• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے امیر المومنین ملا ہیبت اللہ اخوند زادہ نے جس امارتِ اسلامی افغانستان کا اعلان کیا ہے اُس سیاسی ڈھانچے پر تین اعتراضات کئے جا سکتے ہیں، اول یہ کہ اُس کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ اُنہوں نے افغانستان کیلئے کسی نئے آئین، فریم ورک یا اسٹرکچر کے خدوخال واضح کئے ہیں اور نہ ماضی کے ’’جمہوری اسلامی آئین‘‘ کی پاسداری کا اہتمام یا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ یہ امر تو واضح ہے کہ جب بھی دنیا میں اچھے یا برے انقلابات آتے ہیں تو عہد کہن کی بہت سی اچھائیوں کو بھی مسل دیا جاتا ہے۔ افغانستان تو ہماری طرح وہ بدقسمت ملک ہے جس میں ہر آئین کا یکے بعد دیگرے تیا پانچہ کیا جاتا رہا ہے۔

طالبان نے امریکیوں سے مذاکرات کرتے ہوئے جو امور طے کئے تھے یا جن کی پاسداری کا عہد کیا تھا، ان میں جہاں یہ امر واضح تھا کہ افغان سرزمین کو کسی دوسری قوم کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا یا یہ کہ انسانی حقوق اور بالخصوص حقوقِ نسواں کی پاسداری کی جائے گی، وہیں یہ عہد بھی تھا کہ امریکی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان افغان انتظامیہ سے مذاکرات کرتے ہوئے پُرامن انتقالِ اقتدار میں تعاون کریں گے اور یہ کہ دہشت کے ذریعے اقتدار پر جھپٹا نہیں ماریں گے مگر اُنہوں نے اس کی پابندی نہیں کی گو کہ غنی انتظامیہ ازخود بھی اِس قدر نااہل اور ناکارہ ثابت ہوئی کہ انہوں نے اس نوع کا موقع آنے ہی نہیں دیا حالانکہ اُنہیں امریکی انخلا کے باوجود امریکی فضائیہ کی حفاظتی چھتری میسر تھی مگر بوجوہ ایسے تمام رابطے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

دوئم طالبان نے افغانستان کے دیگر سیاسی دھڑوں یا گروپوں کو ساتھ لے کر چلنے کی یقین دہانی کروائی تھی مگر موقع آنے پر سب کو جھنڈی دکھا دی اور واضح کر دیا کہ ہم افغانستان میں پختونوں کے علاوہ دیگر نسلی گروہوں کو بھی حکومت میں شامل کر رہے ہیں یعنی طالبان ہی کے جو لوگ ازبک یا تاجک ہیں، مثال کے طور پر آرمی چیف اپنے ایک تاجک کمانڈر فصیح الدین بدخشانی کو تعینات کیا ہے جبکہ ایک ازبک عبدالسلام حنفی کو نائب وزیراعظم (دوئم) مقرر کیا ہے اور یہ یقین دہانی بھی کروائی جا رہی ہے کہ عبوری کابینہ میں توسیع کرتے ہوئے اس حوالے سے مزید ’’فراخدلی‘‘ دکھائی جائے گی۔

امارت ِاسلامی پر مہذب دنیا کا تیسرا اعتراض جمہوریت کے حوالے سے ہے، وہ انتخابات یا عوامی نمائندگی کے حوالے سے کوئی بات ہی نہیں کر رہے یعنی وہ جس طرح کسی انتخابی معرکے کے بغیر محض بندوق کی دہشت سے برسراقتدار آئے ہیں اس طرح وہ اپنے حکومتی تسلسل کیلئے بھی عوامی اعتماد یا ووٹ کے حصول کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے اور نہ کریں گے۔

سچ تو یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں، جمہوریت پر نہیں۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ملک کے نام سے ’’جمہوریہ‘‘ کا لفظ ختم کرتے ہوئے اسے امارتِ اسلامی سے بدل دیا ہے۔ ہمارے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ’’شورائیت‘‘ کے حوالے سے خاصی غلط فہمیاں ہیں۔ اسلام میں روشن خیالی یا جدیدیت کے اس درویش جیسے نام نہاد دعویدار عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے شورائیت کی اصطلاح کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں لیکن راسخ العقیدہ لوگ جب اس کا استعمال کرتے ہیں تو ان کی اس سے عوامی جمہوریت نہیں ہوتی ہے۔ ’’شوریٰ‘‘ یا ’’شورائیت‘‘ کے تصور سے کبھی کسی کو انکارنہیں رہا، 14صدیوں پر محیط طویل تاریخ کے بدترین ادوار میں بھی اس پر عملدرآمد ہوتا رہا، آج بھی ہماری ریاست میں ہو رہا ہے ایسے ہی جیسے کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھرپور مشاورت ہوتی ہے، استدلال کے ساتھ بحثیں ہوتی ہیں ، اسے آپ جو مرضی کہہ لیں مگر جمہوریت نہیں۔

آج ہم لبرل اسلام کے علمبردار یہ کہتے نہیں تھکتے ہیں کہ اختیارات کی تقسیم کرتے ہوئے مختلف عہدیداروں کی الگ الگ ذمہ داریاں واضح ہونی چاہئیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کا امیر المومنین کبھی ایسی شرائط پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے، وہ تمام تر اختیارات خود بھی استعمال کر سکتا تھا اور دوسری ذمہ داریوں پر فائز لوگوں کے فیصلوں کو ویٹو بھی کر سکتا تھا۔ لہٰذا افغانستان میں آج جو امارت اسلامی قائم کی جا رہی ہے۔ ہمارے نظریاتی سوچ رکھنے والے لوگ نہ جانے کس دنیا کے باسی ہیں، ان کی آنکھیں جلد کھل جائیں گی جب ہمارے طالبان بھائی خالص روشنی کے علمبردار بن کر اٹھیں گے تو دنیا تلملا اٹھے گی کیونکہ وہ ولایت فقہہ کی کرنوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گی۔ افسوس ہمارے ان نظریۂ عظمت والوں کو معاشی الجھنوں کے مسائل اور مجبوریاں درپیش ہوتی ہیں، ورنہ وہ اس اندھیر نگری کو اپنی قدیم روشنی کی مقدس کرنوں سے منور کر دیں، چاہے لاکھوں کا ناشتہ کرنا پڑے۔

تازہ ترین