پاکستانی ادب کی تاریخ میں ایسے شاعر بھی ہیں، جو بیک وقت نثر نگاری، صحافت اور دوسرے علمی شعبوں میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں اور جن کی تحریروں کا دائرہ اثر بہت وسیع ہوتا ہے۔ ایس ہی شعرا ء میں ایک نمایاں نام’’ رئیس امروہوی‘‘ کا بھی ہے، جو اپنی شخصیت اور فن کے کئی دلکش اور منفرد زاویوں کے سبب اردو ادب کی تاریخ میں ایک روشن سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کا اصل نام سید محمد مہدی تھا ان کے والد شفیق حسن ایلیا ،فلسفہ، منطق، نجوم ،فلکیات اور بحرانی زبان و ادب کے جید عالم تھے۔ رئیس امرہوی کے تین بھائی سید محمد تقی، محمد عباس ،اور جون ایلیا تھے۔ رئیس امروہوی نے روزنامہ جنگ ’’میں چالیس برسوں سے زائد مدت تک قطعہ نگاری کی۔
ان کے روزانہ چھپنے والے قطعات آج کے قطعہ نگاروں کی طرح محض تک بندی نہیں ہوتے تھے۔ ان کا ہر قطعہ رعایت لفظی، نکتہ آفرینی اور ایک لطیف طنز سے سجا ہوا ہوتا تھا۔ ان کے قطعات کئی ضخیم جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں، جنہیں پڑھ کر قاری پاکستان کی سماجی اور سیاسی تاریخ سے مکمل آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔ وہ روزنامہ ’’جنگ ‘‘میں ہفتہ وار کالم بھی لکھا کرتے تھے جو نفسیات اور نفسایتی مسائل کے موضوع پر ہوتے تھے۔
ان کا ایک بڑا وصف ان کی قادر الکلامی تھی، وہ فی الفور شعر کہنے میں اتنی مہارت رکھتے تھے کہ ان کیلئے منظوم گفتگو کرنا بھی کوئی مشکل نہ تھا۔ اس فن میں صرف مولانا ظفر علی خان اور راغب مراد آبادی ہی ان کے حریف ہو سکتے تھے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران آغا ناصر کا فون ریڈیو پاکستان سے پاس آیا اور ان سے لاہور کے حوالے سے ایک قومی نغمہ لکھنے کی درخواست کی،جو انہوں نے آغا ناصر کو اسی وقت ٹیلی فون پر ہی چند منٹوں میں لکھوا دیا۔ وہ نغمہ تھا خطہ لاہور تیرے جان نثاروں کو سلام ۔
رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں ’’الف‘‘ ، ’’ پس غبار‘‘ ، ’’آثار ‘‘ حکایت نے ’’نجم السحر ‘‘ بحضرت یزداں ‘‘اور ’’ملبوس بہار ‘‘ شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں ان کا کلاسیکی ادب کا مطالعہ جھلکتا ہے۔ وہ اردو اور فارسی شاعری کی روایتی اقدار سے جڑے ہوئے قلمکار تھے۔ اس کے باوجود جدید علوم سے آگہی کے سبب ان کی شاعری خصوصاً غزل میں جدید تر جہان معنی اور ایک نیا کاٹ دار شعری اسلوب روایت کے تہوں کو توڑ کر سر ابھارتا نظر آتا ہے۔ان کی نظموں پر اختر شیرانی اور جوش کا اثر بھی نظر آتا ہے۔ لیکن جہاں انہوں نے فکری موضوعات اور پراسراریت کو ملا کر کوئی نئی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے وہاں ان کی نظمیں بہت منفرد اور حیرت زدہ کر دینے والی ہیں۔
