پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ پنڈورا پیپرز پر حکومتی کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں، اپوزیشن کے کیسز سیدھے نیب میں جاتے ہیں یہاں حکومت نے کمیٹی بنا دی۔
ایک بیان میں شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ باقیوں کی بات فوری عدالتوں میں جاتی ہے اور میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے، لگتا ہے کہ چینی کمیشن کی طرح اس بات کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اپوزیشن پر جے آئی ٹی بن سکتی ہے تو اس پر کیوں نہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت کی اپنی کمیٹی ہوگی جس کی کوئی ساکھ نہیں ہو گی، حکومت اپنے لوگوں کی تفتیش کیسے کر سکتی ہے؟ حکومتی کمیٹی غیر جانبدار نہیں ہو گی، تحقیقاتی کمیٹی آزاد ہوتی ہے۔
شیری رحمٰن نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اب منی ٹریل کہاں ہے؟ پیسہ کیسے باہر گیا؟ کوئی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیئے، حکومت بتائے کہ آئی ایم ایف سے کیا باتیں ہو رہی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈالر171 روپے کا ہوگیا ہے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 81 فیصد ہو گیا ہے، اتنے قوانین پاس کرنے کے بعد بھی آپ گرے لسٹ میں کیوں ہیں؟
وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ صدارت گزشتہ روز پارٹی رہنماؤں کے ہونے والے اجلاس میں پنڈورا لیکس کی تحقیقات کیلئے وزیرِ اعظم نے انسپکشن کمیشن کے تحت اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا تھا۔
اس حوالے سے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اعلیٰ سطح کا سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا، پنڈورا لیکس کے متعلق حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں گے۔
واضح رہے کہ پنڈورا پیپرز میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ہیں جن میں وزیرِ خزانہ شوکت ترین، وفاقی وزیر مونس الٰہی، پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل واؤڈا، پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان اور مسلم لیگ نون کے اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے اہلِ خانہ، وزیرِ اعظم کے سابق معاونِ خصوصی وقار مسعود کے بیٹے اور بدنامِ زمانہ ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کے نام شامل ہیں۔
پنڈورا پیپرز کی فہرست میں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران، کچھ بینکاروں، کچھ کاروباری شخصیات اور کچھ میڈیا مالکان کے نام بھی شامل ہیں۔