• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تو ان کی عمر 43برس، گیارہ ماہ اور پندرہ روز تھی۔ 1971کے بحران کا تجزیہ مطلوب نہیں لیکن یہ واضح ہے کہ ملکی حالات غیرمعمولی طور پر ابتر تھے۔ ایک شکست خوردہ قوم جس کی سیاسی بنیادیں کھودی جا چکی تھیں، جو پیوستہ مفادات کے لئے تقسیم در تقسیم کی آزمائش سے دوچار تھی۔ جو برس ہا برس تک بے خبری کے اندھیرے میں رکھے جانے کے سبب خود پر اعتماد کھو بیٹھی تھی۔ ایک قوم جس کی عالمی ساکھ پاتال میں گر چکی تھی۔ خود بھٹو صاحب کے اقتدار پر بہت سے سوالیہ نشان تھے۔ بھٹو صاحب کی تاریخ پر گرفت، انتظامی اہلیت اور سیاسی ذکاوت تو مسلمہ تھی لیکن ان کی ذہنی توانائی کا بھی جواب نہیں تھا۔ اکثر کہتے تھے کہ میں 18 گھنٹے کام کرتا ہوں۔ بھٹو صاحب کے پریس سیکرٹری خالد حسن کی بذلہ سنجی ضرب المثل تھی۔ ایک روز فرمایا کہ مجھے پاکستان کا صدر بنا دیا جائے تو میں سوا اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ خالد حسن کا اصل اشارہ یہ تھا کہ قومیں فرد کی غیرمعمولی صلاحیت اور مشقت کی بجائے ادارہ جاتی بندوبست کے بل پر استحکام پاتی ہیں۔ بھٹو صاحب کی خود اعتمادی میں اختیارات کے ارتکاز کا رجحان بھی پایا جاتا تھا۔ رہنما کی نفسیات میں یہ اجزا ناگزیر طور پر خوشامد اور سازش کے نسخے میں ڈھل جاتے ہیں۔ فائلیں پڑھ پڑھ کے بھٹو صاحب کے بال سفید ہو گئے مگر انہیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ غلام جیلانی خان، سعید احمد خان، کوثر نیازی اور مسعود محمود جیسے کردار ان کے گرد سازش، بدعنوانی اور سیاسی غلطیوں کا کیسا جال بن رہے ہیں۔ ضیا آمریت کے زنداں میں بیٹھ کر بھٹو صاحب نے لکھا کہ ترقی پذیر ممالک میں غیر ملکی اثر و نفوذ ریاست کے داخلی پیوستہ مفادات کے ذریعے نقب لگاتا ہے۔ اپنے ساتھیوں، جمہوری قوتوں اور صحافت کو بے دست و پا کر کے بھٹو صاحب نے خود ہی ان پیوستہ مفادات کو راستہ دیا تھا۔ بھٹو شہید پر تنقید مقصود نہیں، تاریخ کے قرض کی ادائی تو کرنا پڑتی ہے۔ آئیے آپ کو ایک کسی قدر غیر معروف شخصیت سے ملاتے ہیں۔

انقلاب اکتوبر کے بعد روس میں کمیونسٹ پارٹی ہی ترقی کا زینہ تھی چنانچہ سرکاری کامریڈوں کی اچھی فصل اٹھی۔ ان میں الیکساندر شرباکوف نام کے ایک صاحب بھی تھے۔1901میں پیدا ہونے والے شرباکوف 1941میں طاقت کے کن زینوں تک پہنچ چکے تھے اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ موصوف بیک وقت ماسکو پارٹی کے فرسٹ سیکرٹری تھے۔ پولٹ بیورو کے امیدوار رکن تھے۔ مسلح افواج کی سیاسی انتظام کاری کے مرکزی سربراہ تھے۔ جنگی اطلاعات کے شعبے کے سربراہ تھے۔ گویا سوویت یونین کے طاقتور ترین افراد میں سے تھے۔ بلا نوش نہیں تھے لیکن اسٹالن کو وہ رفقا پسند تھے جو ان کی رات گئے مجلسوں میں دھت ہو کر مارشل اسٹالن کی دل بستگی کا سامان بنیں۔ چنانچہ یہ ذمہ داری بھی تندہی سے نبھاتے تھے۔ نہایت فربہ اندام اور سخت گیر منتظم تھے۔ ان بے پناہ ذمہ داریوں کے بوجھ تلے 9 مئی 1945کو 44 برس کی عمر میں عین اس روز انتقال کر گئے، جس روز عالمی جنگ میں سوویت فتح کا جشن منایا جا رہا تھا۔

