• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک عورت کو لایا گیا جس پر گناہ کا الزام تھا ، لوگ اس کو پتھر مارنا چاہتے تھے۔ بعض روایات کے مطابق لوگ پتھر مار رہے تھے۔ بہرحال کچھ لوگوں نے اس بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بات کی۔ حضرت عیسیٰؑ نےعورت کو پاس بٹھایا اور زمین پر کچھ لکیریں کھینچتے رہے۔ اس عورت کو یہودیوں نے پکڑ ا تھا۔ اور ان کا کہنا تھا کہ ایسا فعل کرنے والے کو پکڑا جائے۔
حضرت عیسیٰؑنے اس موقع پر فرمایا کہ پہلا پتھر وہ شخص مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ مجمع آہستہ آہستہ چھٹ گیا۔ اور لوگ پتھر زمین پر پھینک کر چلے گئے۔
حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات یہ تھیں کہ اگر تمہارا دشمن بھی بھوکا ہے تو اس کو کھانا کھلائو۔
اب ہم آتے ہیں اپنے پیارے نبی آنحضورؐ (جن پر کروڑوں اربوں درود و سلام)کی تعلیمات کی طرف۔ آپ ؐ پر ہر روز ایک عورت کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ چند روز وہ عورت نظر نہ آئی، آپؐ نے معلوم فرمایا تو پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے۔ آپؐ اس کے گھر اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ ذرا دیر کو سوچیں کہ آنحضورؐکی تعلیمات کیا تھیں، کوڑا پھینکنے والی کو نہ صرف معاف فرمایا بلکہ اس کی عیادت بھی کی۔ پھر آپؐ نے یہودیوں کو ٹھہرنے کے لئے جگہ دی۔ کیاآج ہم سب آنحضورؐ کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں؟اس برصغیر پاک و ہند میں اولیا کرام اور صوفیوں کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ بیان سے باہر۔ ایک ایک شہر میں آپ کو دس دس ولی اور صوفی مل جائیں گے۔ جنہوں نے بے لوث ہو کر اسلام اور انسانیت کی بھلائی کے لئے کام کیا۔ آج کے پیروں کی طرح نہیں۔ اولیا کرام اور صوفیوں کی تعلیمات کا جائزہ لیں، انہوں نے یہاں پر اسلام صرف اپنے کردار، اپنے افکار اور حسن سلوک سے پھیلایا۔ ایسے ولی کامل بھی گزرے ہیں جن کے ہاتھ پر ہزاروں اور لاکھوں ہندو ، سکھ اور عیسائی مسلمان ہوئے۔ کیا انہوں نے تلوار چلائی تھی؟ اللہ کے ولی اور صوفی تو اتنے بے ضرر ہوتے ہیں کہ وہ زمین پر چلنے والی چیونٹی کو بھی تکلیف نہیں د یتے۔ بابا بلھے شاہؒ، وارث شاہؒ، خواجہ فریدؒ، حضرت علی ہجویریؒ، حضرت میاں میرؒ، حضرت شاہ جمالؒ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، حضرت بہائو الدین زکریاؒ، حضرت شاہ شمس تبریزؒ، حضرت پیر مکیؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، حضرت لال شہباز قلندرؒ، حضرت امام بریؒ اور کتنے بڑے نام ہیں کہ ان کی تعلیمات اٹھا کر دیکھ لیں ، پڑھ لیں انہوں نے اپنے حسن سلوک، اخلاق و کردار سے برصغیر کے لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں تھیں۔ آج کیا ہو رہا ہے؟ برداشت نام کی کوئی چیز نہیں۔
آج اپنے وطن ہی میں اپنے ہی مسلمانوں بھائیوں کے ہاتھوں ایک دوسرے کی عزتیں، جان و مال محفوظ نہیں۔ کتنی افسوسناک صورت حال ہے مشترکہ ہندوستان میں بھی مسلمان بے چارے سکھوں اور ہندوئوں کے ہاتھوں قتل ہوتے اور مار کھاتے رہے اور اب اپنے دیس میں کئی بے گناہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں قتل اور مارپیٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ مردان کی یونیورسٹی میں مشال خان کو جس طرح تشدد کرکے قتل کیا گیا اس نے برما میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی یاد تازہ کردی ہے۔ قومی اسمبلی نے مشال خان کے قتل کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کی۔ ڈی آئی جی مردان نے رپورٹ دی ہے کہ مشال خان کے ساتھ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی پرانی پرخاش تھی۔ پھر مشال خان کو قتل کرنے کے لئے عہد کیا جاتا ہے اور یہ کیسی یونیورسٹی انتظامیہ ہے جو اسٹوڈنٹس کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کو خود قتل کرنے کے منصوبے بناتی ہے۔ یہ حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر حکومت نے اس واقعے میں ملوث افراد کو چاہے وہ یونیورسٹی انتظامیہ ہو، چاہے اسٹوڈنٹس ہوں کڑی سزا نہ دی تو پھر پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں اس قسم کے واقعات ہونے کے امکان کو آپ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اسٹوڈنٹس کے اپنے اساتذہ اور انتظامیہ کے ساتھ اختلافات ہو سکتے ہیں مگر اختلافات کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسٹوڈنٹس کو قتل کرا دیں یا اسٹوڈنٹس اپنے کسی استاد کو قتل کردیں۔کئی برس قبل بولان میڈیکل کالج میں ایک اسٹوڈنٹ نے اپنے ایک استاد کو صرف اس بات پر قتل کردیا تھا کہ اس نے فیل شدہ اسٹوڈنٹ کو پاس کرنے سے انکار کردیا تھا۔
