آج کل طالبان خبروں میں ہیں ۔ لیکن لفظ’’ طالبان‘‘ کا استعمال بعض اوقات عجیب انداز سے ہورہا ہے ۔ مثلاً کسی نے تصویری خبر میں لکھا کہ ’’ ایک طالبان ‘‘ کابل کے ہوائی اڈے کی حفاظت کرتے ہوئے۔
لیکن’’ ایک طالبان‘‘ کہنا درست نہیں ہے ۔دراصل طالبان جمع ہے طالب کی اور جمع میں ظاہر ہے کہ کوئی چیز ’’ایک ‘‘ نہیں ہوسکتی۔ یہ ’’طالبان ‘‘مدرسے کے طالب علم تھے جنھوں نے جدو جہد کا فیصلہ کیا ۔ فارسی میں الف اور نون (ان )جمع کی علامت کے طور پر آتے ہیں، جیسے دوست سے دوستان، درخت سے درختان، مرد سے مردان، زن سے زنان، وغیرہ۔ لہٰذا عربی لفظ ’’طالب ‘‘ کی جمع فارسی کے قاعدے سے الف اور نون کے اضافے سے’’ طالبان ‘‘ٹھہری۔گویا ایک طالب ہوگا اور زیادہ طالبان ہوں گے۔ خبر میں یوں لکھنا چاہیے تھا کہ ایک’’ طالب ‘‘ کابل کے ہوائی اڈے کی حفاظت کرتے ہوئے ۔
بے شک بعض غیر ملکی چینل انگریزی میں طالبان (Taliban)کو واحد کے طور پر استعمال کررہے ہیں مگر وہ دوسری زبانوں کے الفاظ انگریزی میں استعمال کرتے ہوئے بالعموم اس کی اصل کالحاظ نہیں کرتے اورانگریزی کے رواج کو دیکھتے ہیں ۔ لیکن بعض چینل ایسے بھی ہیں ( مثلاً بی بی سی)جو طالبان کو جمع کے صیغے میں برتتے ہیں ، جیسے ۱۸؍ اگست کو بی بی سی کی ایک رپورٹ کا عنوان تھا : Who are Taliban? ۔
اور ہم اردو والے چونکہ عربی اور فارسی سے قریب ہیں لہٰذا ہمیں لفظ کی اصل کا لحاظ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ان کالموں میں پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے، طالب عربی لفظ ہے اور اس کی جمع شاگردوں یا تلامذہ کے مفہوم میں طَلَبہ (طوے پر زبر اور لام پر بھی زبر) ہے اور طُلّاب (طوے پر پیش اور لام پر تشدید)بھی ہے۔ عربی میں ایک اور لفظ طلیب (یعنی طلب کرنے والا ) ہے۔ ا س طلیب کی جمع طُلَبا (طوے پر پیش اور لام پر زبر) ہے۔
بعض لوگ شاگرد یا student کے مفہوم میں بھی طلبا لکھتے ہیں اور طالب کی مونث یعنی طالبہ کی جمع طالِبات (لام کے نیچے زیر) بھی طلبا کے ساتھ لکھتے ہیں اور اکثر ’’طلبا و طالبات‘‘ کی ترکیب دیکھنے میں آتی ہے ۔ اگرچہ یہ غلط تو نہیں ہے لیکن لفظ ’’طلبہ ‘‘ یعنی شاگردوں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں کا مفہوم موجود ہے لہٰذا صرف طلبہ کہنے سے بھی مفہوم ادا ہوجاتا ہے۔
بہرحال ، مختصراً یہ کہ طالب واحد ہے اور اس کی جمع طَلَبہ ہے اور طلاب بھی ہے۔ طلیب واحد ہے اور اس کی جمع طُلَبا ۔شاگردوں کے مفہوم میں طلبہ کا لفظ استعمال کرنا بہتر ہے یا پھرطُلّا ب ۔لیکن اردو میں طلاب کا استعمال بہت کم ہے اگرچہ قیوم ملک صاحب کا کہنا ہے کہ عربی کی درسی کتابیں طلاب کا لفظ استعمال کرتی ہیں ۔نیز یہ کہ طالبان بھی جمع ہے طالب کی۔ اس لیے ’’ایک طالبان ‘‘کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
٭ذکریا نہیں زکریا
حضرت زکریا علیہ السلام کے نام میں ذال(ذ) نہیں زے (ز)ہے۔ انبیا کا نام لکھتے ہوئے بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ قرآن شریف میں بھی زکریا (یعنی زے سے ) لکھا ہے(مثلاً سورہ آل عمران، آیت ۳۷)۔
٭ذَخّار نہیں زَخّار
ایک اور لفظ جس میں زے (ز) ہے وہ ہے زَخّار۔ لیکن اسے بھی اکثر ذخار(یعنی ذال سے ) لکھ دیاجاتا ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں صاحب نے لکھاہے کہ زَخّار کے معنی ہیں امنڈتا ہوا یا چڑھا ہوا (دریا یا سمندر) اور اسی لیے اکثر ’’بحر ِ زخار‘‘ کی ترکیب نظر سے گزرتی ہے۔ لیکن اسے ذال سے نہیں لکھناچاہیے۔ یہ عربی لفظ ہے اور اس کا مادّہ ’’ز۔خ ۔ ر‘‘ ہے۔زخر (زے سے ) کے معنی ہیں (سمندر یا دریا میں) طغیانی ہونا ، پانی سے بھر جانا۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکھیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکھیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی