گھاڑواہ لاڑکانہ کی قدیم نہر تھی جو اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ چند عشرے قبل تک ’’بہار پور ‘‘ کے علاقے میں یہ تفریحی مقام تھا لوگ یہاں پکنک منانے آتے تھے۔بہارپورکا علاقہ کلہوڑہ حکومت کے سپہ سالار ’’شاہ بہارو ‘‘کے نام سے آباد ہوا تھا ۔1963ء تک گھاڑ واہ میں کشتیاں چلتی تھیں، اس کے کنارے دھوبی کپڑے دھوتے تھے اور انھیں نہرکے کنارے بندھی ہوئی رسیوں پر سکھایا کرتے تھے ۔ شام کو جب تیز دھوپ میں سارے کپڑے سوکھ جاتے تھے تو ان کے گٹھرگدھوں پر رکھ کر دکان یا گھروں کو لے جاتے تھے۔
نہر کے دونوں طرف آم، زیتون، فالسے، جامن، بیر وغیرہ کے گھنے درخت لگےتھے جن کےسائے میں دریابچھا کر سیر کے لیے آنے والے افراد کھانا وغیر کھاتے اور کچھ دیر آرام کے بعد دوبارہ سیر و تفریح میں مصروف ہوجاتےتھے۔ اس سے ذرا آگے حد نگاہ تک سبزیوں کے کھیت لگے ہوئے تھے۔ تعطیلات کے دنوں میں لوگ یہاں مچھلی کے شکار کے لیے آتے تھے اور رات بھر جال یا کانٹا ڈال کر بیٹھے رہتے تھے۔
نہر کے پشتے بہت مضبوط تھے اوراس کے بند پرکچی سڑک بنی ہوئی تھی، جس پرلوگ بہارو گاؤں سے لاڑکانہ شہر کی طرف بیل گاڑیوں اور تانگوں میں سفر کرتے تھے۔ اس دور میں لاڑکانہ شہر کا پانی صاف و شفاف اورحفظان صحت کے اصولوں کے مطابق تھا۔ بارشیں زیادہ ہوتی تھیں اس لیے زیر زمین بھی پانی کے ذخائر وافر مقدار میں تھے۔یہاں کے قدیم باسیوں کا کہنا ہے کہ گھاڑ واہ کی وجہ سے لاڑکانہ پسماندگی سے نکل کربین الاقومی شہرت کا حامل شہر بن گیا۔
گھاڑ واہ دراصل دریائے سندھ کی کھاڑی تھی جسے کلہوڑہ دور میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے نہر کی صورت میں تعمیر کرایا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے اس کے کنارے نہیں تھے اور یہ میدانی علاقے میں بہتی تھی۔ جب اسےنہر کی صورت میں ڈھالا گیا تو اسے لاڑکانہ سے قمبر علی خان ہوتے ہوئے تعلقہ وارہ تک پہنچایا گیا، جس کی لمبائی تقریباً 60 میل تھی۔
گھاڑواہ کی وجہ سے پورے لاڑکانہ ضلع، جسے پہلے ’’چانڈکا برگنہ ‘‘کہتے تھے، وہاں زرعی انقلاب آگیا،کھیتی باڑی ہونے لگی، فصلوں کی فروخت کے بعد لوگ خوشحال ہو تےگئے۔ جب انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو انہوں نے بھی زراعت کی ترقی کے لیے آبپاشی نظام کوبہتر بنایا۔
ان اقدامات سے لاڑکانہ شہر میں ہر طرف باغات نظر آنے لگے، جس کی وجہ سے لاڑکانہ کو ’’باغ عدن‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ قدیم لوگوں کے مطابق گھاڑ واہ کا پانی بہت گہرا تھا اور اس کےکنارے پر ہزاروں کی تعداد میں کشتیاں لنگر انداز ہوا کرتی تھیں، اس نہر کو لال کینال اور کالا کینال بھی کہا جاتا تھا۔اس کے کنارے ایک باغ تھا جسے ’’رانی باغ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس میں کھجور سمیت مختلف پھلوں کے درخت تھے۔ گھاڑ واہ پر ایک بندرگاہ بھی تھی، جہاں سے پنجاب، پشاور، کوئٹہ، سکھر، ایران سے اشیا امپورٹ اور ایکسپورٹ ہوتی تھیں، جس میں پھل، گھی، مکھن، چاول، کھجور، آم وغیرہ شامل ہیں۔ تجارتی اشیاء کو لے کردریائے سندھ سے کشتیاں لاڑکانہ، قمبر علی خان اور وارہ تک آتی اور جاتی تھیں۔
تاجر حضرات مال کے بدلے مال لایا اور لے جایا کرتے تھے۔ گھاڑ واہ بندرگاہ اس جگہ واقع تھی ، جہاں پر اب بینک اسکوائر ہے۔ اس علاقے کا نام ابھی تک بندر روڈ ہے۔گیان باغ جس کا نام اب ’’باغ ذوالفقار ’’ ہے ، وہاں سے گھاڑواہ کی گزرگاہ تھی۔گیان باغ تک پہنچنے کے لیے ایک پل بنا ہوا تھا، جس کا نام و نشان مٹ چکا ہے۔دریائے سندھ چڑھتا تھا تو اس کا پانی گھاڑ واہ میں آتا تو لوگ خوشیاں مناتے تھے۔انگریز مؤرخین کے مطابق رچرڈ برٹین نے 1844ء میں لاڑکانہ کا دورہ کیا جس میں اس نے کئی چیزوں کا ذکر کیا ہے، خاص طور پر رانی باغ ، اسے انگریزوں نے ’’ لیبر پارک‘‘ کا نام دیا ۔اس دور میں گھاڑ واہ میں 8 ہزار کشتیاں چلتی تھیں۔ کابل اور قندھار سےتجارتی قافلے آتے تھے۔ لاڑکانہ شہر ان کا پڑاؤ تھا۔
چند عشرے قبل جب امن و امان کی صورت حال ابتر ہوئی تو یہ علاقہ بھی زد میں آگیا۔ گاؤں سے لوگ نقل مکانی کرکے شہروں میں منتقل ہوگئے، ان کے خالی مکانات پر بااثر لوگوں نے قبضہ کرلیا۔ حکومتی اور سیاسی شخصیات کی پشت پناہی سے لینڈ مافیا نے پورے شہر میں اپنی اجارہ داری قائم کرلی ۔انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا ۔ قبضہ مافیا نے زرعی اراضی پر قبضہ کرکے مکانات کی تعمیر شروع کرادیں۔ یہ تاریخی نہر بھی تجاوزات کی زد میں آگئی اور ایک وقت ایسا آیا جب گھاڑ واہ کا نام و نشان مٹ گیا ۔