راولپنڈی (نمائندہ جنگ / نیوز ایجنسیز) پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نےکہا ہے کہ جہادصرف ریاست کا حق ہے ، بھٹکے ہوئے لوگ جہاد نہیں فساد کررہے ہیں، پاکستان نے بہت کرلیا، اب دنیا ڈومور کرے، مسلط جنگ کومنطقی انجام تک پہنچائیں گے ، عالمی طاقتیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں، امریکا سے امداد نہیں عزت کے ساتھ تعلقات چاہتے ہیں، کنٹرول لائن پرنہتے کشمیریوں کو نشانہ بنانے کا عمل بندکیا جائے، پاکستان ناکام ہوا تو خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا ، دہشت گردی کیخلاف جنگ ہماری بقاکی جنگ ہے ہمیں اسے آئندہ نسلوں کیلئےجیتنا ہے،سی پیک خطے کا سرمایہ اورامن کی ضمانت ہے، افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑ سکتے۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ یہاں جی ایچ کیو میں یوم دفاع کی مرکزی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ تقریب میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ،ایئر چیف مارشل سہیل امان، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ذکااللہ، سابق آرمی چیف اور اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل (ر) راحیل شریف، سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، وزیر وفاع خرم دستگیر ، وزیر خارجہ خواجہ آصف ، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ ، سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفرالحق، سینیٹ کی دفاع کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید ، وزیر داخلہ احسن اقبال ، وزیر ماحولیات مشاہد اللہ خان ،وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ، چین کے سفیر سن وی ڈونگ، ایڈمرل (ر) سروہی اس تقریب کے آرگنائز کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ندیم رضا اور دیگر کور کمانڈرز کے علاوہ فوج کے جرنیلوں اور ایئر فورس کے ایئر مارشلز اور بحریہ کے اعلیٰ افسروںاور ان کی بیگمات نے شرکت کی ۔
علاوہ ازیں آرمی چیف نے شہدأ کی یادگار پر پھول چڑھائے جبکہ پاک فوج کے دستے نے سلامی پیش کی اور شاندار پریڈ کا مظاہرہ کیا گیا ۔ آرمی چیف نے اپنی خطاب کے آغاز میں شہدائے وطن کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ جو قومیں اپنے شہدأ کو بھول جاتی ہیں، تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔ یومِ دفاع تجدید عہد اور تجدید وفا کا دن ہے۔ میری طرف سے، پاک فوج کی طرف سے اور تمام پاکستان کی طرف سےشہدائے وطن کی عظمت کو سلام۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مزید کہا کہ ہماری قومی زندگی بیشک مشکلات کا شکار سہی مگر دفاع وطن ہمارا قومی امتیاز ہے، وطن کی پکار پر ہمیشہ لبیک کہا ، دہشت گردی کیخلاف جدوجہد میں ہماری مکمل کامیابی کیلئے قوم کا جذبہ، تعاون اور آگاہی بہت ضروری ہے، یاد رکھئے کہ فوج دہشتگردوں کو ختم کر سکتی ہے مگر دہشتگردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ وطن کا ہر شہری ردالفساد کا سپاہی ہو۔ اس مقصد کے لیے میڈیا کا مثبت کردار بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ نظریاتی اور ذہنی بھی ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ آئیے ہم ملکر ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں طاقت کا استعمال آئین اور قانون کے مطابق، صرف ریاست کے ہاتھ میں ہو۔ میں بھٹکے ہوئے لوگوں سے بھی کہوں گا کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے۔ آپ کے طرزِ عمل سے آپ کے وطن اور آپ کے لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ آپ کی لگائی ہوئی آگ کی قیمت نہ صرف تمام پاکستان ادا کر رہا ہے بلکہ ہمارے دُشمن بھی اِس سے بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ہمارے دین میں واضع حکم ہے کہ جہاد، ریاست کی ذمہ داری ہے اور اسی کا حق ہے۔ اور یہ حق ریاست کےپاس ہی رہنا چاہیے۔
