• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امن مذاکرات، امریکا کا انخلا، طالبان کی فتح (تیسری اور آخری قسط)

فروری 2019،امریکا طالبان امن مذاکرات میں پیش رفت 

دوحہ میں امریکا اور طالبان مذاکرات تک اپنی بلند ترین سطح پر داخل ہوگئے، جو 2018 کے آخر میں شروع ہوئے تھے۔ امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور اعلیٰ طالبان عہدیدار ملا عبدالغنی برادر کے درمیان مذاکرات میں امریکا کو افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر زور دیا۔ افغانستان نے طالبان کے بدلے میں بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکنے کا وعدہ کیا۔ 

اس سفارتکاری نے اس بات کا عندیہ دیا کہ صدر ٹرمپ سات ہزار فوجی نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو امریکا کی کل تعیناتی کا تقریبا نصف بنتا ہے۔ خلیل زاد نے کہا کہ امریکا اس بات پر اصرار کرے گا کہ طالبان ملک کے سیاسی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ جنگ بندی پر بین الافغان مذاکرات میں شرکت پر راضی ہوں۔لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ آیاٹرمپ ان شرائط پر فوج کے انخلا کو مشروط کرے گا یا نہیں۔

ستمبر 2019،ٹرمپ کا مذاکرات کی منسوخی کا اعلان

امریکا کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل زاد نے اعلان کیا کہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ اصولی طور پر ایک معاہدہ طے پا گیا ہے اس کے ایک ہفتے بعد صدر ٹرمپ نے اچانک امن مذاکرات کو توڑ دیا۔ ایک ٹویٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد کیمپ ڈیوڈ میں طالبان اور افغان صدر غنی سے خفیہ ملاقات منسوخ کر دی۔ طالبان نے کہا کہ وہ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن خبردار کیا کہ منسوخی سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔

فروری 2020،امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ امن 

امریکی ایلچی خلیل زاد اور طالبان کے برادر نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس سے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی نمایاں واپسی کی راہ ہموار ہوئی اور طالبان کی جانب سے اس بات کی ضمانت بھی شامل کی گئی کہ ملک کو دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ معاہدے میں کہا گیا کہ بین الافغان مذاکرات اگلے مہینے شروع ہونے چاہئیں لیکن افغان صدر غنی نے کہا کہ طالبان کو مذاکرات میں آنے سے پہلے اپنی حکومت کی شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔ امریکا طالبان معاہدے میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھااور دستخط کے بعد کے دنوں میں بھی ملک میں کئی حملے ہوئے ، خاص کر امریکی افواج نے جنوبی صوبے ہلمند میں طالبان کے خلاف فضائی حملے کئے۔

ستمبر 2020،بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز

بیس سال کی جنگ کے بعد پہلی بار دوحہ قطر میں آمنے سامنے بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز ہوا جس میں طالبان،افغان حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوںنے شرکت کی۔ان مذاکرات میں قیدیوں کے تبادلے کےبارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی اور امریکا کے پہلے طالبان معاہدے میں مہینوں کی تاخیرکا نوٹس لیا گیا۔ افغان حکومت نے پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا عندیہ دیا۔ دونوں فریقوں نے افغانستان میں امن قائم کرنے اور امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغان معاشرے کے لیے ایک فریم ورک قائم کرنے کا تہیہ کیا۔ حکومت نے جنگ بندی پر زور دیا جبکہ طالبان نے ملک میں اسلامی نظام کے ذریعے حکومت چلانے کے مطالبے کا اعادہ کیا۔

نومبر 2020،امریکا کا افغانستان سے فوج واپس بلانے کا اعلان

امریکا کے قائم مقام سیکریٹری دفاع کرسٹوفر سی ملر نے اعلان کیا کہ جنوری کے وسط تک افغانستان میں فوجیوں کی تعداد آدھی کر کے 2500 کر دی جائے گی۔ فروری میں طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بعد ہزاروں فوجی پہلے ہی نکال لیے تھے، صدر ٹرمپ کی مہم کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ کے لیے نام نہاد جنگیں ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار تھے اور عسکریت پسند گروپ نے مہلک حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے خبردار کیا کہ بہت جلد فوجیوں کا انخلا افغانستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ اور اسلامک اسٹیٹ کو اپنی خلافت کی تعمیر نو کے راستے ہموار کرسکتا ہے۔

