• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا حادثات کی آماج گاہ ہے،آئے روز اندوہ ناک، ناقابلِ فراموش، ناگہانی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ مرتے، لاپتا، زخمی ہوجاتے ہیں۔اور ان قدرتی آفات پر صبر آجانا بھی فطری عمل ہے، مگر ظلم و زیادتی، جبر و استبدادکے واقعات، مسلّط کردہ حادثات پہ انسان کا دل کبھی سکون نہیں پاتا۔ بلاشبہ، قدرت نے جو وسائل مہیّا کیے ہیں، وہ پوری دنیا کے لیے کافی ہیں۔ زمین میں ابھی بے شمار،بے بہا ظاہر و پوشیدہ خزانے ہیں۔ دنیا میں غذا کی اتنی بہتات ہے کہ اگرترسیل کا نظام منظّم اور منصفانہ بنیادوں پرہو تو ہر انسان کو بِنا لڑے جھگڑے سب کچھ میسّر آسکتا ہے۔ 

مگر پھر بھی تاریخِ عالم کے صفحات جنگی واقعات سے بَھرے پڑے ہیں۔ بیسویں صدی میں تو ایسی خون آشام جنگیں ہوئیں کہ روئے زمین پر وحشت و دہشت کی لاتعداد الَم ناک داستانیں رقم ہوگئیں۔ کہیں مذہب کی جنگ، تو کہیں تہذیب کی، کہیں تمدّن کا جھگڑا، تو کہیں معدنی وسائل کی چھینا جھپٹی اور اس بنیاد پر لڑائیاں۔ عجب تیری دنیا، عجب تیری خدائی۔

جاپان میں ہر برس اگست کے پہلے اور دوسرے ہفتے ہیروشیما اور ناگاساکی کے اُن مقامات پر دعائیہ تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں آج سے 76برس قبل ایٹم بم برسا کر چشمِ زدن میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دنیا کے اس پہلے ایٹمی حملے کے نتیجے میں لاکھوں افراد زخمی ہوکر بے بسی کی تصویر بن گئے۔ جنگ کی تباہی کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن اس کی الَم ناکی وہی جانتے ہیں، جو اس کا نشانہ بنے، جنہوں نے اسے جھیلا۔ جنگ سے صرف انسانوں ہی کا نہیں، بلکہ قلب و ذہن میں بسنے والی خواہشوں، تمنّاؤں، حسین خوابوں اور ارمانوں کا بھی خون ہوجاتا ہے۔ 

مبصرین کا خیال ہے کہ اگر جاپان جنگ میں حصّہ نہ لیتا، تو دوسری عالم گیر جنگ کی نوبت ہی نہ آتی۔ جب کہ دوسری طرف یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر جنگ کے اصولوں سے انحراف نہ کیا جاتا، تو جاپانی قوم کبھی شکست کا سامنا نہ کرتی۔ بہرحال، اس جنگ میں جاپانیوں کا جذبہ حبّ الوطنی اپنے عروج پر تھا۔ ملک کا بچّہ بچّہ جنگ میں شریک تھا۔ اسکول کے طلبہ کارخانوں میں جنگی سامان بناتے اور جنگی تربیت حاصل کرتے تھے۔ لوگوں نے اپنا جان و مال دائو پر لگادیا تھا، حتیٰ کہ فولاد کی کمی پوری کرنے کے لیے گھر کے برتن، کھڑکیوں، دروازوں کی کنڈیاں اور صندوقوں کے قبضے تک نکال کر ہتھیار بنائے جارہے تھے۔ جاپانی معمولی غذا پر بھی گزارہ کرلیتے تھے، وہ جہاں ہوتے، وہیں سے رسد حاصل کرلیتے۔ محاذِ جنگ پر جانے والوں کی مائیں، بیویاں، خودکشی کررہی تھیں کہ واپسی کی آس ہی نہ رہے اور ان کے پیارے مادرِ وطن کے لیے بے جگری سے لڑیں۔ بہرحال، اگست 1945ء میں جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے جانے کے اندوہ ناک واقعے کے ذکر سے قبل ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔

