• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے وزیراعظم بوسنیا گئے اور میں چالیس سال پرانے زمانے میں پہنچ گیا۔ یہ 1976کا اکتوبر تھا، اور میں غیر جانبدار ملکوں کے ادیبوں کی کانفرنس میں شرکت کرنے بلغراد گیا تھا۔ وہاں ہوائی اڈے پر اترتے ہی مجھے ایسا لگا تھا جیسے میں کسی غیر ملک میں نہیں آیا بلکہ اپنے ہی ملک میں ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو بکھرے بالوں اور الجھی داڑھی والا وہ نوجوان ناول نگا ر تھا جس کا نام راتکو آدمو وچ تھا، اور جو ملتے ہی ایسا بے تکلف ہو گیا تھا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔ دوسری وجہ وہ بوڑھے میاں بیوی تھے جو ہوائی اڈے سے میرے ساتھ بس میں سوار ہوئے تھے اور مجھے اپنے ہی ملک کا باشندہ سمجھ کر اپنی زبان میں مجھ سے باتیں کرنے لگے تھے۔ میں بھی ان کا دل توڑنا نہیں چاہتا تھا اس لئے میں بھی ان کی باتوں کے جواب میں سر ہلاتا رہا تھا۔ ان کے جھریوں بھرے چہرے اپنے پہاڑی باشندوں جیسے ہی تھے۔ اور انہوں نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ بھی مجھے اپنے چترال اور ہنزہ جیسے علاقوں کا لباس معلوم ہوتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ لباس انہیں ان ترک حکمرانوں نے دیا ہے جنہوں نے کئی صدی وہاں حکومت کی تھی۔ اس ملک کا یہ پہلا تاثر ہی ایسا تھا کہ پھر مجھے وہاں ہر چیز اپنی ہی نظر آئی۔ اس وقت وہ یوگوسلاویہ تھا۔ ایک ہی ملک، جس میں بوسنیا ہر زیگووینا، سربیا اور کروشیا شامل تھے۔ مارشل ٹیٹو حکمران تھے۔ امریکی اور مغربی بلاک کے مقابلے میں غیر جانب دار ملکوں کا ایک بلاک بن چکا تھا۔ مصر کے جمال عبدالناصر، ہندوستان کے پنڈت جواہر لال نہرو، انڈونیشیا کے صدر سوکارنو اور یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو ان غیر جانبدار ملکوں کے لیڈر تھے۔ پنچ شلا (پانچ ستون یا پانچ اصول) غیر جانبدارانہ پالیسی کی بنیاد تھے۔ ہر سال اکتوبر میں ان غیر جانبدار ملکوں کے ادیبوں کی کانفرنس بلغراد میں ہوتی تھی۔ اس سے پہلے پاکستان کی طرف سے جمیل الدین عالی جیسے بڑے بڑے نامور ادیب اس کانفرنس میں شرکت کر چکے تھے۔ اس سال مجھے یہ موقع ملا تھا۔
اب کانفرنس کے بارے میں بات کرنے کا تو کوئی فائدہ نہیں کہ تمام کانفرنسیں ایک ہی قسم کی ہوتی ہیں۔ اور پھر میں ویسے بھی وہاں دیر سے پہنچا تھا۔ لیکن اس نوجوان ناول نگار راتکو نے مجھے اپنی دوستی کے چنگل میں ایسا لیا تھا کہ آج بھی جب ان دنوں کی یاد آتی ہے تو وہ نوجوان میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ شاید یوگوسلاویہ کی رائٹرز یونین میں کام کرتا تھا۔ کیا کام کرتا تھا؟ یہ نہ اس نے بتایا اور نہ میں نے اس سے پوچھا۔ یوں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ ’’نہ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام‘‘ والا معاملہ تھا کہ ہم پہلی مرتبہ مل رہے تھے لیکن شاید وہ پہلی مرتبہ کسی ایسے پاکستانی سے مل رہا تھا جو اسے اپنے جیسا نظر آتا تھا۔ خیر، میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا بات تھی لیکن وہ پہلی ہی ملاقات میں اتنا بے تکلف ہو گیا تھا کہ مجھے ہر جگہ اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتا تھا۔ فلاں ادیب سے ملنا ہے۔ فلاں جگہ کی سیر کرنا ہے اور فلاں اسٹور سے یہ یہ چیزیں خریدنا ہیں۔ ہاں، اس نے پہلی ہی ملاقات میں کہا تھا کہ وہ بوسنیا کا رہنے والا ہے۔ وہ کرسچین ہے مگر اس نے قرآن اور حدیث پڑھی ہیں۔ جس انداز میں اس نے یہ بات کی تھی، میں سمجھا تھا کہ وہ مجھے خوش کرنے کے لیے یہ کہہ رہا ہے۔ گویا وہ ایک مسلمان اور ایک پاکستانی کو خوش کر رہا ہے۔ مگر جب اس نے بوسنیا کے بارے میں اور باتیں بتائیں تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ واقعی بوسنیا کا ہی رہنے والا ہے۔ بوسنیا کا کرسچین۔ اور پھر جب اس نے بتایا کہ وہ ناول لکھ رہا ہے، اور اسے یقین ہے کہ اس ناول پر اسے نوبیل پرائز ضرور ملے گا، تو میں نے غور سے اسے دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ یہ تو اپنے بھولے بھالے ادیبوں جیسا ہی ہے۔ اس کی بات سن کر میں خاموش ہو گیا تھا مگر اس نے میری خاموشی پر توجہ نہیں دی تھی اور کہا تھا کہ ’’میں نوبیل پرائز کمیٹی کے ممبروں سے مل چکا ہوں۔ انہوں نے اس ناول کاموضوع سن کر کہا ہے کہ اس ناول پر نوبیل پرائز ضرورمل جائے گا‘‘۔ بہرحال، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اس کے ناول کو نوبیل پرائز ملتا ہے یا نہیں۔ مجھے تو اس سے غرض تھی کہ وہ میرا ایسا خیال رکھ رہا ہے جیسے وہ میرا اپنا ہو۔ البتہ، مجھے اس کے بھولپن پر پیار آتا تھا۔ ایسے بھولے بھالے ہمارے اپنے ہاں بھی تو ہیں جنہیں شکایت ہے کہ انہیں اب تک نوبیل انعام کیوں نہیں ملا، حالانکہ وہ اپنی دانست میں دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں سے بھی زیادہ اس انعام کے مستحق ہیں۔ اور جب وہ مجھے چھوڑنے ہوائی اڈے پر آیا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی پرانے دوست کو رخصت کر رہا ہو۔ اس نے میرا پتہ لیا تھا اور کہا تھا وہ مجھے خط لکھے گا۔ میں نے بھی اس کا دل رکھنے کے لئے کہہ دیا تھا کہ تمہیں نوبیل انعام ملے گا تو میں بلغراد آکر تمہیں مبارکباد دوں گا۔
اور پھر یوگوسلاویہ ٹوٹ گیا اور قتل عام شروع ہو گیا۔ اور یہ قتل عام مسلمانوں کا تھا۔ بوسنیا کے مسلمانوں کا۔ ایک نوبیل انعام یافتہ شاعر براڈسکی نے اس پر ایک نظم لکھی تھی۔ نہایت ہی دردناک نظم۔ میں نے بھی ایک افسانہ لکھا ’’دریائے درینا کا پل‘‘، جس میں راتکو آدمو وچ کو ہی مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی بوسنیا کے رہنے والے ہو تو اس وقت تم کہاں ہو؟ اس افسانے کا عنوان یوگوسلاویہ کے ناول نگار ایووآندرچ کے ناول The Bridge on the Darina سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس ناول پر آندرچ کو نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ یہ ناول ترک حکومت کے زمانے کی داستان بیان کرتا ہے اور یہ داستان ظلم و ستم کی داستان ہے۔ اس ناول کو پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یوگوسلاویہ کے لوگ ترکوں سے ۔۔اور ترکوں کے حوالے سے مسلمانوں سے کتنی نفرت کرتے تھے۔ مارشل ٹیٹو کے یوگو سلاویہ نے وہاں کی مختلف قوموں اور مذاہب کو جو اکٹھا رکھا ہوا تھا وہ سطح کے اوپر اوپر ہی تھا اندر حالات کچھ اور ہی تھے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ بوسنیا میں جو ہوا وہ مسلمانوں کی نسل کشی کے مترادف ہی تھا۔ اور یہ بھی مان لیجئے کہ اگر اس وقت امریکہ مداخلت نہ کرتا تو بوسنیا سے مسلمانوں کا صفایا ہو چکا ہوتا۔ وہاں سے لوگ بھاگ کر پاکستان آئے تھے۔ پاکستان نے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ میاں نواز شریف اسی حوالے سے وہاں گئے تھے مگر میرا حوالہ تو آج بھی راتکو آدمو وچ ہے۔ جب بھی یوگو سلاویہ یا بوسنیا کا ذکر آتا ہے تو مجھے بکھرے بالوں اور الجھی داڑھی والا وہ نوجوان ہی یاد آتا ہے۔ بھلا اسے کیا غرض تھی میرا اتنا خیال رکھنے کی؟ میرے ساتھ اتنا بے تکلف ہونے کی؟ پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ کہیں مسلمانوں کے قتل عام میں وہ بھی تو شامل نہیں تھا؟ یہ سوچ کر مجھے جھرجھری آجاتی ہے، اور اپنے آپ کو تسلی دیتا ہوں کہ ’’نہیں، وہ ایسا نہیں کر سکتا‘‘۔ مگر پھر شیطان بہکاتا ہے۔ ہجوم کی نفسیات کچھ اور ہوتی ہے۔ جب پوری قوم پر، پورے ہجوم پر نفرت کا بھوت سوار ہو جائے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا راتکو کا ناول مکمل ہو گیا تھا؟ مگر راتکو ہے کہاں؟یہ میری یوگو سلاویہ کی یادیں ہیں۔

.
تازہ ترین