وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر سے صحافی نے کہا کہ آپ نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر وزارت چھوڑنے کی بات کی تھی جس پر اسد عمر نے انکار کر دیا۔
اسلام آباد میں وزیرِ منصوبہ بندی اسد عمر نے میڈیا سے گفتگو کی، اس دوران ان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تومیں وزیر نہیں رہوں گا۔
اسد عمر نے جواب دیا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔
صحافی نے سوال کیا کہ کیا ڈالر کی قیمت کم کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے مداخلت کی ہے؟
وفاقی وزیر اسد عمر نے جواب دیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا آخری نکتہ ایکس چینج ریٹ مینجمنٹ تھا، اس معاہدے کے تحت ڈالر کی قدر میں مارکیٹ کے مطابق اتار چڑھاؤ آنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ ایکس چینج ریٹ کو فری فلوٹ ہونا چاہیئے، ہم نے کہا کہ پاکستان میں اسپن ٹریڈ اور مارکیٹ مینوپلیشن بھی ہو سکتی ہے۔
اسد عمر کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کرنسی کمزور ہوتی ہے تو اسٹیٹ بینک کو مداخلت کرنی چاہیئے، اسٹیٹ بینک کی جانب سے مداخلت کی ویلیو کی معلومات میرے پاس نہیں ہیں۔
اس سے قبل سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے اجلاس میں اسد عمر نے کہا کہ سی پیک کے زیادہ تر منصوبے بجلی کے لگے جو پورے پاکستان کو جاتی ہے۔
انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ہم جنوبی بلوچستان کی ترقی پر 560 ارب روپے خرچ کر رہے ہیں، بلوچستان میں تعلیم اور آئی ٹی کے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ آئندہ سال کے ترقیاتی بجٹ میں منصوبہ لانے کے لیے 31 مارچ کی تاریخ مقرر کی ہے، 31 مارچ کے بعد کوئی ترقیاتی منصوبہ قومی اقتصادی کونسل کو نہیں جائے گا۔
اس موقع پر طاہر بزنجو نے کہا کہ بلوچستان میں ہائی وے بنا کر اسے موٹر وے کا نام دے دیا جاتا ہے۔
جس پر اسد عمر نے جواب دیا کہ کراچی تا چمن موٹر وے کی منظوری ہو چکی ہے جو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے بنے گی۔
وفاقی وزیر نے کمیٹی کو یہ بھی بتایا کہ ایران سے اضافی بجلی درآمد کی منظوری ہوئی جسے گوادر نیشنل گرڈ سے منسلک کریں گے۔