اپریل 2021،بائیڈن کا 9/11 تک مکمل امریکی انخلا ء کا حتمی فیصلہ

صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکا یکم مئی تک تمام فوجیوں کو واپس بلانے کے لیے امریکا طالبان معاہدے کے تحت دی گئی ڈیڈ لائن پر پورا نہیں اترے گا ،اس کے بجائے اس نے 11 ستمبر 2021 تک مکمل انخلا کا منصوبہ جاری کیا۔ افغانستان میں بقیہ 3500 فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا ،چاہے بین الافغان امن مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہو یا طالبان نے افغان سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر اپنے حملوں کو کم کیا ہویا افغانستان میں نیٹو کے فوجی بھی نکل جائیں۔ بائیڈن نے کہا کہ واشنگٹن افغان سکیورٹی فورسز کی مدد جاری رکھے گا اور امن عمل کی حمایت کرے گا۔ طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی کانفرنس میں اس وقت تک شریک نہیں ہوں گے جب تک تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے نکل نہیں جاتے۔

طالبان کی برہمی

طالبان نے مزید حملوں کی دھمکی دی کیونکہ انخلا کی آخری تاریخ یکم مئی گزر گئی، جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی افواج افغانستان سے انخلا کریں گی۔ طالبان جنگجوؤں نے افغانستان کے دوسرے سب سے بڑے ڈیم اور اہم فوجی اڈوں پر قبضہ کر لیا جب ملک بھر میں شورش شدت اختیار کر گئی۔

12 جولائی2021

امریکی انخلاء 90 فیصد مکمل ہو گیا اور آخری امریکی فوجی اسی دن بگرام ایئر بیس سے نکل گئے جو گزشتہ 20 سالوں سے امریکی جنگ کا مرکزی نقطہ رہا، اسی دن جنرل ملر بھی افغانستان سے نکل گئے۔ اس کے علاوہ، امریکی فوج نے ملک سے بڑی تعداد میں سیکورٹی اور لاجسٹک فورسز اور امریکی ٹھیکیداروں کو بھی نکال لیا۔

یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیسے ہی امریکا بگرام سے باہر نکلا، امریکا بیس کے نئے افغان کمانڈر کو مطلع کیے بغیر وہاں سے چلا گیا، بجلی اچانک بند ہو گئی اور امریکیوں نے جاتے جاتے تقریبا، 16000 جنگی سازوسامان کو بھی سامان کو تباہ کردیا۔ بعد میں یہ واضح کیا گیا کہ امریکی فوجی رہنماؤں نے افغان حکومت کو حفاظت اور سیکورٹی کی پیش نظر انخلاء کے صحیح وقت سے آگاہ نہیں کیا۔

جرمنی اور اٹلی نے افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ امریکی فوجی بگرام ایئر فیلڈ سے نکل کر افغان مسلح افواج کے حوالے کر دیئے۔

ایک ہزار سے زائد افغان بارڈر گارڈز اور فوجی تاجکستان کے ساتھ ریاستی سرحد عبور کر کے طالبان فورسز سے فرار ہو گئے۔ تاجک حکام کے مطابق صوبہ بدخشان کی ہوہون شہری بزورگ اور روگسٹن کاؤنٹی طالبان کے قبضے میں آگئے۔ تاجک افواج نے پسپا ہونے والے افغان فوجیوں کو اپنے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

یکم تا تین اگست 2021

نیمروز کا دارالحکومت زرنج، علاقے میں شدید لڑائی کے بعد طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں آ گیا۔طالبان نے صوبہ جوزجان کے دارالحکومت شبرغان،صوبائی دارالحکومت سر پول قندوز اور تالقان پر قبضہ کر لیا ، ملک بھر میں لڑائی جاری رہی۔

