• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کے ماں باپ مرچکے تھے۔ وہ بے چاری گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ پیٹ پالنے کے لیے اسے ایک امیر آدمی کے گھر میں بہت کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ پانی بھر کے لاتی، کھانا پکاتی۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور اتنے کاموں کے بدلے اسے بس دو وقت کی روٹی ملتی۔ کھیلنا کودنا تو کیا دوگھڑی آرام بھی نہیں کر سکتی تھی۔

وہ آدمی بہت چالاک اور بےرحم تھا اور اس کی بیوی تو میاں سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔

ایک رات چاند آسمان پرچمک رہا تھا اور باہر بہت سخت سردی تھی۔ امیر آدمی کی بیوی نے اس بچی سے پانی لانے کے لیے کہا،وہ پانی بھرنے باہر گئی۔ جب وہ تالاب پر پہنچی تو سردی سے اس کے پیر پتھر کی طرح سخت ہو چکے تھے، اوپر سے تالاب کا پانی بھی جما ہوا تھا۔

بچی نے برف میں سوراخ کیا اور پانی کی بالٹی بھر کر گھر واپس آنے لگی۔ گھر کے قریب پہنچ کر وہ گر پڑی اور سارا پانی بہہ گیا، بچی گھبرا گئی۔ وہ خالی بالٹی لے کر گھر نہیں جا سکتی تھی۔ دروازے پر کھڑی خوف سے کانپ رہی تھی، آسمان پر چمکتا ہوا چاند ہنس رہا تھا۔ بچی نے چاند سے کہا ’’چندا ماموں، دیکھو تو میں کتنی دکھی ہوں، میری مدد کرو۔ مجھے ان ظالموں سے بچاؤیہ مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘ چاند اس کی فریاد سن کر زمین پر اتر آیا۔

وہ ایک خوبصورت نوجوان کے بھیس میں تھا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ چاند کے بڑے بھائی سورج نے بھی بچی کی فریاد سن لی تھی۔ وہ بھی آدمی کی شکل میں سنہرے رنگ کے کپڑے پہنے زمین پر اتر آیا۔ سورج نے چاند سے کہا’’میں اس دکھی لڑکی کو لینے آیا ہوں۔ اسے مجھے دے دو۔ کیوں کہ میں تم سے بڑا ہوں۔‘‘

چاند نے کہا:

’’یہ ٹھیک ہے کہ تم بڑے ہو سورج بھائی، لیکن اس وقت رات ہے اور میں رات کا بادشاہ ہوں۔ اس بچی نے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘

چاند بچی کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ جب سے وہ ننھی بچی چاند میں رہتی ہے۔ بچو:جب تم چودھویں کا پورا چاند دیکھوگے تو اس میں وہ ہنستی گاتی نظر آئےگی۔

تازہ ترین