جیسے رات آئے تھے میری خلوت میں/ آدمی زاد قبل آدمی ۔ یا ہندی لہجے کی نظم بھوک اُگی ہے بھوک/کوک ری کوئل کوک، وغیرہ۔ان کی قطعہ نگاری کی مقبولیت کی وجہ سے ان کی شاعری کے بہت بڑے حصے پر قاری اور ناقد کی نظریں نہیں پہنچیں۔ وہ ایک غیر معمولی اور بڑے شاعر تھے۔ ان کی شاعری حسن اور تاثیر سے خالی نہیں ہے۔بحیثیت ماہر نفسیات ان کی کارکردگی اور امیج نے بھی ان کی شاعری کے اصل محاسن کو سامنے نہ آنے دیا۔ انہوں نے پیرا سائیکالوجی پر جو کتابیں لکھیں ان میں توجہات ،عالم ارواح ، جنات، حاضرات ارواح، جنسیات ،لے سانس بھی آہستہ ، عجائب نفس، نفسیات و مابعد النفسیات ،ہپنا ٹزم ،مراقبہ اور اسرار ہمزاد، مذہبی حوالے سے ان کی کتا ب ’’انا من الحسینؑ ‘‘ اور شگفتہ نثر کے حوالے سے ان کی کتاب ’’اچھے مرزا ‘‘ کو بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔
1956میں انہوں نے ایک طویل مثنوی ’’لالہ صحرا ‘‘ بھی لکھی تھی۔ ان کی ایک اور دلچسپ کتاب ’’مینا کماری ‘‘میری بھابھی ‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ جس کے راوی رئیس امروہوی اور محرر امیر حسین چمن ہیں۔رئیس امروہوی نے دو کتابوں کے ترجمے بھی کئے ہیں۔ جی الانہ کی انگریزی تصنیف کا ترجمہ ’’ قائد اعظم جناح ایک قوم کی سرگزشت ‘‘ کے نام سے کیا جو بہت رواں سلیس اور بہترین اردو ترجمہ ہے۔ دوسرا ترجمہ ہندوئوں کی مذہبی کتاب ’’بھگود گیتا‘‘ کا کیا۔ لیکن وہ اسے مکمل نہیں کرسکے۔
رئیس امروہوی ایک ملنسار، خلیق، بامروت، مہذب اور انسانوں سے محبت کرنے والے شخص تھے۔ ہمیشہ کرتا پائجامہ اور شیروانی زیب تن کرتے۔ رات کو بھی سیاہ چشمہ لگاتے جس سے ان کی شخصیت میں ایک طرح کی پراسراریت پیدا ہوجاتی۔ آوازمیں دلکشی اور بھاری پن تھا۔ ہمیشہ تحت اللفظ میں اشعار پڑھتے۔ہر شام ان کے گھر کے لان پر اہل علم و ادب اور سیاست دانوں، دانشوروں کی محفل سجتی ،جن میں بڑے بڑے علماء اور دانشور شریک ہوتے۔
نوجوان ادیبوں شاعروں کی آمد پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی۔ نصیر ترابی، اسد محمد خاں، عبید اللہ علیم، ذکا الرحمٰن، مصور فرہنگ قمر، شکیل عادل زادہ، انور شعور نوجوان اہل قلم اور اہل دانش کی حیثیت ان صحبتوں کی زینت ہوتے۔ اور نہ جانے کتنے فلسفی، ادیب، صوفی، اساتذہ شعراء اور اہل علم یہاں آتے رہتے۔
رئیس امروہوی ایک دبستان، ایک انجمن تھے۔ ان کا گھر ایک ہائیڈ پارک تھا جہاں ہر شخص کو کامل اظہار رائے کی آزادی تھی۔
22؍ستمبر 1988ء کو ایک سفاک جنونی نے ہم سے یہ گوہر نایاب چھین لیا۔ اور ایک ایسے قیمتی انسان کی زندگی کے چراغ کو گل کردیا جو ہر انسان کے لئے سراپا شفقت و محبت تھا۔ جو انسانیت کا نقیب اور دردمند شاعر تھا۔ شاید زوال آمادہ معاشرے اپنے محسنوں اور اہل علم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتے ہوں۔؎
جہاں معبود ٹھہرایا گیا ہوں
وہیں سولی پہ لٹکایا گیا ہوں