طالبان جنگجوؤں نے صوبائی دارالحکومت ایبک پربھی قبضہ کر لیا۔ ان جنگجوؤں نے فرح اور پل خمر کے صوبائی دارالحکومتوں پر بھی قبضہ کر لیا۔

13تا 11 اگست2021

افغان حکومت نے آرمی چیف جنرل ولی محمد کی جگہ لی۔ صدر اشرف غنی نے مزار شریف کا دورہ کیا اور مقامی ازبک اور تاجک شخصیات سے بات چیت کی اور صوبہ بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد پر طالبان نے قبضہ کر لیا۔

طالبان نے صوبائی دارالحکومت غزنی پر قبضہ کر لیا۔ افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہرات بھی باغیوں کے قبضے میں آگیا۔ ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر قندھار بعد میں اس گروہ کے قبضے میں چلا گیا۔ صوبہ ہلمند کا دارالحکومت لشکر گا طالبان کے قبضے میں چلا گیا۔ 13 اگست تک طالبان نے 18 صوبائی دارالحکومتوں پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔

فن لینڈ ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ نے طالبان جنگجوؤں کی پیش قدمی کے درمیان اپنے قونصل خانے کے کارکنوں کو واپس بلانے کاوں کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ نے آپریشن پٹنگ کا اعلان کیا جس کا مقصد اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنا تھا۔

14اگست2021

صدر اشرف غنی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں۔ امریکا نے اعلان کیا کہ وہ افغانستان میں 3 ہزار فوجی تعینات کرے گا تاکہ ملک سے انخلاء کے عمل میں مدد مل سکے، مزید 5 ہزار فوجی بھی تعینات کیے جائیں گے۔

شمالی افغانستان میں طالبان مخالف آخری گڑھ مزار شریف پر طالبان نے قبضہ کر لیا جو کہ شمال میں افغان حکومت کے کنٹرول کے خاتمے کے قریب ہے۔ طالبان نے صوبائی دارالحکومت اسد آباد، گردیز، میمانہ، مہترلام، نیلی اور شرانہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ ملک کے آدھے سے زیادہ صوبوں پر باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

15اگست2021،’’سقوط کابل ‘‘ایک عظیم فتح

15 اگست کی صبح طالبان نے افغانستان کے بگرام ایئر فیلڈ پر قبضہ کر لیا جو امریکی طاقت کی علامت تھا۔ طالبان نے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا۔ چند گھنٹوں کے اندر طالبان تھوڑی مزاحمت کے ساتھ شہر کے مرکز میں داخل تھے۔ طالبان پہلے ہی دارالحکومت کابل میں داخل اور وہاں قبضہ کر چکے تھے۔ رات کے وقت، صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے ۔ طالبان کی افغانستان میں دوبارہ فتح مکمل ہوچکی تھی۔

بالآخر دو دہائیوں کی جنگ جس میں6000سے زائد امریکی جانیں ضائع ہوئیں 200000 سے زیادہ افغان ہلاک ہوئے اور 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ امریکی وسائل خرچ ہوئے، اس کے باوجود طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر کے دنیا کو حیران کردیا۔ امریکی دفاعی حکام نے مبینہ طور پر توقع ظاہر کی تھی کہ افغانستان کا دارالحکومت کابل تقریبا 90 دنوں میں مفتوح ہوجائے گالیکن اس میں 10 دن سے بھی کم وقت لگا۔

طالبان کی اس تاریخی و عظیم فتح کی اہم وجوہات میں انٹیلی جنس کی ناکامی، طالبان زیادہ طاقتور ، کرپشن، پیسہ، ثقافتی اختلافات اور قوت ارادی شامل ہیں۔

