• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمعرات 9 مارچ کو ٹھٹھہ ضلع میں شیرازی برادران کی طرف سے منعقدہ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے Sea Intrusion یعنی سمندر کی طرف سے انڈس ڈیلٹا کے وسیع علاقوں کو ہضم کرنے کی رفتار کو روکنے کے لئے ایک عجیب و غریب اعلان کیا ہے کہ وہ سمندر کے آگے دیوار تعمیر کریں گے‘ وزیر اعظم کے اس اعلان پر سندھ کے ماحولیاتی اور آبپاشی کے ماہرین نے بڑے دلچسپ تبصرے کیے ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے خصوصی مشیر ان کو ایسے ہی’’مشورے‘‘ دے سکتے ہیں جن پر فقط ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس جلسہ عام میں پی ایم ایل (ن) کے رہنما اعجاز حسین شیرازی نے جو مطالبے کیے ان میں سے ایک مطالبہ یہ تھا کہ تربیلا ڈیم سے کوٹری بیراج سے نیچے سمندر تک وافر مقدار میں پانی چھوڑا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوٹری بیراج کے نیچے پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر نے ٹھٹھہ اور بدین اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زمین کو غرق کردیا ہے‘ اس سے قبل منگل 24 جنوری کو سندھ اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کرکے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا کہ کوٹری سے نیچے پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر ٹھٹھہ‘ بدین اور کراچی اضلاع کی تقریباً 22 لاکھ ایکڑ زمین پر چڑھ آیا ہےشاید وفاقی حکومت کے زعما اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ دریائے سندھ کے اوپر والے حصے میں ڈیم اور لنکس بننے کی وجہ سے سمندر کی طرف دریائی پانی کی ترسیل بتدریج کم ہونے کی وجہ سے کیٹی بندر بھی تقریباً دو بار سمندر میں ڈوب چکا ہے اور موجودہ کیٹی بندر تیسری بار بنایا گیا ہے‘ مگر سندھ کے بارے میں ہمارا’’اسلام آباد‘‘ اتنی معلومات کیوں رکھے حالانکہ میں Sea Intrusion کے بارے میں کئی تفصیلی کالم لکھ چکا ہوںجن میں کئی قومی اور بین الاقوامی ماحولیاتی سائنسدانوں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اگر سمندر کی طرف دریائی پانی کی رسد مطلوبہ مقدار میں بحال نہ کی گئی اور انڈس ڈیلٹا کا تحفظ نہ کیا گیا تو ٹھٹھہ اور بدین اضلاع کے مزید وسیع علاقے تو سمندر برد ہوسکتے ہیں مگر اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر مطلوبہ اقدام نہیں اٹھائے گئے تو شاید سارا کراچی شہر بھی آئندہ پچاس ساٹھ سالوں کے دوران سمندر کے پیٹ میں چلا جائے‘ ان سائنسدانوں کے مطابق خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو کراچی کے علاقے میں تقریباً 2 کروڑ’’ماحولیاتی مہاجر‘‘ وجود میں آسکتے ہیں‘ ان حقائق کے مدنظر سندھ کے ماحولیاتی اور آبپاشی ماہرین نے افسوس ظاہر کیا ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکومت کے مشیروں نے حکومت کو ایک انتہائی’’احمقانہ‘‘ مشورہ دیا ہے کہ سمندر کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے سمندر کے گرد دیوار تعمیر کی جائے‘ ان ماہرین نے سوال کیا ہے کہ کیا کوئی دیوار سمندر کے طاقتور بہائو کو روک سکتی ہے؟ لہذا ان ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ شاید’’شریف برادران‘‘ اور ان ماہرین نے سمندر کو بھی کوئی چھوٹا صوبہ مثلاً سندھ‘ بلوچستان اور کے پی تصور کر رکھا ہے لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ 70 سالوں کے دوران وہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ جو سلوک کرچکے ہیں تو سمندر سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے‘ سندھ کے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک لحاظ سے ایسی سوچ رکھنے میں یہ’’مہربان‘‘ حق بجانب بھی تو کہے جاسکتے ہیں‘ جب ان کے اقدامات کے نتیجے میں پاکستان کے بڑے صوبے مشرقی پاکستان کو الگ ہونا پڑا اور اس کے نتیجے میں اب پنجاب ہی پاکستان کا بڑا صوبہ ہے۔