عدم برداشت کا رویہ ہمیں کس طرف لے جا رہا ہے کتنا آسان کام ہے کہ آپ کسی پر کوئی بھی الزام لگا دیں اور اس کے بعد اس کو مار دیں۔ کیا اسلام کی تعلیمات کا پہلا درس برداشت اور حسن سلوک نہیں؟ کیا مسلمان کو مسلمان کا بھائی نہیں کہا گیا، کیا ہمسائے کے حقوق نہیں بتائے گئے۔ حقوق العباد پر کتنا زور دیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ جس کسی نے ایک جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ ابھی ہفتہ بھر پہلے لاہور میں ایک نویں جماعت کے طالب علم کی آنکھیں نکال دی گئیں ، کسی سول سوسائٹی نے اس پر آواز نہ اٹھائی۔ دور جہالت اور مغل دور میں دی جانے والی سزائوں کی یاد دلا دی۔ کس قدر ظلم ہے کہ زندگی بھر کے لئے اسے معذور بنا دیا۔ہماری حکومت کے اعلیٰ عہدیدار ہمیشہ اس قسم کے واقعات کے بعد یہ بیان داغ دیتے ہیں کہ عبرتناک سزا دی جائے گی۔ ارے بھائی آپ کے قانون میں کون سی عبرتناک سزا ہے۔ پھانسی کے علاوہ اس عبرت ناک سزا کا ذکر تو فرما دیں۔ کیا آنکھیں نکالنے والوں کی آنکھیں نکالیں گے؟ کیا قتل کرنے والوں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈالیں گے؟ کیا ہاتھی کے پائوں تلے کچلنے کی سزا دیں گے؟اگر حکومت نے بے گناہ افراد کو ظالم لوگوں کے ظلم سے بچانا ہے تو پھر آپ کو قوانین میں تبدیلی کرکے ایسے واقعات میں ملوث مجرموں کے لئے کڑی سزائیں دینے کے نئے قوانین بنانے ہوں گے۔ صرف قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذمتی قراردادوں کو پاس کرنے سے کام نہیںچلے گا۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے لاہور ایئر پورٹ پر جو افسوس ناک واقعہ پیش آیا اس کے بارے میں حکومت نے بالکل خاموشی اختیار کرلی ہے۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ ایئر پورٹ پر ایف آئی اے، اے ایف ایس اور پی آئی اے کے عملے کا رویہ انتہائی بدتہذیبی کا ہوتا ہے۔ آج تک ان محکموں کے ملازمین نے کبھی خوش دلی اور چہرے پر خوشگوار تاثرات رکھ کر بات نہیں کی۔ اسی طرح پی آئی اے کے عملے کے بعض لوگوں کا رویہ بھی انتہائی غیر شائستہ ہوتا ہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان سے باہر ممالک میں کام کرنے والے لوگ اس ملک کو زرمبادلہ کما کر دیتے ہیں مگر کبھی کسی حکومت نے اوورسیز پاکستانیوں کو کوئی سہولت نہیں دی۔
ایف آئی اے کی ایک ملازم عورت نے جس انداز میں اس خاتون مسافر اور اس کی بچی کو مارا۔ کیا انہوں نے ڈاکہ ڈالا تھا؟ کیا ان کے پاس منشیات تھیں؟ کیا وہ تمام قانونی تقاضے پورے کرکے ایئرپورٹ کی لائونج میں داخل نہیں ہوئی تھیں؟ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ محکمے صرف ڈر و خوف کی علامت ہیں ان کے ملازمین مختلف دفاتر میں اپنا تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ میں ایف آئی اے سے آیا، میں نیب سے آیا ہوں، میں اینٹی کرپشن سے آیا ہوں، میں اے جی آفس سے آیا ہوں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان محکموںکے افراد اور ملازمین تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے ، محکمہ صحت اور دیگر محکموں میں ملازمتیں دلانے کے لئے بھی دبائو ڈالتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے کسی ایئر پورٹ پر کہیں بھی ایسا عملہ تعینات نہیں جو خوش اخلاق ہو۔ جب تک وی وی آئی پی کلچر زندہ رہے گا عوام رلتے رہیں گے۔ اگر ایئرپورٹ پر تعینات عملے کو پتہ ہو کہ عام مسافروں کی طرح صدر،وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور ممبران اسمبلی کو آنا ہےاور وہ کبھی بھی بغیر پروٹوکول کے آ کر سفر کرسکتے ہیں۔ یقین کریں ایئر پورٹس کا ماحول درست ہو جائے گا۔ عملہ تہذیب یافتہ اور تمیز والا ہو جائے گا، شائستہ زبان استعمال کرے گا۔

.
تازہ ترین