حیدرآباد جو کلہوڑا دورتک نیرون کوٹ کے نام سے معروف تھا، درخشاں ماضی کا حامل شہر ہے۔ اس کے کئی قصبے اور علاقے تاریخی اہمیت رکھتے ہیں جن کا شمار کسی دور میں خوب صورت محلّوں میں ہوتا تھا لیکن آج وہ زبوں حالی کا شکار ہیں۔ پکا قلعہ کے اطراف کے علاقے چھوٹی گھٹی، سرے گھاٹ ، آفندی محلہ، تلک چاڑی اور دیگر علاقے اس کی بین مثال ہیں۔یہاں ہیر آباد نام کا ایسا ہی ایک محلہ ہے جوچند دہائی قبل تک اپنے منفرد طرز تعمیر، کشادہ گلیوں اور صفائی ستھرائی کی وجہ سے مشہور رہا ہے۔
اس علاقے کی تعمیر 1914 میں شروع ہوئی اور اسے میونسپل کمیٹی کے صدر’’ ہیرانند کھیم چند‘‘ کے نام سے منسوب کیا گیا،1920ء میں جب تعمیراتی کام مکمل ہوگیا تو اس میں لوگ آباد ہونا شروع ہوئے۔ اس علاقے کو ہندوؤں کی لوہانہ قوم کی ’’عامل برادری ‘‘اور ’’بھائی بند‘‘نے آباد کیاتھا۔عا مل ہندوؤں کا وہ طبقہ تھا جو کلہوڑا اور تالپور میروں کے دور میں شاہی دربار سے وابستہ رہا۔
میروں کے زوال کے بعد برطانوی دور حکومت میں بھی وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ ہیرآباد میں ان کے نام سےآج بھی عامل کالونی موجود ہے۔ ضلع کے زیادہ تر ڈاکٹر، انجینئرز اور وکلاء کا تعلق عامل برادری سے ہی تھا ۔ یہ لوگ صرف حیدرآباد تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ خیرپور، لاڑکانہ ، سیہون کے علاوہ کراچی میں بھی مقیم تھے اور گرومندر کے علاقے میں قائم عامل کالونی بھی اسی برادری کے نام سے منسوب ہے۔
عامل لوگوں کی بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں یورپی ممالک میں بھی رہائش پذیر ہوگئی تھی، دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ نقل مکانی کرکے واپس حیدرآباد آگئے۔ لوہانہ قوم کی دوسری برادری ’’بھائی بند‘‘کہلاتی تھی، یہ وہ سندھی طبقہ تھا جس کے افراد کاروباری اور تجارت پیشہ تھے۔ شاہی بازار سمیت حیدرآباد کے تمام تجارتی مراکز میں اسٹیل کی صنعت و دیگر چھوٹے موٹے کاروبار پر انہی کا قبضہ تھا۔ ان کا کاروبار دور دراز ملکوں تک پھیلا ہوا تھا۔ خام مال سے لے کر ضروریات زندگی کی تمام اشیاء وہ بیرون ملک لے جایا کرتے تھے۔ یہ تمام مصنوعات سندھ کے دست کاروں کے ہاتھ کی میں بنی ہوتی تھیں اس لیے اسے’’ سندھ ورک‘‘ کہا جاتا تھا، جو بعد میں’’ سندھ ورکی‘‘ ہوگیا، پھر یہ نام ایک مخصوص کاروباری طبقے کی شناخت بن گیا۔
1843 میں سندھ پرقبضے کے بعد انگریزوں کو جب بھی کسی شے کی ضرورت پڑتی،وہ بھائی بندوں سے ہی رابطہ کرتے جو انہیں ان کا مطلوبہ سامان فراہم کرتے تھے۔ آج بھی مارکیٹ کے علاقے میں وہ تمام عمارات موجود ہیں، جن میں وہ رہتے تھے۔ ہیرآباد کے آباد ہونے سے مارکیٹ کا علاقہ مکمل طور پر ایک کاروباری حب بن گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک حیدرآباد کی ٹاور مارکیٹ ایک بڑا کاروباری مرکز بنی ہوئی ہے۔
عامل اور بھائی بند برادریوں نے مل کرپٹھان کالونی، بیراج کالونی ، لیاقت کالونی اور سلاوٹ پاڑے سے متصل ایک نئے محلےکی بنیاد رکھی۔ اس کی تعمیرات کی منصوبہ بندی دنیا کے سات بڑے ممالک کے مشہور علاقوں کی عمارتوں کو ذہن میں رکھ کر کی گئی تھیں۔ یہ علاقہ جیل روڈ پر مارکیٹ ٹاورسے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے اور حیدرآباد کے معروف علاقوں میں سے ایک ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ تالپوروں کی شکست کے بعد انگریز دور حکومت میں حیدرآباد میں سب سے پہلے صدرکا علاقہ آباد ہوا اور اس کے بعد ہیرآباد معرض وجود میں آیا، تالپور حکمرانوں کے مقبرے بھی اسی محلّے میں واقع ہیں۔ 