(Monopoly of violence should be the prerogative of the state, only)۔ اپنے یقین، اپنے ایمان اور اپنی روایات کے لیے ہمیں کسی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں۔ قومی اتحاد آج وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی مذہب، فقہ، ذات یا لسان کی بنیاد پر ہماری بنیادیں کھوکھلی کرے۔ ہم نے ماضی قریب میں بہت نقصان اُٹھا لیا۔ اَب دُشمن کی پسپائی اور ہماری ترقی و کامرانی کا وقت ہے۔ خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سیکورٹی کے حوالے سے ہم حکومت اور دیگر اداروں کیساتھ بہت سی ایسی اصلاحات پر رابطے میں ہیں جن کے بغیر قومی ایکشن پلان شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اِن میں تعلیمی درسگاہوں اور مدارس کی اصلاحات، پولیس اصلاحات اور دہشتگردوں کی سرکوبی کیلئے قانونی اصلاحات بھی شامل ہیں، مگراِن تمام کوششوں کے باوجود آج ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کے عفریت کا بلاتفریق مقابلہ نہیں کیا، اگر پاکستان نے اِس جنگ میں کافی نہیں کیا تو پھر دُنیا کے کسی بھی ملک نے کچھ نہیں کیا۔ کیونکہ اتنے محدود وسائل کے ساتھ اتنی بڑی کامیابی صرف پاکستان کا ہی کمال ہے، آپریشن شیردل سے لے کر راہِ راست، راہِ نجات، ضربِ عضب اور اب ردالفساد تک ہم نے ایک ایک اِنچ کی قیمت اپنے لہو سے ادا کی ہے۔
اور میں اب یہ کہتا ہوں Now the world must do more)ـ ہم اِس جنگ کو جو ہم پر مسلط کی گئی ہے، انشاء اللہ منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک پاکستان امن کا گہوارہ نہ بن جائے۔ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور ہمیں اِسے آنے والی نسلوں کے لیے جیتنا ہے۔ عالمی طاقتیں اگر اِس کام میں ہمارے ہاتھ مضبوط نہیں کر سکتیں تو ہمیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار بھی نہ ٹھہرائیں۔ آج کا پاکستان دہشتگردی کے خلاف کامیابی کی ایک روشن مثال ہے۔ خدانخواستہ اگر ہم ناکام ہوئے تو یہ خطہ مکمل طور پر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ ہم دُشمن کی ان تدابیر پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں وہ بلوچستان کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
میں ان تمام ملک دُشمن عناصر کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم پوری توجہ کیساتھ ان کے گھناؤنے عزائم اور دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمیں بلوچستان کے غیور عوام پر فخر ہے جنہوں نے دہشتگردوں اور علیحدگی پسندوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ دُشمن کی اِن کوششوں کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ سی پیک کو نشانہ بنایا جائے اور اس طرح پاکستان کے عوام کے مستقبل کے ساتھ ساتھ پاک چین دوستی پر بھی ضرب لگائی جائے۔انہوں نے کہا کہ سی پیک پاک چین تعلقات کا مظہر پاکستان بلکہ پورے خطے کا سرمایہ اور امن کی ضمانت ہے، کشمیر میں کھلی نا انصافی اور ہمیں دولخت کرنے پر بھارت کا کردار سب کے سامنے ہے۔
اَب اس کوشش میں دہشتگردی کی کُھلی معاونت اور ہمارے پانیوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہو چکا ہے، لائن آف کنٹرول پر معصوم اور نہتے شہریوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنانے کا عمل بند کیا جائے۔ ہندوستان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر موجود لاکھوں نوجو انو ں کی پُرامن جدوجہد پاکستان یا آزادکشمیر سے دراندازی کی محتاج نہیں۔ یہ امر ہندوستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ اِس مسئلہ کے دیرپا حل کے لئے پاکستان کے خلاف گالی اور کشمیریوں کے خلاف گولی کے بجائے سیاسی اور سفارتی عمل کو ترجیح دے۔ پاکستان اس مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کے لئے اپنی سفارتی، اخلاقی، سیاسی حمایت جارے رکھے گا اور دنیا کی کوئی طاقت ہم سے یہ حق چھین نہیں سکتی۔
آرمی چیف نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر ہتھیار ہم نہیں لائے اور اب بھی، یہ مہلک ہتھیار ہمارے نزدیک صرف ایک طاقت کے نشے میں چور دشمن کی یلغارکے جواب میں امن کی ضمانت ہیں، اس کے علاوہ سپر پاورز کی شروع کردہ جنگوں کی قیمت ہم نے دہشت گردی، انتہا پسندی اور اقتصادی نقصان کی صورت میں ادا کی ہے۔ ہم نے افغانستان کو بھی اپنی بساط سے بڑھ کر سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