اب ایک افریقی ملک میں چلتے ہیں جہاں عشروں سے فوج کا سربراہ اقتدار کی عقب پیمائی کرتا ہے۔ کوئی چودہ برس پہلے اس بدنصیب ملک پر ایک فلسفی مزاج اور خود پسند فوجی سربراہ نازل ہوئے۔ ملک میں جاری غارتگری کو تمباکو کے مرغولوں میں اڑاتے تھے۔ ماتحت عملے کو حکم ملا کہ ایسے عبقری انسان کی ایک ایک سوانحی تفصیل عرق ریزی سے جمع کی جائے۔ اس کاٹ جھنکاڑ کا حجم کمپیوٹر پر 98جی بی تک جا پہنچا۔ ریٹائر ہوئے تو جانشین نے حکم دیا کہ ایک تصویر چھوڑ کر باقی انبار ضائع کر دیا جائے۔ ایک تصویر کی لم دریافت کی گئی تو جواب ملا کہ جب وفات پائیں گے تو پریس ریلیز کے لئے درکار ہو گی۔

اس مہینے جب آپ ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین، میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی، غیر ملکی ٹیموں سے کرکٹ اور ناشائستہ متحرک تصاویر کے ایک نئے سلسلے سے جھونجھ رہے تھے۔ دنیا کے تین اہم ممالک میں انتخابات منعقد ہوئے۔ 13ستمبر 2021کو ناروے میں انتخابات منعقد ہوئے۔ 2013سے برسراقتدار محترمہ ارنا سولبرگ اور ان کی کنزرویٹو پارٹی انتخاب ہار گئی۔ لیبر پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور اس کے سربراہ جوناس استور مخلوط حکومت کے سربراہ ہوں گے۔ 20ستمبر 2021کو کینیڈا میں انتخابات منعقد ہوئے۔ جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی نے صرف 32 فیصد ووٹوں کے باوجود 159نشستیں جیت کر مخلوط حکومت بنانے کا استحقاق حاصل کر لیا۔ ایک فیصد ووٹ زیادہ حاصل کرنے والی کنزرویٹو جماعت 119 نشستیں جیت سکی چنانچہ حزب اختلاف میں بیٹھے گی۔ 26ستمبر کو جرمنی میں انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ 16برس سے چانسلر چلی آ رہی محترمہ انجیلا مرکل نے اس دفعہ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کی کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی انتخاب ہار گئی۔ اب سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ ہمارے ہاں ان تینوں انتخابات کی خبر تک نہیں پہنچی۔ جمہوریت خبروں کی چنگھاڑ نہیں، شہریوں کے رگ و پے میں اتر جانے والے تحفظ کا نام ہے۔ ناروے میں فی کس سالانہ آمدنی 75428ڈالر، جرمنی میں فی کس سالانہ آمدنی 44680ڈالر اور کینیڈا میں فی کس سالانہ آمدنی 44841ڈالر ہے۔ ان تینوں ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال نہیں ہوتی لیکن عوام کا سیاسی شعور پرامن اور شفاف انتخابات کی ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی 1467ڈالر ہے۔ اس غربت کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم جمہوری اقدار ، پیداواری معیشت اور علمی ترقی پر توجہ دینے کی بجائے شلوار قمیص پہن کر اٹھارہ گھنٹے کام کرنوالے مسیحائوں کے سحر میں مبتلا ہیں۔ قوموں کی تعمیر معجزہ نہیں، بصیرت اور کار مسلسل کا تقاضا کرتی ہے۔

تازہ ترین