کراچی کے مٹتے ہوئے آثار میں وہ پیاؤ بھی شامل ہیں جو حسین طرز تعمیر کا شاہکار تھے۔ یہ پیاؤ شہر کے مختلف علاقوں میں آج بھی نوحہ کناں ہیں جنہیں تعمیر کرانے والوں کی بے مثال خدمات کو بھلا دیا گیا ہے۔ ہندو، مسلم، پارسی کمیونٹیز کے رہنما ہماری تاریخ کا حصہ تھے انہوں نے شہر کی خوبصورتی بڑھانےکے لئے عمارتوں کے ساتھ ساتھ گھوڑوں، اونٹوں کے لئے اٹالین طرز کے پیاؤ بنائے جہاں پہنچ کر بے زبان جانوروں کے قدم سست پڑ جاتے تھے، مگر اہل کراچی نے ان گلیوں اور سڑکوں کے نام بدل دیئے، چوک پر لگے مجسمے ہٹا دیئے، ان کے ناموں کی تختیاں غائب کر دی گئیں اور ساتھ ایک یلغار کے ساتھ اس شہر کی روح قبض کرلی۔
سول سنیما کے عقب میں مشن روڈ پر آج بھی ایک پیاؤ وقت کے آگے سینہ سپر ہے، ہم نے وہاں بیٹھے دو چار ہیروئنچیوں کو مار بھگایا اور قریب جا کر تصویریں لیں تو سگنل پر کھڑے لوگ بھی رک گئے اس پیاؤ پر نصب تختی پر درج تحریر کے مطابق 1927 میں کراچی کے سرویئر دیون دیارام چیلا رام میر چندانی کی یاد میں ان کی بیوی نے یہ پیاؤ تعمیر کروایا تھا اس وقت یقیناَ اس کی خوبصورتی، پتھروں کی بناوٹ، سنگتراشی کے فن کو دیکھ کر لوگ رک جاتے ہوں گے، مگر اب یہاں آس پاس گندگی کے ڈھیر ہیں، دور سے یہ کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی ہے اور نشئی لوگوں کے لئے ایک محفوظ بیٹھک بن گئی ہے۔
کھارادر کے علاقے میں دیواروں میں چھپی ایک محل نما عمارت عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے ،اس کے آس پاس بازاروں اور ٹریفک کا اس قدر شور ہے کہ کسی کو فرصت نہیں کہ سر اٹھا کر دیکھ سکے، ہم نے لی ماریکٹ سے آگے کی سمت جاتے ہوئے ایک دکاندار سے پتہ پوچھا تو اس نے اپنی کھجوروں کی طرف اشارہ کر کے بھاؤ تاؤ شروع کر دیا۔ اسی دوران ہمارے ایک واقف کار عثمان صاحب مل گئے ہم نے ان سے پیاؤ کے متعلق دریافت کیا تو پرجوش انداز میں کہا سڑک کے اس پار یہ جو دیواریں ہیں ان کے پیچھے زرد پتھروں کی عمارت ہے، وہ پیاؤ وہیں ہے۔
عمارت کا نام رونق السلام گرلز کالج ہے یہ کسی زمانے میں دھرم شالہ کی حقیقت میں بے سہارا خواتین کے لئے قائم کی گئی تھی، تقسیم سے قبل اس کا نام تھیلارام کام چند دھرم شالہ تھا۔ ’’یہ عمارت 1912 میں قائم ہوئی تھی۔اس دھرم شالہ میں بیوہ اور یتیم بچیوں کی کفالت ہوتی تھی اس کے زرد پتھروں سے ٹھنڈی روشنی سی پھوٹتی بلند و بالا ستون اور طویل راہداریوں کو دیکھ کر خیال آتا تھا تقسیم سے قبل یہاں شہزادیاں رہتی ہوں گی، مگر طالبات بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ کالج کی پرنسپل کے مطابق‘‘ اس دھرم شالہ کو 1965 میں کالج میں تبدیل کر کے اس کانام رونق السلام گرلز کالج رکھ دیا ۔یہ علاقے کا واحد گرلز ڈگری کالج ہے۔ جب ہم عمارت کے عقبی حصے میں آئے تو یہاں بھی ایک پیاؤ آخری سانسوں پر تھا۔
کبھی یہاں گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی اور بکھی چلانے والے خاص طور پر رک کر اپنے جانوروں کو شوق سے پانی پلاتے تھے، اس زمانے کے فوٹو گرافر پیاؤ کی خوبصورتی اور یورپی طرز تعمیر سے متاثر ہو کر تصویریں کھینچ کر کارڈ کی صورت میں فروخت کرتے مگر اس وقت یہ خوبصورت نمونہ ایک بدترین مثال کی صورت بیت الخلا میں تبدیل ہو چکا ۔ ہمیں موبائل سے تصویریں بناتے دیکھ کر ایک ہیروئنچی نے اپنے میلے کپڑے پیاؤ سے ہٹا دیئے یہاں بھی ایک شکستہ تختی نصب تھی جس پر ہندی یا گجراتی میں مٹی مٹی سی تحریر شاید یہ کہہ رہی تھی کہ یہ کراچی کے ان پرخلوص اور نیک نیت انسانوں کا تحفہ تھا جو عام لوگوں کی سہولت کے لئے اسپتال اور دھرم شالہ بناتے تھے۔