سندھ کے ان ماہرین نے حیرت ظاہر کی ہے کہ ٹھٹھہ ضلع کے اس جلسہ عام میں تقریر کے دوران اس ایشو پر بولنے کے دوران ایک بار بھی یہ محسوس نہ ہوا کہ سندھ کافی عرصے سے کوٹری بیراج کے نیچے پانی نہ چھوڑنے کے سلسلے میں دھاڑیں مار کر روتا آیا ہے مگر پنجاب میں ان کی یہ صدائیں سننے والا کوئی نہیں‘ میں بڑے ادب اور احترام سے وزیر اعظم نواز شریف سے استدعا کروں گا کہ وقت ضائع کیے بغیر وہ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر کوٹری بیراج سے سمندر تک اوپر ہی اوپر سے معائنہ کریں تو ان کو پتہ چلے گا کہ کتنے عرصے سے اس علاقے میں دریائے سندھ سوکھا ہوا ہے‘ ہاں جب ہندوستان اور پاکستان کے دریائوں میں غیر معمولی سیلاب آتا ہے تو یہ سارا سیلابی پانی سندھ کی طرف بہایا جاتا ہے‘ پھر پنجاب کے ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ دیکھئے کتنا پانی سمندر تک جارہا ہے‘ اس وقت ہمارے’’بڑے بھائی‘‘ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سیلابی پانی سندھ میں کتنی تباہی لاتا ہے اور سارے سندھ سے کتنے لوگ سیلاب کی زد میں آکر بے گھر ہوجاتے ہیں‘ ہمارے’’بڑے بھائیوں‘‘ کو 2010 ء اور 2011 ء یاد نہیں ہوں گے مگر سندھ کے عوام کو یاد ہے، اول تو 91 ء کے معاہدے میں بھی سندھ کے کئی جائز حقوق کو نظر انداز کردیا گیا تھا مگر جو کچھ 91 ء کے پانی کے معاہدے میں طے ہوا تھا اس کو کیسے مسترد کیا گیا؟ یہ سب کچھ اس فیصلے کے نتیجے میں ہوا جس کے تحت طے کیا گیا کہ دریا میں پانی کی کمی کے دوران سندھ اور پنجاب میں پانی کی تقسیم نام نہاد’’ہسٹاریکل یوزز‘‘ کی بنیاد پر ہوگی‘ حالانکہ بعد میں رائے لینے پر قانون اور جسٹس منسٹری نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ 91 ء کے معاہدے پر ردوبدل فقط سی سی آئی کے اجلاس میں کیا جاسکتا ہے‘ مگر اول تو یہ فیصلہ وزارتی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں سندھ کا موقف ہے کہ وزارتی کمیٹی میں ہسٹاریکل یوزز کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا مگر مرکز اور پنجاب نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور پنجاب نے ڈی فیکٹو ویٹو کیا اور 1999ء سے مسلسل اس غیر آئینی فیصلے پر عمل ہورہا ہے جس کے نتیجے میں سمندر سال میں سے ساڑھے گیارہ ماہ دریا کے میٹھے پانی سے محروم ہوگیا ہے‘ اس کے نتیجے میں نہ فقط Sea Intrusion شروع ہوتی ہے مگر سندھ سے پلہ (مچھلی) ختم ہوگئی ہے‘ جھینگوں کی پیداوار بے پناہ حد تک کم ہوئی ہے‘ بڑا صوبہ چاہتا ہے کہ کسی طرح پنجاب میں کالا باغ ڈیم بنایا جائے‘ باقی تینوں صوبوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ تو نہیں کرسکا مگر منگلا ڈیم سے سندھ کے لئے پانی کی ترسیل کئی سال سے مکمل طور پر بند ہے حالانکہ منگلا ڈیم کے پانی پر جتنا پنجاب کا حق ہے اتنا سندھ کا بھی حق ہے‘ اس ساری صورتحال کی وجہ سے Sea Intrusion کے بے پناہ نقصانات تو ہورہے ہیں مگر 91 ء کے معاہدے کے تحت سندھ کو پانی کا اپنا حق نہ ملنے کی وجہ سے سارے سندھ میں مختلف فصلوں کی بوائی بے پناہ حد تک کم ہوگئی ہے‘ یہ بات کوئی نہیں سوچتا کہ یہ نقصان فقط سندھ کا نہیں مگر سارے ملک کا ہے۔ واضح رہے کہ سندھ میں خریف Early بھی ہوتا رہا ہے تو Late بھی ہوتا رہا ہے‘ ان دونوں عرصوں کے دوران خریف کے لئے سندھ کو پانی کی وافر مقدار میں ضرورت ہے مگر کافی سالوں سے سندھ کا خریف Suffer کررہا ہے‘ اس سال تو یہ حال ہے کہ ارسا نے اعلان کیا ہے کہ اس وقت تربیلا ڈیم خالی ہے لہذا ارسا نے سندھ کو مشورہ دیا ہے کہ اس سال Early خریف کی فصلوں کی بوائی ہی نہ کی جائے۔

.
تازہ ترین