• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کیا نواز شریف اس قومی بیانئے پر مستقل بالذات قیام پذیر رہیں گے؟ صحافتی دانش وروں میں سے ایک صاحب نظر کے بعض اشاریے، اس معاملے میں شاید کوئی استعاراتی رہنمائی کر سکتے ہیں مثلاً (1) اب پورے شریف خاندان کو نشان عبرت بنانے کی منصوبہ بندی ہے (2) کیا نواز شریف کا اگست 1977ہونے والا ہے؟ دونوں اندیشوں کی نوعیت الگ الگ ہے، ایک کو آپ پیش گوئی کے طور پر لے سکتے ہیں، دوسرے کو امکان کے درجے پر رکھنا ہو گا، دونوں میں البتہ نواز شریف کے بارے میں اہداف کی لہریں نہایت حساس اور تشویشناک لرزشوں کا روپ لئے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے تاریخی شعور کے حصول پر محنت کے عادی افراد نواز شریف کے حوالے سے ایسی متوقع کیفیات یا ایسے حالات کی واقعی آمد کبھی نہ چاہیں گے، ان کی ذات کا مسئلہ نہیں، مسئلہ ان کے اجتماعی مرتبہ و مقام اختیار کرتے چلے جانے نے پیدا کیا ہے، گویا اب انہیں یا ان کے خاندان کو کسی حالت کا نشانہ بنانے کی سعی کرنا یا ان پر پاکستان کے ماضی کی تاریخ کا کوئی باب وا کرنا، پاکستان کی جغرافیائی سلامتی پر شاید آخری وار کے طور پر یاد رہ جائے گا۔
ایک بار پھر خدانخواستہ یہ ایسا ہی ہولناک نقشہ ہے!
لیکن کیا نواز شریف کا موجودہ قومی بیانیہ ان مخلص یا غیر مخلص، ان مذہبی یا سرمایہ دار قوتوں کے مفادات سے ہم آہنگ ہے جو پاکستان میں آئینی حکومتوں اور آئینی تہذیب کی حکمرانی کی ہر متوقع صبح کو اپنے ’’بلیک ہولز‘‘ میں غائب کرتی رہی ہیں؟ ظاہر ہے، اس کا جواب سو فیصد نفی کے علاوہ ممکن ہی نہیں، نواز شریف نے ایبٹ آباد کے جلسے میں ان قوتوں کو اپنے چیلنج کا یہ قومی بیانیہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کے انداز اور مقدار کی شدت میں کہیں زیادہ اضافہ کر دیا۔
ایبٹ آباد کے جلسے میں ان کی اس قومی اپروچ میں ان بڑھوتریوں کو آپ ان کے الفاظ کی منتخب جہتوں میں مکمل فراوانی کے ساتھ کارفرما دیکھ سکتے ہیں، انہوں نے کہا ’’چار پانچ لوگ کروڑوں عوام کی قسمت کا فیصلہ نہیں کر سکتے، پاناما کا ڈرامہ رچایا گیا، جس پٹیشن کو فضول کہہ کر خارج کیا گیا بعد میں اسے مقدس قرار دیا گیا، پرویز مشرف کو کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جاتا، کوئی سوال تک نہ پوچھا گیا بلکہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی، رہزنوں کو جواز دیا گیا، آئین سے وفاداری کا حلف لے کر پی سی او کے حلف لئے گئے، اس سوال کا جواب یہ جج دے سکتے ہیں جو منصف بنے ہوئے ہیں۔ آئین روند کر بہت کھیل کھیلے جا چکے، ایسی سزا ایسے فیصلے، ناانصافیاں اور جھوٹے پیمانے بدلنے ہوں گے، پاناما کا سب سے بڑا تماشا لگا کر مجھے اور میرے خاندان کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، انمول ہیروں پر ایک جے آئی ٹی بنائی گئی جسے تحقیقات کے نام پر سیر سپاٹے پر بھیجا گیا لیکن میرے خلاف ایک پیسے کی کرپشن کا ثبوت نہ مل سکا، جب ساری کوشش ناکام ہو گئیں تو کہا بیٹے سے تنخواہ نہیں لی اس لئے نواز شریف کو نااہل کیا جاتا ہے۔ میں نے عدالتی فیصلے کے بعد وزیراعظم ہائوس چھوڑا اور گھر چلا گیا، میری نظرثانی اپیل میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ قافلے کیوں لٹتے رہے ہیں، راہزنوں سے گلہ نہیں رہبری کا سوال ہے، کیا بات ہے، قوم کو معلوم ہے آپ نے کبھی راہزنوں سے کوئی گلہ نہیں کیا، 70سال میں کوئی راہزن کٹہرے میں نہیں آیا، کیا منتخب نمائندوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا اور آئین توڑنے والوں کو اسی طرح چھوڑا جاتا رہے گا، راہزنوں سے سوال ہی نہیں کیا گیا تب ہی ملک میں بار بار جمہوریت پٹڑی سے اترتی رہی، انمول ہیروں سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی حقیقت ایک دن سب کے سامنے آ جائے گی، موت سے ڈرتا ہوں نہ جیل سے!‘‘