وہ جانوروں کا خیال رکھتے تھے، انہیں کراچی سے خاص لگاؤ تھا، انہوں نے اپنے پیاروں کے نام سے یہ شاہکار تخلیق کئے تا کہ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو، مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ وقت بہت بے رحم ہے۔ رنچھوڑ لائن کے اس پار چونا بھٹی ہے یہاں بھی ایک پیاؤ اور دھرم شالہ ہے۔ سیمنٹ بیچنے والے ایک بزرگ نے کہا۔ کب کی بات کرتے ہو بھائی وہ زمانے گزر گئے جب اسی جگہ کراچی کے معمار جمشید نسروانجی گھوما کرتے تھے۔
انہوں نے بلدیہ عظمیٰ کی عمارت بناتے وقت بھی یہ پیاؤ تعمیر کروائے وہ کسی حیوان کو بھی زخمی دیکھتے تو خود چل کر اسپتال لے جاتے انہیں دیکھ کر ٹرام اور گھوڑا گاڑیاں رک جاتیں، سب ان کی تعظیم کرتے تھے۔ میری بھی ایک دھرم شالہ کی عمارت ہے، ہمارے باب دادا بتاتے تھے ہندوستان کی ماضی کی ہیروئن سادھناٹیر کا بچپن اسی عمارت میں گزرا تھا۔ وہ سندھی بولتے تھے بڑی مشہور ایکٹریس تھی۔ وہ گانا تو سنا ہوگا، یہ کہہ کر خود ہی گنگنانے لگے۔’’ جو ہم نے داستان اپنی سنائی آپ کیوں روئے۔‘‘
چونا بھٹی سے آگے میر محمد بلوچ پارک کے ساتھ مولوی مسافر خانہ کی تنگ گلیاں ہیں جس میں داخل ہوں تو دلی قابلی ماؤں یاد آنے لگتا ہے جیسے ابھی کہیں سے غالب نمودار ہوں گے، مگر غالب کے بجائے ایک مقامی رہائشی علی اکبر کاظمی آگئے اور ہمارا ہاتھ پکڑ کر ایم اے جناح روڈ کی سمت ایک پرانا دروازہ دکھا کر کہا، میاں نام تو اس کا مولوی مسافر خانہ رکھ دیا گیا مگر اصل میں یہ مولوڈنیا دھرم شالہ ہے وہ بڑا سیٹھ تھا، بمبئی اور پونہ میں اس کے کاروبار چلتے تھے۔
جوش ملیح آبادی ان کے دوستوں میں تھا، سنا ہے وہ ان کے مقروض رہتے تھے، ان کے دل میں آئی اور انہوں نے ہندوستان کے غریب مسافروں کے لئے یہ دھرم شالہ بنادی، اس کی خوبصورتی ذرا دیکھئے۔ انہوں نے ہمیں ایک پتھروں سے بنی کھڑکی دکھائی جو سنگ تراشی کا ایک خوبصورت نمونہ تھی، مگر اب یہ عمارت سڑک پر چلنے والے لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس کے ارد گرد پلاسٹک کی چٹائیاں بیچنے والے شور کرتے رہتے ہیں یا پھر قبروں پر کتبے بنانے والے سر جھکائے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ فسادات میں یہاں سندھ سے آنے والے ہندوؤں نے پناہ لی تھی اور بھی لوگ کراچی آتے تو اسٹیشن سے سیدھا اسی دھرم شالے کا رخ کرتے، سنا ہے یہاں آٹھ آنے میں کرائے پر کمرہ مل جاتا تھا اور عام کمرہ تو مفت تھا۔
کراچی میں ہندوؤں اور پارسیوں کے پاس پیسہ تھا جو انہوں نے عوام کی بھلائی میں صرف کیا۔ انہوں نے اپنے پیاروں کے نام سے یادگاریں قائم کیں۔ گرومندر کے پاس ایک پیاؤ تھا نہ جانے اس کا وجود ہے یا نہیں وہ پیاؤ بہرام ایڈل جی نے اپنے والدین کی یاد میں تعمیر کروایا تھا، اسی طرح مختلف اداروں نے بھی نانک واڑہ، گارڈن اور سولجر بازار میں یہ پیاؤ قائم کئے، ڈنشا ڈسپنسری اور ایمپریس مارکیٹ کے پاس بھی بنے ہوئے تھے ان کو بنانے میں جیسلمیر سے آئے ہوئے سنگ تراشوں کا بڑا ہاتھ تھا۔
یہ دھرم شالے اور پیاؤ کراچی کی تاریخ کا حصہ تھے، بدقسمتی سے ہم نے ان کی حفاظت نہیں کی، جو مہذب قوموں کا شیوہ ہے۔ لوگ سچ کہتے ہیں کراچی کا کوئی باپ نہیں ہے یہ ایک یتیم شہر ہے۔