انگلش کرکٹ بورڈ کے چیئر مین ای ین واٹ مور کا استعفی یقینی طور پر پی سی بی کی بڑی اخلاقی جیت ہے۔انگلینڈ میں دورہ پاکستان کی منسوخی کی وجہ سے واٹمور دباؤ کا شکار تھے۔ واٹمور نے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے قبل ہی عہدے سے استعفیٰ دیا ۔ ان کے عہدے کی مدت پانچ برس تھی جبکہ وہ اس عہدے پر صرف 10 ماہ ہی فائز رہے۔رمیز راجا نے پی سی بی چیئرمین کا عہدہ سنبھالا ہی تھا کہ انہیں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا، پی سی بی ہیڈ کوارٹر میں ہنگامی حالت نافذ ہوگئی۔
نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ نے بھی پاکستان میں سیریز منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔تین ہفتوں میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے کئی سرکردہ انگلش کرکٹرز کو اپنا موقف بتایا اور مشہور رائٹرز کو بھی رمیز راجا نے بریفنگ دی۔یہی وجہ تھی کہ مائیک ایتھرٹن جیسے بڑے نام والے کرکٹر نے کم ازکم چار کالم پاکستان کے حق میں لکھ ڈالے۔ڈیوڈ گاورکے علاوہ کئی بڑے کالم نگار پاکستان کے حق میں بولنے پر مجبور ہوگئے۔ویسٹ انڈیز کے سابق فاسٹ بولر مائیکل ہولڈنگ نے انگلش بورڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انگلش کرکٹ بورڈ نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر کے مغربی تکبر‘ کا مظاہرہ کیا ۔
پاکستان انگلینڈ اس وقت گیا تھا جب کورونا کے خلاف مدافعتی ویکسینز بھی موجود نہیں تھیں، پاکستان 6 یا 7 ہفتے کے لیے برطانیہ گیا اور انہوں نے وہاں کرکٹ کھیلی، انھوں نے اس بات کا پاس رکھا جو انگلینڈ چاہتا تھا تاکہ انگلینڈ کو بچا سکیں۔ انگلینڈ نے پاکستان میں صرف چار دن کا دورہ بھی منسوخ کردیا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ایسا نہ کرتے کیونکہ بھارت بہت طاقتور اور امیر ملک ہے،پاکستان کی جگہ اگر یہاں بھارت ہوتا تو انگلینڈ کبھی ایسا نہیں کرتا جیسا پاکستان کے ساتھ کیا۔
پاکستان نے مشکل وقت میں انگلینڈ کا دورہ کیا، ای سی بی کو بچانے کیلئے کرکٹ کھیلی۔ای سی بی کے پاس موقع تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے احسان کا قرض اتارتا، انہوں نے کہا کہ انگلش بورڈ نے ایک بیان دیا اور بیان کے پیچھے چھپ گئے، کوئی سامنے آکر بات نہیں کررہا. واقعی ای ین واٹ مور کا غرور خاک میں مل گیا اور انہیں منہ کی کھانا پڑی۔
ایسی ہزیمت جس کا شائد انہیں تصور نہیں تھا۔رمیز راجا اب یہ خوش خبری دے رہے ہیں کہ اگلے ہفتے تک نیوزی لینڈ کی طرف سے اچھی خبر ملنے والی ہے، نیوزی لینڈ دورہ منسوخی کو دوبارہ شیڈول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔آئندہ ہفتے نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوم سیریز دوبارہ شیڈول کرنے کا اعلان کردیا جائے گا ، نیوزی لینڈ کو نومبر 2022 میں دورے کی تجویز دے سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی ٹیمیں بھی پاکستان آئیں گی۔ایک جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کو فیلڈ سے باہر لڑائی لڑنا پڑ رہی ہے ایسے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ مشن شروع ہورہا ہے۔
اس ٹورنامنٹ سے شائقین کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ 2009 پاکستانی کرکٹ کے لیے ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا تھا۔ سال کے آغاز میں ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیرمین اعجاز بٹ نے شعیب ملک کو تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے ہٹاکر یونس خان کو کپتان مقرر کردیا تھا۔ اس سے پہلے وہ جیف لاسن کو بھی کوچ کے عہدے سے ہٹا چکے تھے اور ان کی جگہ انتخاب عالم کو یہ ذمہ داری سونپ دی تھی۔ اس برس کا سب سے اہم واقعہ مارچ میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن ٹیم پر ہونے والا دہشت گرد حملہ تھا۔ان تمام واقعات نے پاکستانی ٹیم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