یہاں اس بات کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے کہ اس طویل جنگ نے نا صرف افغانستان کو بلکہ خطے کے تمام ممالک کو متاثر کیا، خصوصاً پاکستان اس کی شدیدلپیٹ میں آیا ، جس کے مضراثرات سے تاحال پاکستان نہیں نکل سکا۔ پاکستان جس نے گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کی ہر محاذ پر ہر ممکن طرح امداد کی ہے، خصوصا افغان مہا جرین کی مہمان نوازی و آباد کاری کے ساتھ ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ بڑی جانی و مالی قربانیاں دیں، دہشت گردی جیسے عفریت کا سامنا کیاجس کا پاکستان دشمن قوتوں خاص کر بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا اور ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت،انتشار، بد امنی و عدم استحکام پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ امریکا نے 2.66 ٹریلین ڈالر کا بجٹ اس جنگ میں جھونک ڈالا جیسا کہ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ اوورسیز کنٹنجنسی وار بجٹ933 بلین ڈالر، ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ بیس وار بجٹ433 بلین ڈالر، افغان جنگ کے لیے ویٹرنز کیئر296 بلین ڈالر،اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جنگ کا بجٹ59 بلین ڈالر۔ جنگی ادھار پر طے شدہ سود 430 بلین ڈالر ہے ۔ان اعداد و شمارمیں مستقبل کی سود کی ادائیگیوں اور ان مستقبل کے اخراجات کو شامل نہیں کیا گیا جو جنگ میں شریک فوجیوں کی دیکھ بھال پر کئے جائیں گے۔

دو ٹریلین ڈالر سے ز ائد پھیلنے والا یہ بہت بڑا بجٹ دنیا کے تقریبا 180 ممالک کے بجٹ سے زیادہ ہے جن میں 54 افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اتنے بڑے فنانس سے دنیا کے پسماندہ حصوں میں بھوک اور غربت ختم کی جاسکتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ محروم اور پسماندہ علاقوں میں سڑکوں، پلوں، ہسپتالوں اسکولوں، ڈیموں، ایمرجنسی وسائل وٖغیرہ جیسے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا اس سے محرومیوں ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے بدقسمت انسانوں کی دکھی زندگی کے معیار اور مقدار دونوں کو بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ مزید برآں نفرت،غصہ، افسردگی، جرائم اور دہشت گردی کے راستے ہموار کرنے والے عناصر، ان ضائع شدہ وسائل سے کم ہو سکتے تھے۔

اس جنگ نے امریکا کو نہ صرف مالی قرضوں میں گھسیٹا بلکہ اس نے زندگی بھر کی مستقل معذوریوں، خوف، آنسوؤں اور انسانیت کی تکالیف کو بھی بلند ترین شرح سود پر خریدا ہے جو کسی بھی صورت ادا نہیں کیا جا سکتا۔

خطے کی اس جنگ میں تقریباستر ہزار سے زائد پاکستانی مارے جا چکے ہیں جن میں فورسز اور بے گناہ شہری شامل ہیں، بہت سے صحافی، میڈیا ورکرز، اور فلاحی کارکن بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو نقصانات 150 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جبکہ امریکا نے صرف 20 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی۔

طالبان اور آنے والی افغان حکومت کو پاکستان کی ان کاوشوں اور قربانیوں کا احساس کرنا چاہے کہ ماضی کے برعکس افغانستان کی زبان و زمین دونوں پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہوں۔ افغان حکومت کو اس بارے میں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت رہے گی، تا کہ مضبوط سفارتی و تجارتی ،معاشی و معاشرتی، سیاسی و سماجی روابط استوارو برقرار رہیں۔

ان نقصانات کے علاوہ، پناہ گزینوں کے بحران، غیر قانونی ہتھیاروں، منشیات، ہتھیاروں ،انسانی اسمگلنگ اورپاکستان کور دہشت گردوں کی دراندازی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر بلوچستان، پنجاب اور سندھ میں سرحدوں کی سیکورٹی کے لیے خاص طور پر افغان بارڈر کے لیے وسیع توسیع۔ امریکا کی ایک اہم جغرافیائی سیاسی اتحادی کے طور پر، امریکہ-افغان جنگ کی گزشتہ دو اہم دہائیوں کے دوران سب پاکستان کے سماجی و معاشی سیاسی نظام پر سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ حیف کہ امریکا نے پاکستان اور اس کے وسائل کو ٹوائلٹ پیپر کی طرح استعمال کیا اور بدلے میں پاکستان ہمیشہ الزامات کی بوچھاڑاور بد اعتمادی کی زد میں رہا۔

