• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعہ کے دن صدارتی انتخابات کے حوالے سے ایک اہم سیاسی ڈولپمنٹ ہوئی جس کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں (ن) لیگ کا ایک وفد (ن) لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کے ہمراہ ایم کیو ایم کے سیکریٹریٹ نائن زیرو کراچی پہنچا جہاں دونوں وفود کی ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد جس کے دوران اطلاعات کے مطابق لندن سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر بات کی‘ اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے (ن) لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کی غیر مشروط حمایت کی جس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘ اس گفتگو کے دوران اسحاق ڈار نے ایک انتہائی اہم فقرہ بھی کہا کہ جو سوچ اور پالیسیاں میاں نواز شریف کی ہیں وہ سوچ اور پالیسیاں ایم کیوایم کی بھی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اسحاق ڈار سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اپنے بھائی بھی کہا۔ سیاست میں کسی بھی دو سیاسی پارٹیوں کے قریب آنے کو عمومی طور پر ایک نیک شگون سمجھنا چاہئے مگر ماضی میں (ن) لیگ اور ایم کیو ایم کے ایک سے زیادہ بار ایک دوسرے کے قریب آنے اور پھر ایک دوسرے سے دور ہونے کے پس منظر میں کچھ سیاسی حلقے اس ڈولپمنٹ کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں‘ اسے ”(ن) لیگ اور ایم کیو ایم کا نیا سیاسی رومانس“ کہا جارہا ہے۔ بہرحال سیاسی حلقوں نے اس بات کو بھی نوٹ کیا کہ جب (ن) لیگ کا وفد نائن زیرو آیا تو ان کے ساتھ وفد میں سید غوث علی شاہ‘ ممتاز بھٹو‘ لیاقت جتوئی اور (ن) لیگ کا کوئی اہم سندھی رہنما تو ساتھ نہیں تھا مگر (ن) لیگ کے پختون ایم پی اے عرفان اللہ مروت بھی غائب تھے۔ دریں اثناء میڈیا کی طرف سے یہ بھی اطلاعات ہیں کہ (ن) لیگ اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والے رابطوں میں یہ بھی طے پایا ہے کہ ایم کیو ایم وفاقی کابینہ میں بھی شریک ہوگی اور ڈاکٹر عشرت العباد ہی سندھ کے گورنر رہیں گے حالانکہ ابھی ان اطلاعات کی رسمی طور پر (ن) لیگ اور ایم کیو ایم کی طرف سے توثیق کا انتظار ہے۔ اس مرحلے پر اکثر سیاسی حلقے سوال کررہے ہیں کہ (ن) لیگ اور ایم کیو ایم وفود کے مذاکرات کے درمیان ایم کیو ایم نے کیا شرائط رکھیں اور (ن) لیگ نے کون سی شرائط تسلیم کیں۔ یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ (ن) لیگ نے ایم کیو ایم کی جو بھی شرائط مانی ہیں وہ سب کی سب میڈیا کے ذریعے ظاہر کی جائیں گی یا سب یا کچھ خفیہ رکھی جائیں گی جس طرح گذشتہ دور حکومت میں پی پی اور ایم کیو ایم مذاکرات کے دوران کیا جاتا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اصل پروگرام کے تحت (ن) لیگ کے وفد کو کراچی کے دورے کے دوران فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پاگارو کی رہائش گاہ پر جاکر ان سے ملنا تھا اور پیر پاگارو ان کے اور فنکشنل کے ایم پی ایز کے اعزاز میں ایک افطار پارٹی بھی دے رہے تھے مگر پہلے دن تو (ن) لیگ وفد نہیں آیا اور کہا گیا کہ وہ دوسرے دن ان سے ملنے آئیں گے جب وہ نائن زیرو گئے تھے مگر اطلاعات کے مطابق پیر پگارا نے کچھ وجوہات کی بناء پر دوسرے دن یہ استقبالیہ منسوخ کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پیر پگارا کو افسوس ہوا کہ فنکشنل ان کی اتحادی پارٹی ہوتے ہوئے نائن زیرو جانے کے لئے ان سے مشورہ تک نہیں کیا گیا۔ فنکشنل لیگ کے ایک رہنما نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح (ن) لیگ کے وفد نے فنکشنل لیگ یا دوسرے سندھی قوم پرست اتحادیوں کو مکمل نظر انداز کرکے نائن زیرو کی یاترا کی ہے یہ سن کر ان کی طبیعت شدید خراب ہوگئی ہے اور فنکشنل لیگ کو (ن) لیگ کی طرف سے اس طرح نظر انداز کرنے پر وہ خود بہت شرمندہ ہیں۔ دریں اثناء اکثر قوم پرست سیاسی رہنماؤں نے قوم پرست رہنماؤں کو نظر انداز کرکے نائن زیرو کی یاترا کے بارے میں شدید ردعمل ظاہر کیا ہے جن میں خاص طور پر کامریڈ جام ساقی‘ ایس ٹی پی کے ترجمان حیدر ملاح‘ عوامی جمہوری پارٹی کے سربراہ ابرار قاضی اور کمیونسٹ پارٹی کے امداد قاضی خاص طور پر شامل ہیں۔ انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ (ن) لیگ وفد کی طرف سے نائن زیرو کی یاترا کرنے کے نتیجے میں شاید مسلم لیگ قیادت لندن میں اے پی ڈی ایم بنتے وقت کئے گئے وعدوں سے پھرگئی ہے‘ بہرحال ایس یو پی جس کے سربراہ سید جلال محمود شاہ ہے کہ مرکزی رہنما روشن برڑو نے ایک اخباری بیان کے ذریعے (ن) لیگ کی نائن زیرو یاترا کی مخالفت کرنے سے احتراز کیا ہے اور (ن) لیگ کے موقف کی بلواسطہ حمایت کی ہے‘ مگر قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کا اس سلسلے میں کوئی موقف یہ کالم لکھتے وقت میڈیا میں نہیں آیا۔ دریں اثناء صدارتی انتخابات کے بائیکاٹ کرتے وقت جمعہ کے دن پی پی رہنماؤں کی طرف سے کی گئی پریس کانفرنس کے دوران پی پی کے صدارتی امیدوار رضا ربانی جو اب دستبردار ہوچکے ہیں کے ان دو بیانات کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے جن میں انہوں نے کہاکہ ان کا یہ بائیکاٹ درحقیقت تین اداروں کے یکمشت ہونے کے خلاف ہے‘ شاید ان کا ان تین اداروں کے حوالے سے اشارہ نواز شریف حکومت‘ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ ہے‘ انہوں نے دوسری اہم بات یہ کی کہ یہ بائیکاٹ کھیل کا اختتام نہیں مگر یہاں سے کھیل کی ابتداء ہوگی۔ سیاسی حلقے اس بیان کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں دوسری طرف ملک کے مختلف علاقوں سے آنے والی اطلاعات کے مطابق رضا ربانی اور بیرسٹر اعتزاز احسن کے اس فیصلے سے ملک بھر میں پی پی کے مردہ جسم میں نئی جان پڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک یہ رائے ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر میاں رضا ربانی اور بیرسٹر اعتزاز احسن اسی طرح سرگری سے پارٹی کی قیادت کرتے ہیں تو پی پی ایک نئے رنگ اور ڈھنگ میں عوامی پارٹی کے طور پر سامنے آسکتی ہے اور ان سارے اداروں کوللکار سکتی ہے جو ان کے خیال میں بلواسطہ طور پر یا بلاواسطہ طور پر عوامی قوتوں کو کمزور کرکے منتشر کرنا چاہتے ہیں۔
نواز شریف کا پسماندہ علاقوں کے لئے تحفہ :
جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے اس فیصلے کو پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے عوام ان کے لئے نواز شریف کی طرف سے عید کاتحفہ قراردے رہے ہیں جس کے مطابق وفاقی ملازمتوں میں موجودہ صوبائی کوٹہ کی معیاد 14اگست 2013ء سے مزید 20سال بڑھادی گئی ہے حقیقت یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 27کی شق (1)کے تحت وفاقی ملازمتوں میں صوبائی کوٹہ کی مدت 13اگست 2013ء کو ختم ہورہی ہے تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں انتخابات ہوئے ہیں اورحال ہی میں