پنجاب میں کم وبیش ایک دہائی کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر کامران علی افضل نے انتظامی سیکرٹریوں، عام پبلک اور صحافیوں کے لئے بھی اوپن ڈور پالیسی کا آغاز کردیا ہے۔ اس سے قبل سابق چیف سیکرٹری جاوید محمود نے 2008ء میں اپنی تعیناتی کے بعد سول سیکرٹریٹ کے لان میں عوامی شکایات سننے کا آغا زکیا تھا۔ اس کے بعد 2010ء میں ناصر کھوسہ نے بطور چیف سیکرٹری ایک دن عوام کے لئے رکھا لیکن ان کے بعد ایسی روایت دیکھنے میں نہیں آئی ۔ جونیئر لیول پر سابق کمشنر ملتان جاوید اختر محمود نے یہ روایت شروع کی اور ہفتہ میں 6دن صبح 9بجے سے شام پانچ بجے تک ہر خاص و عام کے لئے اپنے آفس کے دروازے کھلے رکھے۔ ڈاکٹر کامران افضل نے پورا ہفتہ صبح 9:30 سے 10:30 تک انتظامی سیکرٹریوں، 10:30 سے 11:30 تک عام پبلک کے محکموں کے متعلق ایشوز کو حل کرنے، جبکہ صحافیوں میں سے اگر کوئی ملنا چاہے تو شام 6 بجے کےبعد کا وقت رکھا ہے۔ اس سے قبل چیف سیکرٹری خاص اور قریبی دوست صحافیوں سے ہی بسا اوقات ملاقات کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر کامران افضل یہ خواہش رکھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے عوامی فلاح و بہبود کے لئے کئے جانے والے اقدامات اور جہاں کہیں خرابیاں ہیں ان کے حوالےسے ہر طبقہ سے معلومات حاصل کرکے ان کا حل نکالا جائے۔ نئے چیف سیکرٹری نے پچھلے دنوں کچھ سیکرٹریوں اور ڈپٹی کمشنروں کے تبادلے کئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر صحیح جگہوں پر صحیح بندے ہی لگائے ہوں گے لیکن پوسٹنگ کے دورانیے کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے۔ ان کے طریقہ کار اور خیال سے لگتا ہے کہ وہ آئے روز کے تبادلوں پر یقین نہیں رکھتے باقی اگر کوئی انہونی ہو جائے تو پھرکوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ چیف سیکرٹری کو بہرحال ایک کریڈٹ تو فوری دینا چاہیے کہ افسران کی تعیناتیوں کے حوالے سے شدید پریشر کے باوجود وہ بڑی احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ آئیڈیل صورت حال تو نہیں لیکن اس کے قریب ضرور ہوتی جا رہی ہے۔ اتنے تھوڑے عرصے میں آئیڈیل صورت حال ہو بھی نہیں سکتی۔ اب چند سوالات کے جوابات ضروری ہیں۔ کیا نئے چیف سیکرٹری نے اپنی ٹیم بنا لی ہے؟ کس حدتک نئی ٹیم بنائیں گے؟ اور کیا پہلے سے موجود سسٹم کے ساتھ ہی کام کریں گے؟ پنجاب میں افسروں کی لاٹ اور پول وہی ہے جو پچھلے چیف سیکرٹری کے ساتھ تھے۔ ایشو یہ ہے کہ پہلے چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک نے پوسٹنگ ٹرانسفر سمیت دیگر کئی اہم امور میں دخل اندازی چھوڑ دی تھی کیونکہ سب کچھ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ ہی کرتاتھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر کامران افضل کے پاس اپنی ٹیم بنانے کی کتنی گنجائش موجود ہے؟ کیا وہ موجودہ سسٹم سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ کسی کی دُم پر پائوں رکھیں گے اور اکھاڑپچھاڑ کریں گے تو کیا ردعمل آسکتا ہے؟ ایک کریڈٹ انہیں یہ بھی جاتا ہے کہ پنجاب میں پوسٹگز اور ٹرانسفروں کے لئے جو پیسے لینے کا ٹرینڈ شروع ہوگیا تھا جس سے حکومت کی جگ ہنسائی ہورہی تھی‘ اس میں بہت بہتری آئی ہے۔ چیف سیکرٹری کی طرف سے کئے گئے حالیہ تبادلے پبلک فیڈ بیک، سول سوسائٹی، صحافیوں اور انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس پر بڑی باریک بینی سے غور و خوض کے بعد کئے گئے۔ ان کی ورکنگ سے محسوس ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ بہتری لانے کے متمنی ہیں کیونکہ ان کے خیال میں ایک دم اکھاڑ پچھاڑ اور ایکشن لینے سے سسٹم کے (COLLAPSE) ہونے کے واضح خطرات موجود ہیں، اسی لئے انہوں نے (SLOW AND STEADY)کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ بڑے پیمانے پر کھڑاک کرنا سود مند نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ وہی ہے صرف 4 چیف سیکرٹری ہی بدلے ہیں۔ پالیسی اور پولیٹیکل لیول پر (DEVIATION) نہیں۔ سارے چیف سیکرٹری وہی بال گیم کھیلتے رہے ہیں۔ ٹیم خواہ کوئی بھی ہو اور کتنی ہی اچھی ہو اگر چیف سیکرٹری نہیں رہیںگے تو ٹیم کیسے رہے گی۔ چیف سیکرٹری کو اچھے کمشنر اور انتظامی سیکرٹری چاہئیں جس کے بارے میں وہ یقیناً سوچ بھی رہے ہیں اور ورکنگ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں سوچ رہے تو اس کا مطلب ہے کہ سب صاف ستھرے ہیں اور پچھلے چیف سیکرٹری کی ٹیم ہی اچھی تھی۔ پنجاب میں اب بھی کچھ ایسے افسران اہم ترین پوسٹوں پر بیٹھے ہیں جن کو چھیڑنا چیف سیکرٹری کے لئے چیلنج اور ٹیسٹ کیس ہوگا۔ ڈاکٹر کامران افضل نے ایسے تمام ایریاز جہاں کرپشن زیادہ ہے پر سرخ دائرے لگا کر ان پر فوکس تو کرنا شروع کردیا ہے لیکن یہ بڑے حساس ایریاز ہیں جہاں بیٹھے افسران کی لابی بڑی مضبوط ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں گڈ گورننس شامل ہے جس کے لئے اوپن ڈور پالیسی اور پبلک فرینڈلی ہونا ضروری تھا جس کا آغاز کرکے ایک مستحسن فیصلہ کیا گیا ہے۔ گڈ گورننس کا (CANVAS) بڑا وسیع ہے۔ اس میں سروس ڈلیوری اور کارکردگی دواہم فیکٹر ہیں۔ سروس ڈلیوری میں صحت، تعلیم، لوکل گورنمنٹ اور اس کے میونسپل فنکشن آتے ہیں جن میں بہتری کی ضرورت ہے۔ حکومت کی کارکردگی دکھانے کے لئے سی اینڈ ڈبلیو، ہائوسنگ، واسا اور ایل ڈی اےجیسے محکموں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان محکموں میں پرانے سسٹم کی باقیات موجود ہیں جن کو شفٹ کئے بغیر حکومتی کارکردگی نظر نہیں آسکتی لیکن ابھی تک وہ بندے بیٹھے ہیں جنہیں صوبے کی اعلیٰ سیاسی قیادت کی پشت پناہی حاصل ہے۔ حکومت کی توقعات تو یہی ہیں کہ ہمیںسسٹم میں چیف سیکرٹری مدد کریں کیونکہ صحیح معنوں میں تو یہ بھی (LARGER GAME) کاحصہ ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں بے حد اضافہ ہوا ہے جس سے چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور عام آدمی چیخ رہا ہے۔ اس کیس میں چیف سیکرٹری کیا کرے گا؟ حکومت کو قیمتیں کنٹرول کرنے سے سیاسی فائدہ ہوگا جس کے لئے اچھے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر چاہئیں۔ محکمہ خوراک اور انڈسٹریز کی بڑی اہمیت ہوگی جہاں قابل افسر سیکرٹری لگائے جائیں۔ چیف سیکرٹری سے جو سیاسی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے وہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا ٹارگٹ ہے۔ ان حالات میں ترقیاتی ایجنڈے پر فوکس کرنا ناممکن تو نہیںلیکن بہت مشکل کام ہوگا۔