ایسے میں جب پاکستانی ٹیم دوسرا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلنے انگلینڈ پہنچی تو کوئی بھی اسے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھا حالانکہ دو سال قبل اس نے پہلی بار منعقد کیے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا تھا۔لارڈز میں فائنل میں سری لنکا کو ہراکر پاکستان نے ایک اور آئی سی سی ٹائیٹل جیتا تھا۔یونس خان نے ٹورنامنٹ میں جیت کے فوراً بعد ٹرافی ہوا میں لہراتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔
اب بارہ سال بعد پاکستان ٹیم کے کپتان بابر اعظم ہیں اور متحدہ عرب امارات کی کنڈیشن کی وجہ سے پاکستان کی جیت کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں، سلیکشن پر ماہرین متفق دکھائی نہیں دئیے اسی دبائو پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلئے قومی کرکٹ ٹیم میں تبدیلیاں کردی گئیں۔ اعظم خان اور محمد حسنین کی جگہ وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد اور حیدر علی کو 15 رکنی اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ٹریول ریزرو میں موجود فخر زمان کو خوشدل شاہ سے تبدیل کرکے 15 رکنی اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے۔رمیز راجا مشکل ترین حالات میں پاکستان کرکٹ کو عروج دلانے کے مشن پر ہیں۔ دنیائے کرکٹ میں پاکستان کی اہمیت بڑھانے کیلئے پی سی بی کی معیشت کو بہتر بنانا ہوگا، اس سلسلے میں مختلف سرمایہ کاروں کےساتھ بات چیت جاری ۔
ایک ملین ڈالر کی مالیت کی ڈراپ ان پچز دینے کے لیے دو کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، ایک سرمایہ کار نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بھارت کو ہرانے پر بلینک چیک کی بھی پیشکش کی ہے۔ مختلف بورڈ سے ٹرائی سیریز شیڈول کرنے کا پلان کررہے ہیں۔ رمیز راجا کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ نے سیکیورٹی خدشات کے باعث دورہ منسوخ کیا جبکہ مجھے سیکیورٹی خدشات بتانے سے انکار کیا اور جب میں برطانیہ ہائی کمشنر کے پاس گیا تو ’فائیو آئیز‘ سے متعلق بتایا گیا۔
سیریز منسوخی میں ہماری غلطی نہیں ، ساری دنیا کو معلوم ہے کہ 10 برس سے ہماری نیت کرکٹ بحالی پر مرکوز ہے لیکن ہماری مدد کسی نے نہیں کی اور ہم دوسروں کے لیے بھٹکتے رہے اور کورونا کے دوران سفر کر کے میچز بھی کھیلے ہیں۔
رمیز راجا کا کہنا ہے کہ پاکستان کوئی زمبابوے یا سیکنڈ گریڈ ٹیم نہیں بلکہ پاکستان ورلڈکپ جیتی ہوئی ٹیم ہے،مغربی بلاک کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چلنا بھی ہےگورے کو آنکھ دکھائیں تو وہ ڈر جاتا ہے۔اکستان کرکٹ سے چارافسران کے جانے سے سال کا 13 کروڑ روپیہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بچا لیا ہے۔
میں 13 کروڑ میں قدافی کرکٹ اسٹڈیم میں نیا فلڈ لائٹس کا اسٹرکچر کھڑا کر سکتا ہوں۔چوبیسواں دن ہے اور میں نے مالی کیوریٹر سب سے بات کی ہےپاکستان کرکٹ بورڈ کے افسر بہترین بن سکتے ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ پیسہ بچائے گا بھی اور پیسے لگائے گا بھی اور پاکستان کرکٹ کے لیے بہتری کا کام کرےگا۔واقعی رمیز کے ارادے اچھے ہیں وہ اس میں کتنے کا میاب ہوتے ہیں اس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے لیکن وہ جس انداز میں تیزی دکھا رہے ہیں لگ رہا ہے کہ کچھ اچھا ہونے جارہا ہے۔ لیکن اس کے لئے وقت درکار ہوگا۔