• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اردو اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے خواتین نیوز اینکرز کو دوپٹے کا پابند بنانے کی درخواست پر پیمرا کو فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس خبر کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے شہباز مغل کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ ٹی وی چینلز پر خواتین اینکرز کو دوپٹے کا پابند بنانا پیمرا کی ذمہ داری ہے لیکن پیمرا اپنے ہی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا اس لیے عدالت پیمرا کو ضابطہ اخلاق کی پابندی کروانے کا حکم جاری کرے۔ سماعت کے بعد عدالت نے درخواست گزار کو خواتین ف اینکرز کو دوپٹے کا پابند بنانے سے متعلق ترمیمی درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی جبکہ پیمرا کو درخواست گزار کا موقف سن کر جلد فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں پیمرا اس مسئلہ پر کب غور و خوض کرتا ہے اور کیا فیصلہ سناتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دائر درخواست میں کس قسم کے حوالے دیئے گئے لیکن آئین پاکستان کے تحت یہ ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھائیں جو ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو اسلامی ماحول فراہم کر سکیں۔ ٹی وی چینلز کیا کر رہے ہیں اور کس قسم کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں اس بارے میں حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی پیمرا کو احکامات دے چکی ہے ٹی وی چینلز اور کیبل کے ذریعے فحاشی و عریانیت کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس معاملہ میں کچھ اجلاس بلائے اور پیمرا کو احکامات دیئے کہ ہر حال میں ٹی وی چینلز اور کیبل کو غیر اخلاقی اور فحش مواد سے پاک کیا جائے۔ گزشتہ چند سالوں میں اس معاملہ پر منتخب اسمبلیو ں خصوصاً قومی اسمبلی اور خیبر پختون خوا اسمبلی نے بھی متفقہ قرا ردا د وں کے ذریعے حکومت اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ میڈیا کے ذریعے فحاشی و عریا نیت پھیلانے کے عمل کو فوری روکا جائے۔ نہیں معلوم پیمرا کب اس معاملہ پر ایک فعال حکمت عملی اپناکر پاکستانی میڈیا کو ایک ایسی مہلک بیماری سے پاک کرے گا جس کا اگر فوری علاج نہ کیا گیا تو یہ بیماری پورے معاشرے میں پھیل کر ہمارے معاشرتی و مذہبی اقدار کو تباہ کر دے گی۔ اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے قانونی طور پر یہ پیمرا کی ذمہ داری ہے جسے وہ ادا کرنے میں ماضی میں مکمل ناکام رہا۔ اب دیکھتے ہیں کہ حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے احکامات کے بعد پیمرا اس مسئلہ کو کتنے جوش اور جذبہ کے ساتھ حل کرتا ہے۔ اب تو حالت یہاں تک پہنچ چکی کہ میڈیا میں حجاب کی بھی کھلی مخالفت کی جارہی ہے۔ اس بارے میں پہلے ہی میں دو کالم لکھ چکا اور پیمرا کے بڑوں سے ذاتی طور پر اور سوشل میڈیا کے ذریعے درخواست بھی کر چکا کہ اس ایشو پر پیمرا ازخود نوٹس لے کر میڈیا کی جواب دہی کرے تا کہ آئندہ ایسے معاملات میں ٹی وی چینلز احتیاط برتیں۔ پیمرا کے ایک صاحب کے مطابق حجاب کے اس حالیہ معاملہ پر میری رائے حتمی نہیں ہو سکتی او ر نہ ہی اس کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جا سکتا ہے کہ واقعی کوئی خلاف ورزی ہوئی۔ میرے مطابق حجاب کے معاملہ پر نہ صرف جھوٹ بولا گیا بلکہ ایسی کوریج کی گئی کہ حجاب مخالف رائے پیدا ہو۔ لیکن گزشتہ روز ( بروزہفتہ) جنگ اخبار میں ہی محترمہ ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر صاحبہ کا کالم ’’حجاب پر یہ اضطراب کیوں؟‘‘ شائع ہوا۔ ڈاکٹر صاحبہ کے کالم کی اہمیت اس لیے بہت ہے کیوں کہ وہ خود پیمرا کونسل آف کمپلینٹس لاہور کی رکن ہیں۔ یعنی پیمرا کو ٹی وی چینلز کے متعلق ملنے والی شکایات کو سننے والی کونسل کی رکن ہیں۔ اس کونسل کی سفارشات پر ہی پیمرا چینلز کو جرمانہ و سزا دیتا ہے۔ اب ذرا سنئے کہ پیمرا کونسل آف کمپلینٹس کی رکن ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر صاحبہ کیا کہتی ہیں: ’’.....حجاب کبھی بھی میرے معمولات حیات کا حصہ نہیں رہا۔ لہٰذا اس معاملہ کی وکالت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ تاہم (پنجاب میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر)رضا گیلانی (جو بظاہر ایک لبرل آدمی ہیں) کی طرف سے ایک مثبت اور عین اسلامی امر کی ترغیب کو جس منفی انداز میں اچھالا گیا، وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ ہماری کچھ دینی اقدار اور سماجی روایات ہیں۔ ان کی تقلید و حمایت کو ہمارے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حجاب بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ کیا ہم اس امر سے منکر ہو سکتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں خواتین کو پردے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر حجاب کے فروغ یا ترغیب کے لیے کوئی معمولی رعایت یا incentive کی تجویز دی گئی تو اس میں کیا قباحت تھی؟ کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے۔ مگر کیا یہی دین ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ہدایت نہیں کرتا؟ مان لینا چاہیے کہ وہ روشن خیال افراد یا حلقے، جو حجاب کی مخالفت میں سامنے آئے، ان کا نقطہ نظر درست تھا۔ مہذب سماج ہر ایک کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے اور اختلاف رائے کا حق دیتا ہے۔ مگر کیا صرف ’حجاب مخالف‘ طبقات کو اپنی بات کہنے اور منوانے کا حق حاصل ہے؟ حجاب کی تائید و حمایت سے متعلق نقطہ نظر کو رد کر دینا چاہیے؟ ایسی آوازوں کو لعن طعن کر کے خاموش کروا دینا چاہیے، جیسا کہ ہم نے کیا۔....... بات یہ ہے کہ ہر معاملہ کو مخصوص حالات اور پس منظر کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جانا چاہیے۔ حجاب کی تجویز کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے تھا۔ مگر ہم تو لٹھ لے کر وزیر موصوف کے پیچھے پڑ گئے۔ اگر مثبت با ت کی ترغیب کو اسی طرح کسی کا جرم قرار دینے کی روایت چل نکلی تو آئندہ کوئی بھی شخص اسلام یا اخلاقیات کی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔‘‘

.
تازہ ترین