محمد نادر شاد
تیز رفتار موٹر سائیکل سوار نوجوان کی ٹکر سے ایک خاتون شدید زخمی، چھ ماہ کی شیرخوار بچی گر کر ہلاک۔‘‘ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان موبائل پر بات کرتے ہوئے موٹر سائیکل کو اِدھر اُدھرگھوماتے ہوئے ایک دوسری تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا کرسڑک پر گرے اور لمحے بھر میں جان کی بازی ہار گئے۔‘‘ اس طرح کے حادثات کی خبریں ہم تقریباً روزانہ ہی اخبار میں پڑھتے ہیں، جن میں تیز رفتار موٹر سائیکل سوار یا سڑکوں پر ریس لگاتے کارسوار نوجوان نے راہ گیروں کو ہلاک و زخمی کردیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حادثات کے ذمہ دار اکثر و بیشتر نوجوان ہی کیوں ہوتے ہیں؟ آج ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ جب ایک نوجوان لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھتا ہے تو اس کے ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ اور کچھ کر دکھانے کے جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں۔
وہ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جو کوئی دوسرا نہ کرسکے۔ خود کو منوانا چاہتے ہیں اُن کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لوگ ان کی طرف دیکھیں تو تعریف کریں۔ یہ سوچ اپنی جگہ ہے لیکن تیز رفتار ی کے ساتھ سڑکوں پر موٹر سائیکل چلانا کسی بھی طرح صلاحیت کے زمرے میں نہیں آتا، کسی کے گھر کا چراغ بجھا دینا یا کسی کو ساری زندگی کے لیے معذور کر دینا کس قسم کی صلاحیت ہے، پھر قانون کو بھی ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
موٹر سائیکل سوارنوجوانوں کی بڑی تعداد موٹر سائیکل کم چلاتے ہیں اوراپنے فن کا مظاہرہ زیادہ کرتے نظر آتے ہیں، بعض اوقات موٹر سائیکل کی ریس لگاتے یا ون ویلنگ کا تماشہ دکھاتے ہوئےٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خود بھی معذور ہوجاتے ہیں یا زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جنون میں وہ ایسا کچھ کر جاتے ہیں، جس کے نقصان کا اُن کو خود ادراک نہیں ہوتا ۔
پھر نوجوانوں کی اکثریت موٹر سائیکل چلاتے وقت کانوں میں ہینڈز فری استعمال کرتے ہیں، ایسا کرکے وہ خود کو ماڈرن سمجھتے ہیں، بعض اوقات وہ موسیقی سننےمیں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ اِردگر د دھیان نہیں دیتے، یوں کسی حادثے کی صورت میں وہ اپنا یا دوسروں کا نقصان کربیٹھتے ہیں۔
یہ بھی توسراسر نوجوانوں کی غلطیاں ہیں۔ لیکن حکام پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اُنہیں صلاحیت دکھانے کےلیےمختلف شعبوں میں مواقع فراہم کرنے اور ایسا سازگار ماحول مہیا کیا جانا چاہیے، جہاں وہ اپنے جیسے دوسرے نوجوانوں سے مقابلہ کرکے خود کو منوا سکیں۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے لائبریری، ورزش کے لئے ہیلتھ کلب، تیراکی کے لئے سوئمنگ پول، گھڑ سواری کے لئے میدان، موٹر سائیکل اور کار ریسنگ کے لئے ریسنگ ٹریک، ریسلنگ، کشتی، کبڈی، جوڈو کراٹے، ٹینس اور کشتی رانی سیکھنے کے مواقع کے علاوہ دیگر تمام کھیل کھیلنے اور انہیں سیکھانے کی سہولیات عام نوجوانوں کو مفت فراہم کرنی چاہئیں۔
لیکن یہ تمام سہولیات جن سے مستفید ہونا ایک نوجوان کا حق ہے، اسے حاصل نہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں اسپورٹس کی سہولیات فراہم ضرور کی جاتی ہیں لیکن صرف 5اسٹار ہوٹلوں میں اور ان لوگوں کو جو ان کی لاکھوں روپے سالانہ فیس ادا کرسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف غریب نوجوان ان کے خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فی صد سے بھی زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں اچھی تعلیم و تربیت کےساتھ باعزت روزگار فراہم کرنا بھی بے حد ضروری ہے، تاکہ وہ غلط سمت کا انتخاب نہ کرلیں۔
لیکن آج کے بیشتر نوجوانوں کو اچھی تعلیم و تربیت اور باعزت روزگار میسر ہے اور نہ ہی سازگار ماحول ۔ ارباب اختیار سے ایک گزارش ہے کہ جس طرح وسائل سے محروم عوام کی احساس پروگرام اور دیگر ذرائع سے مالی معاونت کی جارہی ہے، غریب مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے ہیلتھ کارڈ دئیے جارہے ہیں۔ غریب عوام کا پیٹ بھرنے کے لئے لنگر خانے کھولے جارہے ہیں بالکل اسی طرح ملک کے تمام شہروں میں کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے غریب نوجوانوں کے لئے فری اسپورٹس کلب بھی بنائے جائیں۔
جہاں نوجوان کھلاڑیوں کے لئے کھیلنے اور سیکھنے کی تمام سہولیات بلامعاوضہ فراہم کی جائیں۔ موٹر سائیکل اور کار ریسنگ کا شوق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے محفوظ اور جدید سہولتوں سے آراستہ ریسنگ ٹریک بنائے جائیں۔ اگر نوجوانوں کو مذکورہ سہولیات حاصل ہوجائیں تو وہ سڑکوں پر ون ویلنگ اور کار ریسنگ کرکے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کے بجائے محفوظ ریسنگ ٹریک اور کھیل کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گے اور اپنے وطن پاکستان کا نام روشن کریں گے۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