اب جب کہ طالبان نے افغانستان پر 20 سال بعد دوبارہ تقریباً مکمل غلبہ و کنٹرول حاصل کر لیا ہے، زمینی ،سیاسی ،معاشی، معاشرتی، سماجی و عالمی حالات و واقعات وہ نہیں ہیں جو20 سال قبل تھے۔ طالبان کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان کی یہ جدوجہد جبرو استبداد،غیر ملکی سامراجی، طاغوتی، استحصالی قوتوں کے خلاف ایک عظیم و قابل فخر کارنامہ ہے۔

طالبان میں سیاسی پختگی و بالیدگی نظر آرہی ہے اور ان کی باڈی لینگوئج دنیا کے ساتھ مل کر چلنے،خطے میں امن و امان کے قیام، اقتصادی تعلیمی، معاشی،معاشرتی و سماجی ترقی کی خواہش،خواتین و انسانی حقوق کی پاسداری اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصول پر کاربند ہونا ظاہر کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی سر زمین کو کسی دہشت گرد تنظیم یا کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کی ضمانت دینا خوش آئین اقدام ہیں۔

اس وقت طالبان اور افغانستان کو خطے کی بحالی کے لئے جو کہ تقریباچار دہائیوں سے بدترین ظلم و ستم، معاشی و معاشرتی بد امنی،غربت و افلاس، خوف وہراس ، جابر و استبدادی قوتوں کے زیر اثر رہا ہے، کو معاشی معاشرتی اخلاقی سیاسی و سفارتی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان، چین ،روس، ایران، وسط ایشیائی ریاستوں اور علاوہ ازیں مسلم امہ کو بڑھ چڑھ کرسامنے آنا چاہیئے ،تاکہ ایک پرانے دردوقرب میں مبتلا ملک و قوم کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے اسے امن ترقی و استحکام کے راستے پر گامزن کرانے میں مؤثر کردار ادا کریں۔

یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ طالبان نے افغانستان میں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے قومی حکومت کے قیام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور دھڑوں سے مذاکرات شروع کر دئیے ہیں جس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل ہیں جو کہ جلد ایک مضبوط و مستحکم حکومت تشکیل دیں گے جو کہ افغانستان کو اپنا کھویا ہوا مقام دلانے اوردہائیوں کی نا انصافیوں و محرومیوں کے ازالے میں اپنا مؤثرکردار نبھائیں گے۔

عالمی طاقتوں کو اس بات کا فہم و ادراک کر لینا چاہیے کہ وہ کسی بھی ملک کی سالمیت و اقدار، حقوق و حدود کا احترام کریں اور دہشت گردی یا کسی واقعہ کی آڑ میں کسی بھی قسم کی جارحیت،مہم جوئی سے مکمل اجتناب کریں۔ اس کے علاوہ نہ ہی کسی ملک وقوم کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری دراندازی کریں۔ یہ اقدامات تمام اقوام کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔

طالبان کا اقتدار میں آنا اس بات کا بھی عملی ثبوت ہے کہ طاقت کااصل سر چشمہ عوام ہیں نہ کہ ان پر مسلط کیے جانے والے عارضی و بناوٹی حکمران اور نہ ہی کوئی بیرونی عناصر عوام کو اقتدار سے مستقل دور رکھ سکتے ہیں۔

افسوس! ہزاروں انسانوں کے چیتھرے اڑانے ،کھربوں ڈالروں کو دہشت،نفرت، انتشار و بدامنی پھیلانے،لاکھوں گھروں کو ویران، عورتوں کو بیوگی، بچوں کو یتیمی ،بے سہارگی و معذری کا تحفہ دیتے تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا خاموشی سے منظر عام سے غائب ہوگیا۔ گڈ بائے ---انکل سام،گڈ بائے ۔

تازہ ترین