اٹھارہویں صدی کے اوئل سے جاری برطانوی سامراجی ریشہ دوانیوں نے انیسویں صدی تک ایک تہائی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ کہتے ہیں کہ استعماری دَور میں تاجِ برطانیہ کی مملکت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ گورا راج ہر سُو ذرائع رسد و رسل پر قابض تھا، یہ ذرائع نقل و حمل پر ٹیکس بڑھاتے ہوئے دنیا پر اپنا قبضہ جماتا، جاپان کی طرف بھی بڑھنے لگا۔ جاپان، ہمیشہ سے ایک آزاد ملک رہا ہے، جنگ کی تباہی سے دوچار اِس ملک کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی کہ یہ کبھی کسی استعمار کے تابع نہیں رہا۔ حتیٰ کہ ایٹم بم کی تباہ کاری کے باوجود یہ کسی سامراجی قوت کے زیرِاثر نہیں آیا۔ 

جنگجو اور نڈر قوم ہونے کے سبب اُن کی ایک سوچ یہ بھی تھی کہ حملہ ہونے سے پہلے حملہ کردیا جائے۔ بعض تاریخ نویس جنگِ عظیم دوم کا آغاز1931ء میں جاپان کی منچوریا پر چڑھائی اور1937ء میں چین اور جاپان کے درمیان رنجش سے کرتے ہیں، جب کہ کچھ مبصرین جنگ کی ابتدا منچوریا پر پیش رفت گردانتے ہیں۔ انیسویں صدی میں اگرچہ جاپان، یورپ کے مقابلے میں سیاسی طور پر ناپختہ، عسکری اور اقتصادی اعتبار سے کم زور تھا، لیکن اس کے باوجود یہ مشرقِ بعید میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم میں جاپان کا مختصر مگر کلیدی کردار رہا۔ 

یہ جنگ میں بطور اتحادی شامل ہوا۔ شروع میں اس نےبرطانیہ کی طرف سے کی گئی گزارشات کونظر انداز کیا، لیکن پھر 1902ء میں ہونے والے معاہدے کے احترام میں برطانیہ کا ساتھ دیتے ہوئے، جرمن نوآبادیات خالی کروائیں، تو بحرالہند اور بحر الکاہل کی بہت سی کالونیوں پر قبضے کے دوران بہادری کے ناقابلِ فراموش کارنامے بھی انجام دیئے۔ 1922ء کے عالمی معاشی بحران نے جاپان کو بھی نقصان پہنچایا۔ 

کساد بازاری اور بے روزگاری سے لوگ پریشان ہوگئے، اسی دوران 1923ءکے خوف ناک زلزلے نے بھی تباہی مچائی۔ اقتصادی پابندیوں اور بھاری ٹیکسز نے جاپان کو جنگ کی طرف دھکیلا۔ امریکا اور برطانیہ نے نوآبادیات چھوڑنے کے لیے جاپان پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا، اس دوران جاپان میں تیزی سے ترقیاتی کام جاری تھے، طویل سڑکیں تعمیر کی جارہی تھیں، ٹرین، بسوں اور ٹرام سروس کا جال بچھایا جارہا تھا۔ اسکولز، اسپتال، اسٹیشنز، پوسٹ آفسز اور پارکس سمیت ہر طرح کا انفرااسٹرکچر تشکیل دیا جارہا تھا۔ جاپانی ماہرین کے ہاتھوں تعمیر ہونے والی اُس زمانے کی پُرشکوہ عمارتیں آج بھی ترقی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بعدازاں، امریکا اور برطانیہ کی ناطقہ بندیوں سے جاپان میں وسیع پیمانے پر معاشی بدحالی پھیل گئی۔ 1938ء میں صنعت کاروں کو امریکی جہاز اور دیگر مصنوعات فروخت کرنے کی ممانعت کردی گئی، تیل اور دیگر معدنیات پر بھی پابندی عاید کردی گئی۔ جاپان کو اپنے زیر قبضہ علاقوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کو سنبھالنے میں دشواری پیش آنے لگی۔ جاپانی غیر ذمّے دارقوم نہیں ،مگر ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق ’’پرل ہاربر‘‘ پہ حملہ کرکے اطراف کی برطانوی نوآبادیات خالی کروانے میں کام یابی حاصل کی۔ بحری اور برّی فوج کے طریقۂ کار میں بھی اختلافِ رائے پایا جاتا تھا، لیکن جاپان کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔

ایسے میں امریکا کے شعبۂ اطلاعات نے جاپان کے ریڈیو کوڈ کی کلید دریافت کرلی، ایک اور کاری ضرب لیفٹیننٹ کرنل، جیمز ایچ ڈولٹیل کی ٹوکیو پر بم باری سے لگی، جو کہ زمانۂ امن میں فضائی کرتب دکھایا کرتا تھا۔ اِس نے افسران بالا سے ٹوکیو پر بم باری کی اجازت مانگی، جسے شروع میں مجنونانہ بَڑ سمجھ کر نظراندازکیا گیا، لیکن پھر چارو ناچار اجازت دے دی گئی۔ ٹوکیو پر خلافِ توقع بم باری نے جاپان کی کمر توڑ دی۔26جولائی کو امریکا، برطانیہ، روس، فرانس کی کانفرنس کے بعد پوسٹڈم اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں جاپان کو ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا، بصورتِ دیگر، بڑی تباہی سے دوچار ہونے کی دھمکی بھی دی گئی، جسے بعدازاں ایٹم بم گرا کے عملی جامہ پہنایا گیا۔ جنگی ضابطوں کے تحت کسی بھی آبادی پر بم باری یا مہلک ہتھیاروں کا استعمال جائز نہیں، لیکن تمام بین الاقوامی اصول و ضوابط کو پسِ پشت ڈال کے 6اگست 1945ء کو ہیروشیما پر ماریانا آئرلینڈ کے ایئربیس ٹینان سے پائلٹ پال تبت نے امریکی بم بار طیارے B-29 اینولاگے ( Enola Gay)’’ لٹل بوائے‘‘ نامی اور 9 اگست کو چارلس سوینی نے B-29 بوسکیسکار بمبارطیارے سے ناگاساکی پر ’’فیٹ مین‘‘ نامی ایٹم بم گرادیئے۔ 

ناگاساکی پر گرایا جانے والا بم ہتھیاروں کے کارخانوں والے شہر کوکورا پر گرانا تھا، مگر بادلوں کی وجہ سے ناگاساکی پر گرادیا گیا۔ دھماکے کے بعد چھے سے آٹھ مربع میل کا وسیع و عریض علاقہ آگ کی لپیٹ میں آگیا۔ ہیروشیما میں ایٹمی حملے کے نتیجے میں ساڑھے تین لاکھ کی آبادی کے اس شہر کے ایک تہائی افراد ہلاک ہوگئے۔ جن میں سے ہزاروں موقعے ہی پر ہلاک ہوگئے، جب کہ باقی جھلسنے یا تاب کاری کے اثرات سے ہلاک ہوئے۔ ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا، مگر امریکی وزارتِ دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔اور ’’فیٹ مین‘‘ نامی 22 ٹن وزنی جوہری بم نے ستّر ہزار افراد کی جان لے لی۔

ہیرو شیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک وہاں تاب کاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تاب کاری، بُری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعدازاں، ایک محتاط اندازے کے مطابق جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک پہنچ گئی۔اس ہولناک ایٹمی حملے سے متعلق عینی شاہدین کے بیان کے مطابق ’’آسمان سے آگ کا ایک سرخ گولا آتا ہوا دکھائی دیا، جس کی تپش سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں، اس کی انتہائی تیز شعائوں سے سیکڑوں افراد بینائی سے محروم ہوگئے۔ 

پھر ایک دھماکا ہوا اور دھوئیں کی گویا ایک فلک بوس عمارت کھڑی ہوگئی۔ اُس کے بعد چاروں طرف گرد و غبار چھاگیا، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا،کسی کو کسی کی خبر نہیں تھی، قیامت کا سماں تھا۔ دھند چَھٹی تو ہر کوئی مدہوش تھا، غشی کا عالم تھا۔ تاحدِ نظر لاشیں ہی لاشیںتھیں۔ انسانی اعضا ہر سُو بکھرے پڑے تھے۔ آہ و بکا، چیخ پکار اور سسکیوں سے فضا بوجھل تھی۔ انسانوں کا گوشت موم کی طرح پگھل کر گر رہاتھا۔ کچھ کا بھاپ بن کر اُڑ رہا تھا۔‘‘ جاپان کے تجارتی شہر، ہیروشیما کے مرکز اور صنعتی شہر، ناگاساکی پرجوہری حملے کے کئی سال بعد تک وہاں کی زمین بنجر رہی۔ بچّے معذور پیدا ہوتے رہے، تاب کاری اثرات کی وجہ سے متعدد مہلک بیماریاں پھیل گئیں، جِلدی امراض بڑھ گئے۔

جاپان میں جنگ کے حالات اور بعد کے واقعات پربہت سی ڈاکیومینٹریز بھی بنائی گئیں۔ اُس وقت جو جاپانی لیڈر امریکیوں سے بات کررہے تھے، اُن کرداروں کوڈاکیو منٹریز میں دکھایا گیا ہے کہ وہ کس پُر اعتماد لہجے میں بات کر رہے ہیں۔ چوں کہ وہ بین الاقوامی جنگی قواعد کی خلاف ورزی کا شکار ہوئے تھے، اسی لیے اس ظاہری شکست کو جاپانیوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ وہ ہارنے کے باوجود مرعوب نہیں ہوئے، اس مسلّط کردہ جنگ نے گویا جاپانیوں کا نصاب بدل دیا۔ امریکی ظاہری تبدیلی لانے میں کسی حد تک کام یاب بھی ہوئے، لیکن اس عظیم جنگی معرکے اور وسیع تر تباہی کے باوجود جاپانیوں کی نسلی اور باطنی خصوصیات آج بھی برقرار ہیں۔

تین دہائی قبل جب ہم نے سورج کی اس سرزمین پر قدم رکھا، تو دوسری جنگِ عظیم کے زمانے کے بہت سے لوگ حیات تھے۔ جن سے ہمیں دوسری جنگِ عظیم، خصوصاً ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بپا کی جانے والی قیامت سے متعلق بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ جب ہم جاپان گئے، تو شروع میں ایک مقامی گھرانے کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے اخلاق و محبّت کی وجہ سے ہم بہت جلد ایک دوسرے سے گُھل مِل گئے۔ اُس گھر کی خاتونِ خانہ کو ہم نے اکثر جاپان کی تباہی کے غم میں روتے دیکھا، اُن کے خاندان کے لوگ ہر ہفتے باقاعدگی سے مرگھٹ جایا کرتے۔ کچھ عرصے بعد جاپانی زبان سے آشنائی ہوئی اورمقامی لوگوں سے گفت و شنید کے مواقع میسّر آئے، تو جاپان کے بود و باش، طرزِ رہائش سے متعلق بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ 

مقامی لوگوں سے جب بھی ہماری بات چیت ہوتی، ناگاساکی اور ہیرو شیما پر جوہری حملے کا ذکر ضرور ہوتا۔ جاپانی اپنی قوم پر ظلم و بربریت کے اس سانحے کو آج تک فراموش نہیں کرسکے۔76سال بیت جانے کے باوجود جاپانیوں کے لیے اُس قیامتِ صغریٰ کے زخم تازہ ہیں۔گرچہ وہ تمام لوگ جو ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے میں شامل تھے، بعد میں اس ظلم اور بدترین انسانی المیے پر بہت پچھتائے۔ 

بعدازاں، جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کرتے عمر گزاردی۔بہرکیف، جاپانی دنیا کے کسی بھی حصّے میں اب جنگ نہیں چاہتے۔ یہ جنگ سے نفرت کرتے ہیں۔ جنگ کے شدید مخالف ہیں۔ تب ہی جنگ کے خاتمے پر اُس وقت کے وزیر اعظم، یوشیدا شیگیرو نے عوام سے اپنے تاریخی خطاب میں کہا ’’ہم جنگ ہار گئے ہیں، ہتھیار پھینک دو اور اوزار اُٹھالو۔ اب ہم ایک نئی جہت میں جدوجہد کریں گے۔‘‘ یوشیدا نے لوگوں کو محنت سے کام کرنے کی ترغیب دی، جس کے بعد سے جاپانی قوم آج تک اپنے بنیادی مقصد اور جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے۔

تازہ ترین