نواز شریف کا موجودہ قومی بیانیہ عوام کی جذباتیت کا نمائندہ نہ بھی ہو (حالانکہ سو فیصد نمائندہ ہے) تب بھی پاکستان کی تاریخ اس بیانئے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ ’’70سال میں راہزنوں کے عنوان کی تفصیل کا ایک ایک لفظ اس لفظ کی جتنے حرفوں سے بنت ہوئی اور اس کے ہر لفظ پر جتنے نقطے نظر آتے ہیں، ہر نقطہ پاکستان میں ’’آئینی راہزنی‘‘ کی اس تاریخ کا غیر متبدل گواہ ہے! اور ’’جے آئی ٹی کے ہیروں کی حقیقت ایک روز سامنے آ جائے گی‘‘ اس پر پاکستان کے ماضی کی روشنی میں یقین کی حد تک ایمان لانے میں کوئی حرج نہیں، کیا آج ہم، پاکستانی وزرائے اعظم لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، حسین شہید سہروردی ملک فروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو اور ظفر اللہ خان جمالی کے پس منظر میں پیدا شدہ حقائق سے کافی حد تک آگاہ نہیں ہو چکے، جو آگاہی باقی رہ گئی ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی کمی پوری ہو رہی ہے۔ آصف علی زرداری کو کرپشن کے سمندر کا سب سے بڑا تیراک قرار دے کر ایوان اقتدار سے بے دخل کرنے والا غلام اسحاق خاں، کچھ عرصہ بعد اسی سے دوبارہ وزارت کا حلف کیوں لیتا ہے؟ کیا اس سمیت جو کچھ اور ہوتا رہا، ہم ان کہانیوں سے قریب قریب پوری طرح آگاہ نہیں ہو چکے؟ وہ جو ’’قیادت کا امتحان‘‘جیسے غیر واقعاتی غیر منطقی اور غیر حقیقی سوال اٹھاتے ہیں، کیا ہمیں ان کے عقل کی حقیقت سے محروم ہونے کا پتا نہیں چل چکا، ہم انہیں ’’طاقتور ‘‘ کا مہینہ ’’20دن‘‘ کا بھی ہو جاتا ہے، جیسے سوال کر کے انہیں اب زچ نہیں کر دیتے ہیں، اس لئے جے آئی ٹی کی حقیقت کا کل کلاں سامنے آ جانا، نواز شریف کی سیاسی سخن طرازیوں کا شاخسانہ نہیں پاکستان کے بدقسمت تاریخی مقدر کا تسلسل ہو گا۔
ملک و قوم کی اجتماعی ابتری اور قومی سلامتی کو لاحق تمام ممکنہ ’’کینسروں‘‘ سے متعلق تمام بنیادی سوالات غیر متعلق ہو چکے لاعلمی کی فکر مندی جیسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی، اصلاً پاکستانی عوام کے ذہنی علم نے انہیں متوحش کر رکھا ہے، وہ کسی کے راستے بند کرنے پر متردد نہیں ہیں ایسے مناظر کے محافظ تشکیل کنندگان کے علاج کی انہیں کوئی سبیل سمجھ نہیں آ رہی، وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان ریمارکس کو اپنے دل کے گوشہ احترام میں جگہ دیتے ہیں یعنی ’’حکومت بے بس ہے، ان لوگوں کو کیوں بیٹھنے دیا، مسئلہ مذہبی یا سیکولر نہیں، شہریوں کے حقوق کا ہے۔ عدالت کے کندھے پر رکھ کر بندوق نہ چلائیں، احکامات کے باوجود فیض آباد کیوں خالی نہیں کر دیا، احترام کے بعد لیکن پاکستانی عوام مزید گویا نہیں ہوتے، اس لئے کہ وہ ان مناظر کے محافظ تشکیل کنندگان کے علاج کی کوئی مستقل سبیل نکالنے کی فکر و سوچ میں غلطاں ہیں، بعینہٖ آج مورخہ 21؍ نومبر 2017کو پاکستانیوں کو اپنی قومی پارلیمنٹ میں معزول وزیراعظم کی جماعت کے ان ’’72‘‘ حکومتی ارکان کے ضمیر کی داستان پڑھنی ہے جن کی عدم حاضری کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کیسی تحریر پڑھنا پڑتی ہے؟

تازہ ترین