1914 میں جب حیدرآباد کی مرکزی مارکیٹ میں ٹاور تعمیر کرکے، گھنٹا گھر نصب کیا گیا، تو اس وقت تک یہ تمام لوگ مارکیٹ کے علاقے میں رہائش پذیر تھے مگر جیسے ہی ٹاور مارکیٹ سے تھوڑے فاصلے پر ہیر آباد کا قیام عمل میں آیا تو بھائی بند لوگ اسی علاقے میں آباد ہو گئے۔1900 کی دہائی میں جو فن تعمیر مروج تھا، ہیرآباد میں تمام گھر اسی کے مطابق تعمیر کیے گئے ہیں۔
گھروں میں زیادہ سے زیادہ کھڑکیاں اور دروازے بنائے گئے ہیں، ان میںکشادہ گیلریاں بھی ہیں۔ ہر گھر کےصدر دروازے کو گلی یا سڑک سے اونچائی پر بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر گھر کی گیلری، لکڑی سے بنائی گئی جب کہ گھروں میں تہہ خانے بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔گلیاں کشادہ ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ہوا کا گزر بلا کسی رکاوٹ کے ہوتا رہے جب کہ لوگوں کی آمد و رفت میں آسانی کا بھی خیال رکھا گیا تھا۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے اس دور میں حیدرآباد کے ہر گھر کی چھت پرروشن دان بنے ہوئے تھے، جن میں سے ٹھنڈی ہوا کی آمدورفت کے علاوہ گھٹن زدہ ماحول کا خاتمہ ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعداقلیتی برادری کے افراد نقل مکانی کرکے بھارت چلے گئے جب کہ وہاں سے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی ، حیدرآباد سمیت سندھ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آباد ہوگئے۔ حیدرآباد اور ہیرآباد میں ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے مکان اور مال اسباب ان کے تصرف میں آگیا۔ سندھ کی معروف علمی و سماجی شخصیت ، دادی لیلا وتی بھی یہیں مقیم تھیں جو ہندوؤں کی بھارت نقل مکانی کے بعد بھی مرتے دم تک اسی علاقے میں رہیں۔
ماہ و سال گزرنے کے بعدحیدرآباد شہر میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں، وسیع و عریض شہر سکڑتا گیا، اس کے ساتھ اب ہیرآباد کی گلیاں بھی تنگ ہو گئی ہیں۔ وہ گھر جو کسی زمانے میں اس محلے کی پہچان تھے،انہیں مسمار کر کے کثیر المنزلہ پلازہ تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ کئی گھر ایسے بھی ہیں ہندوؤں کے جانے کے بعد وہاں کوئی بھی آباد نہیں ہوا، ان میں اب تک تالےلگے ہوئے ہیں جو زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مذکورہ گھر بھارت سے آنے والے افراد نے کلیم پر حاصل کیے تھے لیکن وہاں رہائش کے دوران وہ توہمات کا شکار ہوگئے اورانہیں آسیب زدہ سمجھتے ہوئے خوف و ہراس محسوس ہونے لگا تو انہیں آسیب زدہ سمجھتے ہوئے تالے لگا کر بند کردیا اور خود دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔
یہ حویلی نما مکانات برسوں سے خالی پڑے، دروازوں پر لگے تالے بھی اب زنگ آلود ہوگئے ہیں، وہاں کوئی رہنے کو تیار نہیں ہوتا اور نہ ہی مالک مکان کسی کو کرائے پر دیتے ہیں۔ ہیرآباد کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے گھر اپنے مکینوں سے دو دفعہ محروم ہوئے،ایک مرتبہ تو 1947میں تقسیمِ ہند کے وقت، جب یہاں سے بڑی تعداد میں ہندو اپنے گھروں کو قفل لگا کر ہندوستان منتقل ہوئے، دوسری بار 1988 کے لسانی فسادات کے دوران، یہاں سے زیادہ تر افراد گھربار چھوڑ کر حیدرآباد کے نسبتاً محفوظ علاقوں میں چلےگئے، جس کی وجہ سے آج یہاں ویرانی برستی ہے۔