پی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے وزیراعظم کا حلف اٹھایاتھا ابھی تو کئی لوگوں کو اس بات کاعلم بھی نہیں ہواہوگا کہ وفاقی ملازمتوں میں صوبائی کوٹہ میں توسیع شدہ مدت 13اگست 2013ء کو ختم ہورہی ہے لہذا اس سلسلے میں ابھی کہیں سے کوئی بھی مطالبہ نہیں ہواتھا مگر لاشک یہ کریڈٹ نواز شریف کو ہی جاتاہے کہ انہوں نے کسی طرف سے مطالبہ ہونے کاانتظار کئے بغیر خود ہی اس سلسلے میں پہل کی اورمتعلقہ حکام کو ہدایات جاری کیں کہ اس سلسلے میں سارے صوبوں سے اس سلسلے میں بامعنی تجاویز حاصل کی جائیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں حکومت پاکستان کی صوبائی رابطے کی وزارت نے سارے صوبوں کو ایک مراسلے کے ذریعے تجویز پیش کی تھی کہ صوبوں کے پسماندہ علاقوں کے مفادات کاتحفظ کرنے کے لئے تاکہ ملازمتوں میں ان کے ساتھ امتیاز نہ برتاجائے یہ ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 27کی شق (1)کے تحت صوبائی کوٹہ میں مزید 20سال کی توسیع کی جائے ۔خیال ہے کہ صوبوں نے اپنے جوابی مراسلوں میں وفاقی وزارت صوبائی رابطہ کی طرف سے تجویز کردہ اس ترمیم کی حمایت کی لہذا جمعرات کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس تجویز اور اسی سلسلے میں صوبوں سے موصول ہونے والے مراسلوں کی روشنی میں اس تجویز کو منظورکرلیا اورفیصلہ کیا کہ وفاقی ملازمتوں میں صوبائی کوٹہ میں مزید 20سال کے لئے توسیع کی جاتی ہے اب حکومت کو اس سلسلے میں آئین میں مطلوبہ ترمیم کے لئے ترمیمی بل پارلیمنٹ سے منظور کراناہے ۔چونکہ حکمران پارٹی نے خود اس آئینی ترمیم کی تجویز پیش کی اورخیال ہے کہ سارے صوبوں نے اس ترمیم کی توثیق کی ہے لہذا خیال ہے کہ یہ آئینی ترمیم دوتھائی اکثریت سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منطورہوجائے گی۔ دریں اثناء کچھ سیاسی حلقوں نے اس ترمیم کی سخت مخالفت کی اورایسی ترمیم کو غیراسلامی قرار دیدیا ۔اس سلسلے میں سندھی کے ایک ممتاز روزنامے نے جمعہ کے دن اس سلسلے میں بڑے دلچسپ تفصیلات ظاہر کئے ہیں ۔ان تفصیلات کے مطابق پاکستان میں وفاقی ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم سب سے پہلے 1948ء میں متعارف کیاگیا جب پاکستان کے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان تھے اس سلسلے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کوٹہ سسٹم کے تحت جوایک نوٹیفکیشن کے ذریعے نافذ کیاگیا ‘ملازمتوں میں15فیصد ان کے لئے مخصوص کیاگیاجن کے پاس اس وقت پاکستان کاڈومیسائل نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان میں بنگالیوں کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 56فیصد تھی مگر وفاقی ملازمتوں میں ان کے لئے 42فیصد مخصوص کیاگیا ۔جبکہ 27فیصد آبادی والے پنجاب اور بہاولپور ریاست کے لئے کوٹہ 24فیصد‘ ایک فیصد آبادی والے شہر کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرکے اس کے لئے ملازمتوں میں دوفیصد جبکہ بشمول ریاست خیرپور سندھ صوبے‘ بلوچستان ‘خیبرپختونخواہ ‘گلگت‘ بلتستان اورفاٹا کوملاکے ایک بلاک قراردیکر ان کے لئے وفاقی ملازمتوں کے لئے 17فیصد کا کوٹہ مقررکردیاگیا ۔کہاجاتاہے کہ ون یونٹ کے دور میں وفاقی ملازمتوں میں کوٹہ ڈویژنوں کی بنیاد پے تھی ۔جسے بعد میں سندھ کے اس وقت کے پختون گورنر جنرل رخمان گل نے صوبوں کی بنیاد پر کروائی جسے بعد میں1973ء کے آئین میں جب ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے نے آئینی تحفظ فراہم کیا۔
تازہ ترین