابرہ شریف، آسیہ، سنگیتا، کویتا، انجمن اور مسرت شاہین، جیسی حسین و جمیل اداکارائوں نے اپنے حُسن کے جلوے بکھیرے۔ 1971ء میں فلم ’’آنسو‘‘ کے ذریعے اداکار شاہد نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا اور اپنی پہلی ہی فلم سے محمد علی، وحید مراد اور ندیم جیسے صفِ اول کے اداکاروں میں شامل ہوگئے۔ غلام محی الدین نے فلم ’’شکوہ‘‘ سے 1974ء میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ پنجابی سنیما کی اسکرین پر 1971ء میں فلم ’’بابل‘‘ کے ذریعے سلطان راہی نے عوامی مقبولیت حاصل کی۔ اس فلم سے قبل وہ زیادہ تر ثانوی کرداروں میں آتے تھے۔
’’بابل‘‘ کے بعد ہدایت کار اسلم ڈار کی سپر ہٹ اور بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’بشیرا‘‘ ان کا ایسا تعارف بنی کہ پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور تاحیات وہ پنجابی سنیما کے مقبول اور کام یاب ترین ہیرو رہے۔ 70ء کی دھائی میں ’’دوستی‘‘ ’’دولت اور دنیا‘‘ ’’بہاروں پھول برسائو‘‘ ’’امرائو جان ادا‘‘ ’’انمول‘‘ ’’دامن اور چنگاری‘‘ ’’بنارسی ٹھگ‘‘ ’’دل لگی‘‘ ’’آئینہ اور صورت‘‘ ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ ’’پہچان‘‘ ’’اناڑی‘‘ ’’میرا نام ہے محبت‘‘ ’’جب جب پھول کھلے‘‘ ’’نوکر‘‘ ’’خدا اور محبت‘‘ ’’آواز‘‘ ’’مٹھی بھر چاول‘‘ اور ’’پیاری‘‘ و دیگر نے مقبولیت حاصل کی۔ 1971ء سے 1980ء تک ان مذکورہ فلموں نے باکس آفس پر نمایاں کامیابیاں حاصل کرکے فلمی صنعت کو عروج پر پہنچا دیا۔ اس دھائی میں ہدایت کار نذرالاسلام کی فلم ’’آئینہ‘‘ نے کراچی میں تقریباً سوادو سال تک نمائش برقرار رکھ کر ایک نیا ریکارڈ بنایا اور پاکستان کی پہلی کرائون جوبلی فلم قرار پائی، جب کہ 1979ء میں نمائش پذیر ہونے والی فلم ساز سرور بھٹی کی شہرئہ آفاق پنجابی فلم ’’مولا جٹ‘‘ نے پورے پنجاب اور ملک میں شان دار کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
لاہور کے مرکزی سنیما پر یہ فلم مسلسل ڈھائی سال تک زیرنمائش رہی، جب کہ 1980ء کی دھائی میں ہدایت کار یونس ملک کی ’’شیر خان‘‘، ہدایت کار الطاف حسین کی ’’سالا صاحب‘‘ بھی طویل عرصے تک چلنے والی فلموں میں شمار ہوتی ہیں۔ 80ء کی دھائی میں فلمی صنعت اپنے نشیب و فراز سے بھی گزری۔ پہلی بار ڈبل ورژن فلموں کا رواج عام ہوا، جس نے فلم بینوں کو سنیما ہائوسز سے دُور کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 90ء کی دھائی میں یہ ترقی کرنے والی فلمی صنعت زوال کی طرف چلی گئی۔ اردو فلموں کی جگہ ڈبل ورژن فلموں نے فلمی صنعت کا بیڑا غرق کردیا۔ پنجابی فلموں میں ولگریٹی نے سنجیدہ پنجابی فلمیں دیکھنے والے فلم بینوں کو مایوس کیا۔ اس دھائی میں شان جیسا سپر اسٹار فلمی صنعت کو ملا، جس نے چند فلموں میں بہت اعلیٰ کردار نگاری کی۔
ریما، صاحبہ، صائمہ، ثناء، رستم، مدیحہ شاہ، نرگس اور دیگر اداکارائیں اسی دھائی میں متعارف ہوئیں، جب کہ بابر علی، سعود، معمر رانا اور جان ریمبو نے بھی اپنے پرستاروں کو مایوس نہ ہونے دیا۔ یہ 75؍سالہ کارکردگی کا ایک اجمالی جائزہ ہے۔ آج کل کورونا کی صورت حال ہے۔ پچھلے دو سال سے کوئی نئی فلم ریلیز نہیں ہوئی ہے، سنیما ہال بند پڑے ہیں۔ جو فلمیں مکمل طور پر ریڈی ہیں، انہیں سنیمائوں کی بندش کی وجہ سے روکے ہوئے ہیں۔ ’’لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ اس سلسلے کی سب سے بڑی فلم ہے، جب کہ ’’قائداعظم زندہ باد‘‘ کو بھی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد دیکھنے کی خواہش مند ہے۔